ہوم << اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا - شاہد اقبال خان

اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا - شاہد اقبال خان

عمران خان اور مصباح الحق دونوں پاکستان کی تاریخ کے کامیاب کپتان ہیں مگر دونوں کی شخصیت اور سٹریٹجی یکسر مختلف ہے۔ عمران ایک کرشماتی شخصیت، جارحانہ مزاج اور جارحانہ سوچ رکھنے والا کپتان تھا جبکہ مصباح الحق دھیمی شخصیت، دھیما مزاج اور محتاط سوچ رکھنے والا کپتان ہے۔ عمران خان میچ کی پہلی سے لے کر آخری گیند تک مکمل کنٹرول اور جارحانہ انداز برقرار رکھتا تھا۔ وہ میچ کو پانچ دن تک لٹکانے کا عادی نہیں تھا، اس نے کافی میچ چوتھے دن ہی جیت لیے تھے۔ وہ ڈرا کے آپشن کو کبھی نہیں سوچتا تھا جبکہ مصباح الحق میچ کے پہلے دن کنٹرول حاصل کر کے اگلے 3 دن مخالف کو تھکا کر پھر آخری دن اپنے بہترین باؤلرسے دوبارہ سے حملہ کر کے میچ جیتنے میں یقین رکھتا ہے۔ ایک دو میچ نکال کر مصباح نے کبھی میچ کو 4 دن میں ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مصباح الحق ہمیشہ ڈرا کا آپشن کھلا رکھتا ہے۔ دونوں نے اپنے اپنے انداز سے ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
آئیے ایک لمحے کے لیے سوچتے ہیں کی اگر مصباح الحق چیئرمین پی ٹی آئی ہوتا تو وہ کیسے سیاست کرتا؟
عمران نے 2013ء کے الیکشن کے بعد بہت پر زور مہم سے اپنے دل شکستہ ووٹر کو یہ یقین دلایا کہ ان کا ووٹ چوری ہو گیا تھا۔ الیکشن کے بعد یہ احساس دلانا ضروری تھا تاکہ ووٹر متحرک رہے۔ مصباح الحق بھی یہی کرتا۔ عمران خان نے اس پر مسلسل جارحانہ رویہ برقرار رکھا اور دھرنا بھی دیا مگر مصباح الحق کچھ ماہ اس بارے میں مہم چلا کر اس کو ختم کر دیتا۔ عمران نے اس سلسلے میں تمام اداروں کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر مصباح الحق کہیں درخواست نہ دیتا۔ مصباح اس سلسلے میں بس لفظی جنگ تک محدود ررہتا۔ این اے 122 اور دوسرے 3 حلقوں کے کیسز میں بھی مصباح الحق زیادہ دلچسپی نہ دکھاتا اور اس وجہ سے ان کے نتائج مصباح کے حق میں نہیں آتے۔
عمران نے تمام ضمنی انتخابات میں زور و شور سے حصہ لیا۔اس میں کچھ میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی زیادہ میں شکست ہوئی۔ اس سے پی ٹی آئی کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ ان کا ہر علاقے میں ایک مضبوط گروپ بن گیا اور تحریک انصاف ایک واحد اپوزیشن کے طور پر ابھری مگر ساتھ ہی یہ نقصان بھی ہوا کہ یہ سوچ پروان چڑھی کہ ضمنی انتخاب میں بھرپور کوشش کے باوجود شکست کا مطلب ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کم ہو رہی ہے۔ مصباح الحق ان الیکشنز میں برائے نام حصہ لیتا اور اس کا دفاع یہ کہہ کر کرتا کہ حکومت کے ماتحت ہونے والی الیکشن شفاف نہیں ہو سکتے، اس لیے حصہ لینے کا فائدہ نہیں۔ اسے فرینڈلی اپوزیشن کہہ کر میڈیا کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا مگر اس سٹریٹجی سے یہ امیج نہ بنتا کہ مقبولیت میں کمی آئی ہے۔
پانامہ لیکس پر عمران خان نے ٹی او آر کمیٹی میں شرکت تو ضرور کی اور تمام اپوزیشن کو ساتھ ملانے کی کوشش بھی کی مگر پہلے دن سے ہی اس کی سٹریٹجی میں احتجاجی تحریک شامل تھی، اس نے جلسے کیے اور اب اسلام آباد لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اس سے یا تو عمران خان اس میچ کو بھی چوتھے دن ہی جیت جائےگا یا پھر ہار جائے گا۔ اب ڈرا کا کوئی امکان نہیں۔ مصباح الحق کی سٹریٹجی مختلف ہوتی، وہ اس معاملے پر بہت آہستہ پیش رفت کرتا، حکومت اس کو لٹکانے کی کوشش کرتی اور وہ پیپلز پارٹی کی طرح معاملے کو لٹکانے میں حکومت کا پورا ساتھ دیتا۔ مگر جیسے ہی حکومت کے آخری چھ ماہ شروع ہوتے، اس کا پانامہ پر رویہ جارحانہ ہونا شروع ہو جاتا۔ الیکشن کے بالکل قریب وہ قانونی ماہرین کے ذریعے پانامہ اور حکومت کی معاشی ناکامیوں پر شدید تنقید کرتا۔ الیکشن کے پاس ایسی مہم کی کامیابی الیکشن میں حکومت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتی اور پی ٹی آئی آسانی سے الیکشن جیت جاتی یا مہم کی جزوی کامیابی کی صورت میں بھی سیاسی میچ ڈر ا ہو جاتا یعنی دونوں جما عتیں برابر نشتییں لینے میں کامیاب ہو جاتیں۔ اب دیکھیے عمران خان کے جارحانہ پن کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.

Comments

Click here to post a comment