ہوم << تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش - احسن سرفراز

تحریک انصاف،جماعت اسلامی اور موجودہ سیاسی کشمکش - احسن سرفراز

احسن سرفراز ملک میں پچھلے کئی روز سیاسی طور پر خاصے ہنگامہ خیز رہے ہیں. پانامہ کا ہنگامہ دن بدن بڑھتا ہی جا رہا ہے. جہاں حکومت نے اپوزیشن کے پانامہ سے متعلق مشترکہ مطالبات کو جان بوجھ کر لٹکائے رکھا، وہیں اپوزیشن کی جماعتیں بھی اس مسلے کو حل کرنے کی حکمت عملی میں اختلاف کا شکار نظر آتی ہیں. یہاں ہم اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتحادی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی پانامہ کے حوالے سے حکمت عملی کا جائزہ لیتے ہیں.
کچھ دوست PTI کے موجودہ دھرنے و تحریک کا موازنہ قاضی حسین احمد مرحوم کے دھرنوں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ جماعت اب ویسے دھرنے کیوں نہیں دیتی؟ تو قاضی صاحب کی لیڈر شپ اور خان صاحب کی لیڈر شپ میں زمین آسمان کا فرق ہے، قاضی صاحب نے کارکن سے آگے بڑھ کر خود مار اور آنسو گیس کھائی جبکہ خان صاحب اور تحریک انصاف کی دوسری لیڈر شپ بنی گالہ محل میں بیٹھی رہی اور کارکن مار، آنسو گیس کھاتا رہا.
ہمارے ملک میں چند نادیدہ قوتیں حکومتوں کو گرانے کے لیے دوسری سیاسی جماعتوں کو استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد نکلنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتی ہیں. قاضی صاحب سے بھی 1996ء میں بینظیر حکومت کے خلاف ”پہلے احتساب پھر انتخاب“ کا وعدہ کر کے تحریک چلوائی گئی لیکن پھر اقتدار اپنے اس وقت کے چہیتے نواز شریف کے حوالے کر دیا گیا. دوسری بار 1999ء میں نوازشریف کو ہٹوانے کے لیے جماعت کو پھر استعمال کیاگیا اور مشرف خود مارشل لاء لگا کر بیٹھ گیا. اب جماعت نے ماضی کے تجربات سے سیکھ لیا ہے کہ ”ایمپائر“ کے اشارے پر ہنگامہ آرائی کرنے سے نقصان ملک اور جمہوری عمل کا ہوتا ہے اور جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آتا، اس لیے جماعت نے اس طرح کی کسی بھی قسم کی منفی مہم جوئی سے توبہ کر لی ہے اور یہی بات خان صاحب کو سمجھاتی ہے، لیکن خان صاحب کو پہلے دھرنے کے بعد بھی عقل نہیں آئی اور اب پھر خفت اٹھانی پڑی ہے، جبکہ دوسری طرف اداروں کے ذریعے احتساب کا جماعت کا فیصلہ درست ثابت ہوا اور فیصلہ اب اعلیٰ عدلیہ کے ہاتھ میں آچکا ہے. پانامہ لیکس کے خلاف پہلی پٹیشن سراج الحق نے ہی دائر کی تھی، اس مقدمے میں جماعت حکومت کے خلاف فریق ہے اور سراج الحق اپنے وکیل اسد منظور بٹ کے ذریعے اس کیس کی پیروی کے لیے خود سپریم کورٹ باقاعدگی کے ساتھ جا رہے ہیں. اب جب جماعت کا مؤقف وقت نے درست ثابت کر دیا ہے توخان صاحب کے حمایتی یوٹرن لیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب نےدھرنا ختم کر کے میچور فیصلہ کیا ہے. ان سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ کوئی میچورٹی ویچورٹی نہیں مجبور ہوکر دھرنا ختم کیا گیاہے. عدالت میں کیس تو پہلے ہی لگ چکا تھا اور ذرا سی بھی عقل رکھنے والا عدالت سے اسی فیصلے کی توقع رکھ رہا تھا. دراصل خان صاحب اس بار پھر ایمپائر کو متاثر کرنے میں بری طرح ناکام رہے. ساری کی ساری قیادت بنی گالہ میں پلاننگ کے نام پر چھپ کر بیٹھ گئی،گنڈا پور کی خرمستیوں اور ”شہد“ کی بوتل نے تحریک انصاف کو الگ مذاق کا نشانہ بنوا دیا، صرف پرویز خٹک نے ڈیڑھ دو ہزار کارکنان کے ساتھ کچھ مزاحمت دکھائی، باقی PTI کا سپورٹر اس طرح کی احتجاجی تحریک کا تجربہ نہیں رکھتا، عام آدمی اور خود تحریک انصاف کا کارکن باہر نکلا ہی نہیں.
اس کے مقابلے میں جماعت اسلامی بالکل متوازن اور ایشوز کی سیاست کرتی نظر آئی. اس نے ہر چیز کو تحریک انصاف کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا، جماعت ببانگ دھل حکمرانوں کی غلطیوں پر انھیں للکارتی بھی ہے، لیکن خان صاحب کی طرح کسی اشارے پر ہنگامہ آرائی کی سیاست نہیں کرتی، موجودہ حالات میں اسٹیبلشمنٹ کسی بھی موقع پر جماعت کو استعمال کرنے میں ناکام رہی ہے. اپنی جلد بازیوں اور بار بار یرغمال بننے کے باعث خان صاحب خود سنجیدہ حلقوں میں اپنی سپورٹ کھوتے جا رہے ہیں اور ان کی حیثیت شیخ رشید کی طرح مجروح ہوتی جا رہی ہے. موجودہ صورتحال میں جماعت کا سیاسی مستقبل PTI کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں نہیں بلکہ دینی جماعتوں کے اتحاد میں ہے. جماعت کی اصل سیاسی طاقت اور فوکس خیبرپختونخوا ہے، وہاں دینی اتحاد فیصلہ کن برتری حاصل کر سکتا ہے. وقت نے ثابت کیا ہے کہ جلد بازی اور ردعمل کی سیاست وقتی طورپر تو نظروں کو خیرہ کرتی ہے لیکن اس کا انجام خفت کی صورت میں ہی نکلتا ہے.
آنے والے دنوں میں پانامہ چوری کیس پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین کیسز میں سے ایک بننے جا رہا ہے، اب وکلاء پر منحصر ہے وہ اسے کس طرح پیش کرتے ہیں. میں سمجھتا ہوں عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے گی اور اگر اللہ نے چاہا تو اس ملک میں کرپشن، موروثیت اور سٹیٹس کو، تینوں کو اس کیس سے شدید دھچکہ پہنچے گا. دعا ہے کہ آنے والا وقت پاکستان کی بہتری کا ہو اور قوم کی دولت لوٹنے والوں سے پائی پائی کا حساب لیا جائے.