تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ علماء نے اُمت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑہ ہمیشہ ایسے وقت میں اُٹھایا جب دینِ اسلام مخصوص صورت حا ل سے دوچار تھا ۔اہل فکر علماء نے باطل قوتوں کے فکری اور تہذیبی وار کو روک کر دفاع اسلام کا محفوظ حصار قائم کیا۔ 1931ء کا دور ہے ۔مسلمان غلامی کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے تھے ۔سیاسی و معاشی بد حالی ان کا مقدر ، بنیا دی عقائد سے بے خبری اور اسلام کے اساسی عقائد سے ناواقفیت اور بیزاری عام تھی ۔چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کاطرز رہن سہن دین اسلام کے عین مطابق ہوتا ،مگراُن کے علم،طرز تکلم، لباس،کردار، اَفکار ،عمل و اَطوار ،طرز ِفکر ونظر اور اندازِ بود وباش پر مذاہب باطلہ کی تہذیب کا غلبہ تھا۔ یہاں تک کہ غیر مسلم مورخین کو بھی مسلمانوںکی اِسلام سے دُوری اور بیگانگی کا اِحساس تھا ۔ ہندوستانی ریاست الور کے میجر پائو لٹ( جو انیسویں صدی کے آخر میں وہاں تعینات رہے) وہاں موجود ایک’’ میو ‘‘قوم کو بارے میں لکھتے ہیں کہ میو اب تمام تر مسلمان ہیں لیکن برائے نام، انکے گائوں کے دیوتا وہی ہیں جو ہند و زمیندار وں کے ہیں ۔وہ ہندوئو ں کے کئی تہوار مناتے ہیں۔ہولی ،دیوالی میں مذاق اور کُھل کر کھیلنے کازمانہ ہے اور اُتنا ہی اہم اور ضروری تہوار سمجھا جاتا ہے جتنا عید، شب برء ات، اُن کے یہاں ـــ’’پیلی چٹھی ‘‘ لکھنے کے لئے یا شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لئے برہمن پنڈ ت بھی ہوتے ہیں ۔’’ایک رام ‘‘ کے لفظ کو چھوڑ کر وہ ہندووانہ نام بھی رکھتے ہیں ۔ اگرچہ ’’خان ‘‘ جتنا ان کے ناموں کے اخیر میں ہوتا ہے اتنا نہیں لیکن پھر بھی بکثرت ’’سنگھ ‘‘ ان کے ناموں کا اَخیر جُز ہوتا ہے‘‘۔ ’’میو اَپنے مذہب (اِسلام) سے بہت ناواقف ہیں،خال خال کوئی کلمہ جانتا ہے ۔اور پابندی سے نماز پڑھنے والے اس سے بھی کم ہیں۔ اور ان کے اوقات و مسائل سے تو وہ بالکل نا واقف ہیں۔‘‘
اِن حالات کو بھانپ کر ایک مر دِدرویش مولانا محمد الیاس دہلویؒ نے نہایت خاموشی کے ساتھ انتہائی اخلاص پر مبنی دعوت و تبلیغ کی کوشش کی ۔گویا یہ بیڑا ظاہری طور پر تو ایک مردِ قلندر مولانا الیاس دہلویؒ نے اُٹھایا تھا ۔ مگر انکے استاد ،پیکرِ حُرّیت، شیخ الہند محمود حسنؒ کی دُعائیں اور مرشد قطب الاقطاب مولانا رشید احمد گنگوہی ؒکی نظر خاص بھی تھی جس نے آپؒ کو اس عظیم کام کے لئے تیار کیا ۔چنانچہ آپؒنے ایک ایسی ہمہ گیر تحریک چلائی جس نے دس بارہ سال کے قلیل عرصہ میں میوات کے علاقہ میںایک عظیم اِنقلاب برپا کرکے رکھ دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گائوں کے گائوں نمازی بن گئے ۔اور دوسروں تک اِسی دعوت کو پہنچانے میں لگ گئے۔پورا علاقہ دین کی طرف راغِب ہو چکا تھا اور اُسکے آثار بھی نظر آنے لگے تھے۔ جس گائوں میں دُور دُور تک مسجد کا نام و نشان نہ تھا وہاں گائوں گائوں میں مسجدیں بن چُکی تھیں۔اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مسجدیں ہزاروں کی تعداد میں جا پہنچی ۔ایسے سینکڑوں مدارس دینیہ قائم ہوئے جہاں حفاظ کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز کر گئی ۔ہندوانہ وضع ولبا س کی جگہ اِسلامی و شرعی لباس زِیب تن کیا جانے لگا۔ ایک صاحب نظر مورخ وہاں کا دورہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ’’مولانا ئے محترم (محمد الیاس ؒ) نے خود اسی قوم کے مبلغوں سے اس کی اصلاح کا کام لیا اور ان کی پیہم کوششوں کانتیجہ جو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں ، یہ ہے کہ بعض علاقوں میں گائوں کے گائوں ایسے ہیں جہاںایک بھی بچہ آپ کو بے نمازی نہ ملے گا ۔ دیہات کی وہ مسجدین جہاں یہ لوگ کبھی اپنے مویشی باندھا کرتے تھے ۔آج وہاں پانچوں وقت اذان اور جماعت ہوتی ہے ۔آپ کسی راہ چلتے دیہاتی کو روک کر اسکا امتحان لیں ۔ وہ آپ کو صحیح تلفظ کے ساتھ کلمہ سنائے گا ۔ اسلام کی تعلیمات کا سیدھا سادھا لب لباب جو ایک بدوی کو معلوم ہونا چاہیے آپ کے سامنے بیان کرے گا ۔وہ آپ کو بتائے گا کہ اِسلام کے ارکان کیاہیں ۔اب آپ وہاں کسی مسلمان مرد ،عورت یا بچے کو ہندوانہ لباس میں نہ پائیں گے ۔نہ ان کہ جسم کو بے ستر دیکھیں گے۔نہ اس کے گھر اور لباس کو نجاستوں میں آلودہ پائیں گے۔ ان کے عادات و خصائل اور ان کے اخلاق میں بھی اسی مذہبی تعلیم وتبلیغ کی وجہ سے نمایاں فرق ہوگیا ہے ۔ اب وہ متمدن اور مہذب طرزِز ندگی کی طرف پلٹ رہے ہیں ۔جرائم میں حیرت انگیز کمی ہوگئی ہے ۔ اور لڑائیاں فسادات اور ُمقدما ت بہت کم ہو گئے ہیں ۔ ان کا علاقہ اب پُر امن علاقہ ہے جس کا اِعتراف خود وہاں کے حکام کرتے ہیں۔ معاشرہ ،ان کے لین دین ، ان کے برتائو، غرض کے ہر چیزمیں عظیم تغیر ہو گیا۔ جس کی وجہ سے گر د و پیش کی آبادی پر اُن کا اچھا اخلاقی اثر مرتب ہو رہا ہے۔اب وہ ذلت اور بے اعتباری کی نگاہ سے نہیں دیکھے جاتے، بلکہ ان کی عزت قائم ہوتی جا رہی ہے اور ان کے کیرکٹر پر اعتماد کیا جانے لگا ہے‘‘۔(ایک اہم دینی تحریک ص۱۴۱)
یہ تبدیلی مولانا الیاس ؒ کے اِخلاص کا ثمرہ تھی۔آپؒ نے اپنے تقویٰ کی بنیاد پر بغیر کسی تشہیر کے دعوت وتبلیغ کا کام ایک جماعت کی صورت میں دس آدمیوں سے شروع کیا تھا جو اپنے رب کے حضور اتنا مقبول ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک مقصد بن کر پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اور آہستہ آہستہ مختلف جماعتیں دین سیکھنے اور سیکھانے کی غرض سے نکلنے لگیں ۔مولانا الیاسؒ کی خواہش تھی کہ اسلاف کی طرز پر علمائے کرام اشاعت دین کے لئے اپنے گھروں سے نکلیں ۔اور جب تک نہیں نکلیں گے اس وقت تک کام نہیں بنے گا۔چنانچہ شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کے نام خط میں آپؒلکھتے ہیں کہ؛ ’’عرصہ سے میرا خیال ہے کہ جب تک علمی طبقہ کے حضرات اِشاعت ِدین کے لئے خُود جا کر عوام کے دروازوں کو نہ کھٹکھٹائیں اور عوام کی طرح یہ بھی گائوں گائوں اور شہرشہر اِس کام کے لئے گشت نہ کریں ، اُس وقت تک یہ کام درجہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا ، کیوں کہ عوام پر جو اثر اہل ِ علم کے عمل حرکت سے ہوگا، وہ ان کی دُھواں دَار تقریروں سے نہیں ہوسکتا۔اپنے اسلاف کی زندگی سے بھی یہی نُمایاں ہوتا ہے جو کہ آپ حضرات اہل ِعلم پر بخوبی روشن ہے‘‘۔(مولانا الیاسؒ اور ان کی دینی دعوت ص۱۱۴)
تبلیغی جماعت نے جو طریقہ کار وضع کیا اُس میںسب سے اہم دین کی دعوت اور تبلیغ کے لئے محنت ،جد وجہد ،گشت اور سفر کا طریقہ اختیار کیا ۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ عام طور پر دنیاوی معاملات میں پھنس کر دین سیکھنے اور حاصل کرنے کے لئے وقت نہیں نکال پائے انہیںچند مختص ایام کے لئے گھروں سے لے جا کر دین کی بنیا دی باتوں مثلاً نماز ، کلمہ سکھا سکیں ۔ اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے بانی تبلیغی جماعت فرماتے ہیںکہ ’’ہم نے جماعتیں بناکر دین کی باتوں کے لئے نکلنا چھوڑ دیا ، حالانکہ یہی بنیاداصل تھی ۔ حضوررﷺ خود پھرا کرتے تھے اور جس نے ہاتھ دیا وہ بھی مجنو نا نہ پھرا کرتا تھا۔ غرض پھرنا اور دین کے لئے جد وجہد اور نقل و حرکت میں رہنا اصل تھا ۔ جب یہ چھوٹ گیا، جب ہی خلافت ختم ہو گئی ۔ مولانا الیاس ؒ نے سرکارِ دو عالم ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات میں سے جِن اہم اور بنیادی نکات کو اَخذ کرکے کے سینہ بہ سینہ پھیلانے کاکام شروع کیا وہ یہ تھے۔ کلمہ کی تصحیح و تلقین، ، نماز کی تصحیح و ترقی ، تحصیل علم و ذکر ، تفریغ وقت ، خلق، تصحیح نیت ۔ اور آپ ؒ یہ بھی سمجھتے کہ اصل اہمیت اَمر بالمعروف اور نہی عن ِالمنکرکی ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ ’’ یہ وظیفہ و وظائف اور یہ اللہ کی بارگاہ میں دُعائیں اور دین کی لائن کی ہر چیز در حقیقت ایمان کی پگڈنڈ یاں اور اُس کے پھول پتے ہیں۔ جو نسا درخت اَپنی جڑ سے ُسوکھ چکا ہو ،اُس کے پھول پتوں میں شادابی کہاں سے ہو سکتی ہے ۔ اس واسطے اس بندہ ناچیزکے نزدیک اس زمانے میں نہ دُعا کار گر ہے نہ وظیفہ بار آور ہے اور نہ کسی کی طرف توجہ اور ہمت کار آمد ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جس وقت دین کے فروغ کی کوشش ترک ہوچکی ہوگی جس کو اَمر بالمعروف اور نہی عن المنکرکہتے ہیں اس وقت دعائوں میں راتیں رو کر گزارنے والوں کی دعا مقبول نہیں ہونے کی۔ابوابِ رحمت بند ہوچکے ہوں گے ۔ ابوابِ رحمت کھلنے کی کوئی صورت نہ ہوگی ۔ مسلم کافروغ ،اِسلام کے فروغ کی کوشش میں لگنے کے اندر کے علاوہ ہر گز مقصودنہیں۔حق عزّوجل نے مومن کے ساتھ رحمت کے ساتھ توجہ کرنے اورکرم و الطاف کے ساتھ برتائو کرنے کا ارادہ صرف اُسی وقت فرما رکھا ہے جب وہ اِسلام کے فروغ میں ہو ، اِسلام کے فروغ میں اپنی سعی مصروف کررہا ہو ‘‘(مولانا الیاس اور اُن کی دِینی دعوت، ص291)
حضرت مولانا اِلیاس ؒ کی یہ بھی کوشش تھی کہ افراد کے اندر پہلے دین کی طلب و رغبت پیدا کی جائے ۔ کلمہ لا الہ الا اللہ کامعنی و مفہوم اُن کے ذہنوں میں راسخ کیا جائے ۔ دین کی بنیادی باتوں سے واقفیت بہم پہنچائی جائے ۔ پھر انہیں دین کی ترویج کے لئے کھڑا کیا جائے ۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ ’’ جس قوم کی پستی کلمہ لا الہ الا اللہ سے بھی گر چکی ہو وہ ابتداء سے درستی کئے بغیر انتہائی درستی کے کب قابل ہوسکتی ہے۔ انتہا ابتداء کے درست ہوئے بغیر نہیں ہوسکتی اس لیے میں نے درمیانی اور انتہائی خیالات بلکل نکال دیئے، ابتداء درست ہو کر راستہ پر پڑ جائیں گے تو اِنتہا پر خود بھی پہنچ جائیں گے اور اِبتداء کے بگڑے ہوئے اِنتہا کی درستی کا خیال ہوس اور بوالہوسی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔
بس پھر کیا تھا۔ ایسی رغبت پیدا ہوئی کہ بغیر کسی دستور کے ،بغیر کسی منشور کے ، بغیر کسی چندے کے ، بغیر کسی تشہیر کے ہزاروں نہیں لاکھوں تشنہ لب اپنی پیاس بجھانے کے لئے تبلیغی جماعت سے رجوع کرنے لگے ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹرز، وکلاء ، تاجر ،طلباء ،نوجوان و بزرگ حضرات و دیگر طبقات سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اپنا وقت دین کی محنت میں صرف کرنے کا عزم مُصمم کرکے، حضرت محمد مصطفیﷺ کی عادات کو اپناکر اور اَصحابِ پیغمبر ﷺکے اَندازِبندگی کو تقلیدی نمونہ بنا کر پیش کر پیش کیا۔ بغیر کسی لالچ کے ،بغیر کسی اُجرت کے اور فقط اپنے جیب خرچ سے اللہ اور اسکے رسول ﷺکا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچا کر ،مخلوق کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالق کی بندگی میں لاکر پوری اُمت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اللہ کے سوا کسی سے کچھ نہ ہونے کا یقین اپنے دلوں میں راسخ کر لیجئے اسی میں انسانیت کی اصل بقاء کا راز مضمر ہے۔چند ساعتیں باقی ہیں وہ جدوجہد جومولانا الیاس ؒ نے شروع کی تھی اسی سوچ اور فِکر کو لے کر عالمی تبلیغ اجتماع شروع ہونے کو ہے ۔ رائیونڈ کا میدان ہوگا ، خلقت الہٰی اپنے احتساب کے لئے سر جوڑ کر بیٹھے گی۔ نہ کوئی کالا ہوگا، نہ کوئی گورا ہوگا ، نہ کوئی عربی ہوگا، نہ کوئی عجمی ہوگا ،نہ کوئی امیر ہوگا، نہ کوئی غریب ۔ ہوں گے تو صرف مسلمان ، کھجور کی چٹائی اور پشیمانی کے آنسو ،آئیے عزم کرتے ہیں کہ اس بابرکت موقع پر ہم سب جمع ہوکر اللہ رب العزت کی اجتماعی رحمت کے خواستگار ہوں۔ جوغلطیاں، جو کوتاہیاں ہوئیں ان پر معافی کے طلبگار ہوں اور آئندہ نبی مکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے ، اُنکی سنتوں کو اپنا نے اور اصحاب ِمحمدﷺ و اہل ِبیت اطہارؓ کو دل میں بساکرآئندہ زندگی گزارنے کا عہد کریں۔
تبصرہ لکھیے