ہوم << سانحہ کوئٹہ، ایک زخمی مجاہد کا خط - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

سانحہ کوئٹہ، ایک زخمی مجاہد کا خط - ڈاکٹر رابعہ خرم درانی

زخمی مجاہد کا خط.

آج شہید ہونے والے کیپٹن روح اللہ
آج شہید ہونے والے کیپٹن روح اللہ
بم بلاسٹ کان پھاڑ دینے والا تھا، چیتھڑے اڑے. میرے ساتھی میرے دوست، میری آنکھوں نے انہیں جام شہادت نوش کرتے دیکھا. میرے ایک ساتھی میں ابھی کچھ سانس باقی تھی، اس نے اپنی نگاہ آسمان کی اور کی، ذرا مسکرایا، شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کی، کلمہ شہادت ادا کیا.
میں دیکھ رہا تھا، میں سن رہا تھا، میں کلمہ دہرا رہا تھا. میرا وہ دوست اسی صورت مجسم تھا، اس کی الوہی مسکراہٹ اس کے چہرے پر ٹھہر گئی تھی. مجھے تھوڑی دیر میں احساس ہوا کہ اس کے ہونٹ اب جنبش نہیں کر رہے، آنکھیں جھپک نہیں رہیں، وہ اپنے مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو چکا تھا.
مجھے اپنا خیال آیا، مجھے بھی چوٹیں آئی تھیں. میں نے خود کو دھماکے کے ساتھ فضا میں اچھلتے ہوئے پایا تھا اور پھر اندھیرا چھا گیا تھا.. لیکن پھر کیا ہوا؟ مجھے درد کیوں نہیں ہو رہا، نظر گھمائی تو دیکھا خاک خون اور راکھ میں وہ کچھ عجیب سا تھا لیکن کیا یہ وہی بدن ہے جو پچھلے 27 سال سے میرا ساتھ دیتا چلا آ رہا تھا.
ہاتھ سے ٹٹولنا چاہا تو ہاتھ نہ ہلا پایا. پاؤں کو حرکت دینا چاہی تو وہ بھی نہ ہلا پایا.
اللہ الصمد، اللہ اکبر! تو یہ وجہ تھی درد محسوس نہ ہونے کی. میری ریڑھ کی ہڈی گردن کے نیچے سے ٹوٹ چکی تھی. میں نے جانا کہ میں حقیقی معنوں میں گردن سے اوپر زندہ ہوں.
دماغ، حواس، سانس اور دل کو کنٹرول کرنے والے حصے ابھی سلامت ہیں. میں سوچ سکتا ہوں. اللہ کا شکر ادا کر سکتا ہوں.
مجھے اندازہ ہے کہ اس عارضی دنیا میں میرا وقت مکمل ہونے کو ہے. میں خوش ہوں کہ میدان جنگ میں فرائض کی بجا آوری میں سینے پر زخم کا تمغہ سجا کر شہید ہونے والوں میں میرا نام ہوگا. میں چند باتیں آپ سب سے کہنا چاہتا ہوں.
مجھے میری اپنی مٹی کا کفن دینا. مجھے میرے وطن میں دفن کرنا. مجھے ماں کی گود میں سکون ملتا ہے.
امی ابو! میں ڈرا نہیں، ہارا نہیں، پیٹھ دکھا کر بھاگا نہیں.
امی! آپ کے دودھ کا حق ادا کر کے جا رہا ہوں، آپ نے بسم اللہ پڑھ کے دودھ پلایا، میں کلمہ ادا کر کے جاؤں گا.
ابو! آپ کا لہو ہوں. میں اس لہو کو اپنے وطن کی مٹی میں جذب ہوتے دیکھ رہا ہوں. یہ لہو میرے وطن کی رگوں میں جان بن کر دوڑے گا. میری جان کی کوئی بات نہیں، میرا پاک وطن سلامت رہے.
میرے بچو! میری گڑیا، میری آنکھوں کا نور، میری پیاری فاطمہ! بابا ہر وقت تمہارے پاس رہیں گے، تمہیں بھولیں گے نہیں، تمہارے پاس میرے بابا ہیں نا. ان سے میری باتیں کرنا، ان سے میرے وہ قصے سننا جو میں تمہیں نہ سنا پایا. جب وہ تمہیں میری شرارت سنائیں گے اور ہنس پڑیں گے تو اس ہنسی میں سے میں جھلکوں گا. ان کی آنکھوں کی نمی سے میں تمہیں جھانک کر دیکھوں گا.
علی! میرے بیٹے، میرے شیر جوان، میرے فخر! جن ہاتھوں نے تمہارے بابا کو پروان چڑھایا ہے، وہی شفیق ہاتھ، تمہارے دادا اور دادو کے ہاتھ، وہی مہربان ہاتھ، اب تمہیں بھی سینچیں گے. میرے بیٹے! تم ابھی کمسن ہو لیکن میرے بعد اب تم ہی اپنی بہنا کے گھبرو بھائی اور اپنی امی کے جوان بیٹے ہوگے. بوڑھے دادا اور دادو کے بیٹے بھی اب تم ہی ہو. انہیں مایوس مت کرنا، میری طرح تم نے بھی اس خاکی وردی کو زیب تن کرنا ہے. جب تم کاکول اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوگے تو تمہارے سینے اور کاندھے پر سجنے والے تمغے درحقیقت میرے سینے پر سجیں گے. تمہاری پاسنگ آؤٹ پریڈ میں، میں وہیں فیملی اسٹینڈ میں بیٹھا تمہارے لیے تالیاں بجا رہا ہوں گا.
خدیجہ! میری رفیقہ! تم خوش نصیب ہو، رونا مت، شہید کبھی مرا نہیں کرتے. تم جو ہر نماز میں سہاگ کی سدا سلامتی کی دعا مانگتی تھیں، سو وہ دعا قبول ہوئی. تم سدا سہاگن رہو گی کہ مجھے حیات ابدی کی نوید، شہادت کی صورت میں ملنے والی ہے.
میری رفیقہ! تم سے میرا ظاہری ساتھ مختصر رہا. لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تم جیسی عزم و ہمت والی بہترین عورت اللہ تعالیٰ نے میرے لیے چنی. مجھے تم پر اور تمہارے ساتھ پر فخر ہے.. تم سے محبت میرے دل کی دھڑکنوں میں بسی ہے. تمہیں حق ہے کہ میرے بعد تم اور ساتھی چن لو. بس یاد رکھنا میں ہر صورت تم سے محبت کرتا رہوں گا.
آپ سب کا اپنا
میجر عبداللہ
b6riydbccaalgty دہشت گردی اور سرحدوں کی حفاظت کے دوران ہونے والی قتل و غارت گری میں جام شہادت نوش کرنے والے پاکستانی فورسز کے ہر جوان کے نام. چاہے اس کا تعلق فوج سے ہے یا پولیس سے یا پیرا ملٹری فورسز سے. یا وہ اعتزاز حسین کی طرح ایک عام اسکول اسٹوڈنٹ لیکن بے حد خاص انسان ہے. جس نے بھی اسلام، پاکستان اور کسی دوسرے انسان کی جان بچانے کے لیے اپنی جان قربان کی یہ ہدیہ تبریک اس کے نام.

Comments

Click here to post a comment