ہوم << تحریک انصاف کے دوستوں کے نام - ملک محمد بلال

تحریک انصاف کے دوستوں کے نام - ملک محمد بلال

ملک بلال میری ناقص عقل کے مطابق ملکِ پاکستان میں گاہے گاہے چلنے والی اور اپنے اہداف حاصل کرنے والی تیں تحریکیں ہیں. آئیے اُن پہ ایک نظر ڈالتے ہیں.
ملک میں پہلی تحریک ختم نبوت کی تھی. پاکستان کی تاریخ گواہ ہے، شہادتوں اور عزیمت کی تاریخ رقم ہوئی اور اس نے ایک بار پھر سے قرون اولی کی یاد تازہ کردی. تحریک انصاف کے دوستوں سے کہنا چاہوں گا کہ آپ ختم ِ نبوت کی تحریک پڑھیے تاکہ آپ جان سکیں کہ کس طرح علماء و مشائخ، سول سوسائٹی اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے فرد نے حاکمِ وقت کے ظلم و جور کو برداشت کیا لیکن زبان پر ایک بھی حرفِ شکایت نہ لائے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ حق پہ ہیں اور حق پرستوں کا شیوہ نہیں نظریوں بندیوں یا پھر زبان بندیوں کے ڈر سے اپنے کارکنوں کو کھلے آسمان تلے چھوڑا جائے. پھر سن 53ء کا وہ منحوس دن بھی اسی لاہور نے دیکھا جب لاہور کی سڑکوں کو عاشقانِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خون سے رنگیں کیا گیا لیکن یہ سارا ظلم بربریت ان کے پایہ استقلال میں لغزش پیدا نہ کرسکا اور پھر اسی پاکستان کی تاریخ نے وہ دن بھی دیکھا کہ جب یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی، ختم نبوت کے شہیدوں کا مقدس لہو کام آیا اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیت اور اس کی ذریت کوایک غیر مسلم اقلیت قرار دیا. آپ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ آپ تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں جیسا کہ ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے تو پھر گبھرائیے نہیں، ابھی تو آپ اس کا عشر عشیر بھی نہیں جھیل پائے جو اس سے پہلے چلنے والی تحریکوں کے کارکنان جھیلتے آئے ہیں.
آگے چلیے.
مُلک میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایم آر ڈی کے نام سے دوسری بڑی تحریک چلائی گئی. آپ اس تحریک کا بھی بغور مطالعہ کرلیجیے، لیڈر اور کارکنان جیل کی صعوبتیں برداشت کرتے نظر آتے ہیں. یہاں بھی یہ بات سوچنی چاہیے کہ ابھی تو ابتداء ہوئی ہے وگرنہ یہ تو تاریخ رہی ہے، جب بھی کوئی تحریک اٹھی ہے اسے طاقت کے زور پر ہی کچلنے کی کوشش کی گئی ہے، یہاں بھی تاریخ آپ کو ایک ہی سبق دیتی نظر آئے گی کہ
ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت
مظلوم کے حصےّ میں تسلی نہ دلاسہ
اور آخر میں ماضی قریب کی وکلا تحریک دیکھ لیجیے جسے میری عمر کا ہر نوجوان اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہے، آپ کو اس میں بھی حاکم وقت ظلم کا ہر حربہ استعمال کرتا نظر آئے گا، اور میں آج بھی جب مال روڈ سے کالا کوٹ پہنے گردن اکڑائے گزرتا ہوں تو علی احمد کُرد کے خون کی خوشبو کہیں آس پاس سے ہی آرہی ہوتی ہے.
ان مثالوں سے بتلانا صرف یہ مقصود تھا کہ ظلم کی تاریخ نئی نہیں اور نہ ہی حق پرست آج پیدا ہوئے ہیں لیکن تاریخ سنہری حروف میں انہے ہی یاد رکھتی ہے جو میدان میں کھڑے رہتے ہیں. آپ اگر چاہتے ہیں کہ تاریخ کے اوراق میں آپ بھی سرخرو ٹھہریں تو گھبرائیے نہیں ڈٹ جائیے اور پھر فیصلہ مستقبل کے مورخ پہ چھوڑ دیجیے

Comments

Click here to post a comment