ہوم << گھر کی مرغی دال برابر - ریحان احمد صدیقی

گھر کی مرغی دال برابر - ریحان احمد صدیقی

ریحان احمد صدیقی وہ سردیوں کی ایک ٹھنڈی شام تھی جب اس سے ملنے کاحسین اتفاق ہوا۔ہم ایک عرصے بعد ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ علیک سلیک کے بعد اس نے چھوٹتے ہی اپنی بیماریوں کے سلسلے گنوانا شروع کر دیے، جو اس کی پرانی عادتوں میں سے ایک عادت تھی۔ میں نے پوچھا یہ بتاؤ کہ آج کل کون سی بیماری ’ہٹ لسٹ‘ پہ چل رہی ہے۔ اس نے کہا یار تو نے دکھتی کمر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میں نے کہا مطلب؟ جواب ملا یار آج کل کمر میں بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ ایک لمحے وہ حیرت سے مجھے دیکھتا رہا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا میرے کمر میں ایک عرصے سے درد اتنا ہے کہ اٹھا بیٹھا نہیں جا رہا اور تو نماز کی بات کر رہا ہے۔میں نے کہا اچھا چلو رہنے دو ،یہ بتاؤ کہ اب تک کتنے ڈاکٹر کے معاش کا ذریعہ بن چکے ہو؟ کہنے لگا اب تو اپنی ’فلاسفی‘ بند کر اور یہ بتا کہ چائے پیے گا یا کافی۔ میں نے کہا کہ چائے اور کافی بھی پی لیں گے لیکن میری مانو آج سے نماز شروع کر دو اور رکوع ذرا ٹھیک سے کرنا۔ اس سے کم ازکم تمھارے پرفیوم خریدنے کے شوق تو پورے ہو سکیں گے۔ ایک بار پھر وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ میں نے اسے مزید کچھ بولنے کا موقع دیے بغیراس کی پریشان نگاہوں کو پرسکون کرنے کےلیے آسان الفاظ کا سہارا لیا اور کہا کہ اگر تم نماز پڑھو گے اور رکوع ٹھیک سے کرو گے تو اس سے تمہارے ایک فرض کی ادائیگی بھی ہوجائے گی اور تمہارے کمر کا درد بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈاکٹروں کی جو فیس بچے گی اس سے تم اچھے اچھے پرفیوم خرید لینا اور ایک آدھ مجھے بھی ’گفٹ‘کردینا۔ کہنے لگا یار تو پھر شروع ہو گیا۔ اتنے بڑے بڑے ڈاکٹرز موجود ہیں، سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے، جدید سے جدید طریقہ علاج مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ میں نے کل ایک بہت بڑے فزیوتھراپسٹ سے اپوائنٹمنٹ بھی لے لیا ہے ، اس نے کہا ہے کہ صرف دو مہینوں کی ایکسرسائز سے درد بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ اور تو اور میں نے سنا ہے کہ وہ ڈاکٹر صاحب امریکہ میں پانچ سال کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے بڑے بڑے کیسز کو بہت اچھی طرح سے ہینڈل کیا ہے۔ بس یار ان کی فیس تھوڑی زیادہ ہے پر کوئی بات نہیں جب صحت کا معاملہ ہو تو ہمیں پیسوں کی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی نہ ختم ہونے والی باتیں ایک بار پھر پٹری پہ چل پری تھیں۔ میں نے سوچا یہا ں گھی سیدھی انگلی سے نہیں نکلنے والا۔میں نے اسے ایک غیر مسلم سائنسدان حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان صاحب سے نماز پہ بڑی ریسرچ کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ نماز سے بہتر کوئی ایکسر سائز نہیں ہے اور خاص طور پہ جب بندہ رکوع کرتا ہے تو اس کے کمر کے عضلات کی ایکسرسائز بھی ہوجاتی ہے اور اگر کمر درد کی بیماری ہو تو وہ بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ کہنے لگا یار تو پہلے کہاں تھا۔ واقعی یار کسی غیر ملکی سائنسدان نے اس پہ ریسرچ کی ہے تو اس کی بات میں وزن بھی ہے اور بات دل کو بھی لگتی ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھتے کہ’ کیا‘ کہا جا رہا ہے بلکہ ہماری توجہ کا مرکز و محور یہ ہوتا ہے کہ ’کون‘ کہہ رہا ہے۔اگر ہم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سوچ کے انداز کو بدلنا ہوگا۔چلیں اس بات کو بھی رہنے دیں ورنہ آپ بھی کہیں گے کہ میں اپنی شیخی بگھارنے بیٹھ گیا۔ مجھے تو یہ فکر لگ گئی ہے کہ اس دال کو مرغی کا درجہ دینے کے لیے ایک آدھ امریکہ یاترا بھی ضروری ہے۔ تو ڈئیر چلیں گے نا آپ میرے ساتھ امریکہ؟؟؟

Comments

Click here to post a comment