ہوم << علامہ اقبال کا پیغام خودی - عمیر بخاری

علامہ اقبال کا پیغام خودی - عمیر بخاری

علامہ اقبال کے نظریات، اشعار کی صورت میں پیغامات اور ان سب کے مطالب عام شخص کی سمجھ سے بالا ہیں۔ اقبال نے شاعری بحر اور وزن کی خوبصورتی پر داد وصول کرنے کے لیے نہیں کی ، بلکہ اقبال فرماتے ہیں: ’’میرا شاعری سے کوئی خاص رشتہ یا تعلق نہیں ، بس کچھ مقاصد خاص رکھتا ہوں جن کے اظہار کے لیے میں نے نظم کا طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘
اقبال کا مقصد خاص اصلاح تھا۔ ان کی دور اندیشی اور باریک بینی میں امت محمدیہ ﷺ کے درد کا بیج بو دیا گیا تھا۔ اس درد نے انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ’’پیغام خودی‘‘ لے کر اٹھے او رآخردم تک اس پیفام کومسلمانوں میں عام کرنے کے لیے کوشاں رہے۔ مسلم نوجوان کو اسی پیغام کی طرف بلاتے رہے جس میں اس کی کامیابی کا راز مضمر تھا۔ خودی کیا ہے؟ میاں بشیر احمد کارنامئہ اسلام میں لکھتے ہیں:
’’اقبال کا خیال ہے کہ انسان ضبط نفس، اطاعت اور نیابت الہی کی تین منزلیں طے کرتا ہواخودی کی انتہائی منزل کو پہنچ جاتا ہے، تاہم ان منازل کے ارتقاء میں اسے مذہب کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ ‘‘
اگر خودی کی ان تین منازل کو سمجھیں تو قرآن میں متعدد بار تقوی کا حکم ہے اور معیاری زندگی میں پرہیزگاری یعنی تقوی اقبال کے نزدیک ’’ضبط نفس‘‘ ہے۔ جب انسان تمام تر نفسانی خواہشات سے کنارہ کش ہو کر پرہیزگاری کی جانب آئے گا تو وہ مکمل دفاع کو یقینی بنا چکا ہوگا۔ اس کا ایک مظہر ہمیں جنگوں میں نظر آتا ہے۔ دو آرمڈ فورسز میدان جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ ایک فورس نے دوسری پر حملہ کر دیا تو دوسری فورس جوابی کاروائی کے بجائے دفاع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ جب دفاع مضبوط ہو جاتاہے اور قدم جم جاتے ہیں تو فتح کی طرف پیش قدمی ہونے لگتی ہے اور یلغار کا رخ بدل جاتا ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے انسان نے یہ طریقہ جنگ فصلوں پر حملہ آور ہونے والے کیڑوں سے سیکھا ہو۔ اڑتے ہوئے فصلوں کی جانب آنے والے یہ کیڑے دو دستوں کی صورت میں صف بستہ ہوتے ہیں۔ دفاع پر مامور کیڑے حملہ آور کیڑوں کو اپنے حصار میں لیے ہوتے ہیں۔ جب کسانوں کی فوج کیڑوں کی فوج پر سپرے یا کسی دوائی سے حملہ کرتی ہے تو جواب میں دفاعی دستہ صرف دفاع کو یقینی بناتا ہے اور کامیابی کی صورت میں حملہ آوروں کو جگہ دیتا جاتا ہے۔ یوں حملہ آور آسانی سے ہدف کو ٹارگٹ کر لیتے ہیں۔
بالکل اسی طرح اقبال کے نظریے کے مطابق جب انسان ضبط نفس کے ذریعے نفسانی، شہوانی اور شیطانی حملوں سے مکمل دفاع کو یقینی بنا لیتا ہے تو انسان ضبط نفس کی منزل طے کرتا ہوا مقام اطاعت پر پہنچ جاتا ہے۔اس مقام پر پہنچ کر وہ اطاعتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول (طعیوااللہ واطیعوا الرسول )کو زاد راہ بنا لیتا ہے۔ فرائض و واجبات کی پابندی اور حرام و حلال میں تمیز کو شاملِ سرشت کرلینا اطاعت خداوندی ہے، جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں سنن عادیہ اور سنن نبویہ دونوں شامل ہیں۔ اطاعت خداوندی اور اطاعت رسول پر کامیابی انسان کو منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ اور یوں انسان اپنی اصل کا نگہبان بھی بن جاتا ہے۔
انسان اس دنیا میں خدا تعالی کا نائب بن کر آیا۔ اس سے پہلے خلافت و نیابت کا تاج جنات کے سر پر تھا، مگر وہ فسادات میں حد سے تجاوز کر گئے اور ناکام رہے۔ پھر انسان کو یہ فرض سونپا گیا، چنانچہ جو بھی شخص اپنے اس منصب پر کما حقہ فائز ہونا چاہتا ہے اور اقبال کا شاہین بننا چاہتاہے اسے خود داری اپنانی پڑے گی،خود ہی کو خودی کا عملی نمونہ بنانا ہوگا۔ ایسا شخص جب ضبط نفس سے روح کی صفائی اور اطاعت سے جسم کو پرنور کر لیتا ہے تو وہ قلب و روح کو منور کرتا ہوا نائب کے منصب پر فائز ہو کر خودی کی انتہائی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment