ہوم << بھوک اور خیراتی ادارے - عبداللہ انصاری

بھوک اور خیراتی ادارے - عبداللہ انصاری

رواں سال کے گلوبل ہنگر انڈیکس (global hunger index) کے اعداد و شمار کسی بھی ذی شعور پاکستانی کا دل دہلانے کے لیے بہت کافی ہیں۔ یہ انڈیکس کیسے اخذ کیا جاتا ہے؟ کیا پیمانے استعمال کیے جاتے ہیں؟ کن چیزوں کو بنیا د بنایا جاتا ہے؟ یہ ساری تفصیلاتموجود ہیں لیکن اس دقیق بحث میں جائے بغیر اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ پاکستان بھوکے ممالک کی فہرست میں ایتھوپیا کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں ممالک کا سکور 33.4 ہے۔ اس سکور کے حامل ممالک کو 'serious' درجے میں ڈالا جاتا ہے۔ اس سے پیشتر کہ آپ اسے بھارت کی سازش قرار دے کر مجھے ایجنٹ کہہ ڈالیں۔ مجھ پر الزام لگ جائے کہ میں پاکستان کو بدنام کر نے کے لیے دشمن کے بیانیے کو ترویج دے رہا ہوں، ذیل میں دیے گئے لنک کو ایک نظر دیکھ لیں۔
http://ghi.ifpri.org/
پاکستان میں بھوک کے مسائل پر دفتر کے دفتر بھرے جا سکتے ہیں۔ حکمرانوں کو جلی کٹی سنا کر دل بھی ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے۔ کاٹ دار لہجے میں سخت ترین الفاظ کا استعمال کر کے داد بھی وصول کی جا سکتی ہے مگر ان تمام مقاصد کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال بھوک کے خاتمے سے متعلق ایک غلط فہمی بلکہ عمومی خوش فہمی کو زیر ِبحث لانا مقصود ہے۔
ایک عام تاثر یہ ہے کہ اگر عوام کثرت سے خیرات کریں تو معاشرے سے بھوک مکمل طور پر ختم نہ بھی ہو، اس میں کمی ضرور آجائے گی۔ اسی یقین کے تحت پچھلے کچھ عرصے میں کراچی شہر میں کئی ایسے ادارے وجود میں آئے جنہوں نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذمہ اٹھایا۔ عوام نے بھی دل کھول کر تعاون کیا۔ نتیجتاً شہر کے مختلف چوراہوں، مصروف مقامات اور شاہراہوں پر مفت کھانا مہیا ہو نے لگا۔ عوام نے اس فراخدلی سے اس کار ِخیر میں اپنا حصہ ڈالا کہ بکرے کا گوشت جسے بہت سے سفید پوش صرف اشتہاروں میں ہی دیکھ سکتے ہیں، مفت کھانا کھلانے کے مراکز پر غریبوں اور ناداروں کا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہونے لگا۔ یہ نہ صرف ایثار کی ایک بہترین مثال ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی کہ جب عوام کو یقین ہو کہ ان کا دیا ہوا پیسہ کار ِخیر میں خرچ ہو گا، اس پر وزیر مشیر عیاشی نہیں کریں گے، وہ کرپشن کی نظر نہیں ہوگا ، تو عوام اپنا ہاتھ نہیں روکتے۔ پچھلے کچھ سالوں سے جاری ان منظم مفت کھانا کھلانے والے مراکز کی تعداد میں اضافہ کا سیدھا سادا مطلب یہ ہو نا چاہیے تھا کہ معاشرے سے بھوک آہستہ آہستہ ہی سہی، ختم تو ہو رہی ہے ۔ لیکن عرض کرتا چلوں کہ معملات اس کے بالکل الٹ ہیں۔
1992ء میں جب سیلانی ویلفئیر ٹرسٹ تھا، نہ ہی چھیپا ٹرسٹ وجود میں آیا تھا اور لے دے کے ایدھی ٹرسٹ ہی ایک قابل ِذکر ویلفئیر ادارہ تھا، ہنگر انڈیکس 43.4 تھا، یعنی پاکستان میں بھوک آج کے مقابلے میں کافی کم تھی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ 2000 میں یہ انڈیکس 37.8 ہو گیا اور 2008ء میں 35.1 تک جا پہنچا۔ سوال یہ ہے کہ مختلف ویلفیئر اداروں اور عوام کی طرف سے بھر پور تعاون کے بعد بھی معاشرے میں ہر سال بتدریج بھوک کیوں بڑھتی چلی جا رہی ہے؟ یہ اداراے بھوک ختم کرنا تو ایک طرف، اس کو بڑھنے سے بچانے میں بھی ناکام رہے ہیں ۔ایسا کیوں ہے؟
سوال سادہ ہے اور سچ پو چھیے تو جواب بھی ریاضی کی کوئی پہیلی نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نائی سے جوتا سلوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھوک ختم کرنا حکومت کا کام ہے لیکن ہم نے یہ ذمہ داری خیراتی اداروں پر ڈال دی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بھوک اس لئے ہے کہ کھانے کو نہیں ہے حالا نکہ بھوک اس لیے ہے کہ روز گا ر کے مواقع نہیں ہیں۔ بھوک اس لیے ہے کہ افراطِ زر کے شرح قابو سے باہر ہو گئی ہے ۔ بھوک اس لیے ہے کہ مہنگائی نے عوام کے منہ سے نوالا چھین لیا ہے ۔خیراتی ادارے کتنا ہی کھانا بانٹ دیں، مہنگائی کم نہیں کر سکتے، افراطِ زر کو کنٹرول نہیں کر سکتے اور نہ ہی روزگار کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں ۔ یہ ساری چیزیں حکومتی پالیسی سے متعلق ہیں ۔ زیاد ہ پرانی بات تو نہیں کہ پاکستان میں کسی کسی کے پاس موبائل فون ہو ا کرتا تھا۔ حکومت نے موبائل کمپنیوں کی حوصلہ افزائی پر مبنی پالیسی اپنائی اور آج شہر تو ایک طرف، دور دراز گاؤں میں بھی موبائل فون استعمال ہو رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک پی ٹی وی ہی ملکی میڈیا کہلاتا تھا، حکومت نے میڈیا چینل کھولنے کی آزادی دی اور آج پتھر اٹھاؤ تو نیوز چینل نکلتا ہے۔اس بار تربوز اتنے نہیں ہوئے جتنے اینکر ہو گئے ہیں۔ حکومت نے یہ چینل خود تو نہیں کھولے،صرف پالیسی تبدیل کو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوگئے۔
میرا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ خیراتی اداروں کی نیت پر نشانہ باندھوں یا ان لوگوں کے خلوص پر سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کروں جو اللہ کی راہ میں غریبوں کو کھانا کھلانے کے لئے اپنی کمائی میں سے حصہ نکالتے ہیں۔میرا مقصد انتہائی سنجیدگی سے اس امر کی طرف توجہ دلانا ہے کہ اگر واقعی آپ معاشرے سے بھوک ختم کرنا چاہتے ہیں تو جان لیں کہ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اس کا حل بھی سیاسی ہی ہے۔جب تک آپ حکومت کو مجبور نہیں کریں گے کہ ایسے اقدام اٹھائے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں، افراطِ زر میں کمی واقع ہو اور مہنگائی کا جن قابو میں آئے، آپ روزانہ دیگیں بھر بھر کے بریانی چڑھاتے رہیں ، خیراتی ادارے کھولتے رہیں، مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ہاں ، آپ کے دل کو تسلی شاید مل جائے۔ ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ زکوٰۃ ایسے دیا کروکہ سائل اگلے سال تک اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے۔ یہ نہ ہو کہ اگلے سال اپنے بھائی کو بھی ساتھ لے آئے۔