ہوم << بچے کی کامیابی میں والدین کا کردار - حسیب الرحمن زاہد

بچے کی کامیابی میں والدین کا کردار - حسیب الرحمن زاہد

حسیب زاہد ماں جب اپنے ننھے سے پھول کی انگلی تھامے سکول کی طرف جارہی ہوتی ہے تو اس کی ساری توجہ اپنے بچے کی طرف ہوتی ہے۔ وہ چاہتی ہے سکول میں اس کا بچہ سب سے نمایاں ہو۔ سب اساتذہ کی توجہ بس اسی کے بچے پر ہو۔ لیکن ظاہری بات ہے ہر ماں کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی ۔ تعلیم کے میدان میں سب سے اچھے نمبروں اور سب سے اعلی ڈگری کا خواب بھی ہر ماں دیکھتی ہے ۔وہ اپنی زندگی کو مقابلے کا میدان بنالیتی ہے۔ نتیجتا بہت ساری تلخیاں اور مصیبتیں وہ اپنے سر لے لیتی ہے۔ اس کی نظر میں اساتذہ اس کے بچے کو توجہ نہیں دیتے۔ ان کے پڑھانے کا انداز درست نہیں ہوتا، وہ قابل نہیں ہوتے، اس کے بچے کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں یہ اور ان جسے کئی وہم پال کر وہ بے چاری اپنی خواہش کو پورا ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔ ہر ماں کو یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ اس کا بچہ اس کے دو یا چار خاص بچوں میں سے اس کے لیے خاص ہے جبکہ جس سکول میں وہ اسے داخل کرانے جارہی ہے اس میں اس جیسے تین چار سو خاص بچے اور بھی ہیں۔ کلاس ٹیچر کےلیےیہ بچہ پچاس، ساٹھ خاص بچوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ سبجیکٹ ٹیچر کے لیے کم از کم دو سو خاص بچوں میں سے ایک ہے۔ یہ تو شاید ممکن نہیں کہ بچے میں کسی خاص چیز کی صلاحیت نہ ہو اور وہ اس میں نمایاں کامیابی حاصل کرلے۔ ہاں مگر بعض خاص چیزیں ایسی ہیں جن میں ذرا سی توجہ سے آپ کا بچہ سکول میں نمایاں ہوسکتا ہے۔ اساتذہ کی خاص توجہ حاصل کر کے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں چونکہ عام طور پر مائیں جاب نہیں کرتیں اس لیے بچے کی تعلیم و تربیت کی سب سے بڑی ذمہ داری انہیں پر عائد ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے مشورے سے بچے کو مینج کریں ۔بچے کے سامنے ایک دوسرے کی عزت کریں اور بچے کے دل میں ایک دوسرے کا احترام اور محبت ڈالیں۔ بےجا سختی اور ڈانٹ ڈپٹ سے بچے وقتی طور پر تو بات مان جاتے ہیں لیکن ایک وقت کے بعد یہ طریقہ کار آمد نہیں ہوتا ۔بچے سے بات منوانے کا درست طریقہ والدین کی ناراضگی کا خوف ہے۔ جو بچے پیار اور محبت کے ہوتے ہوئے والدین کی ناراضگی سے ڈرتے رہتے ہیں ان کی تربیت درست سمت کی طرف گامزن ہوتی ہے ۔جن بچوں میں ڈسپلن ہوتاہے ان کی تربیت میں زیادہ پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ اس لیےاپنے بچے کو ڈسپلن کا عادی بنائیے۔صبح بیدار ہونے سے لے کر رات کو سونے تک اس کا ہر کام ڈسپلن سےہونا چاہیے ۔ بچے میں ڈسپلن صرف اسی صورت آسکتا ہے جب والدین خود اپنے آپ کو ڈسپلن کا عادی بنائیں گے ۔ بچے جب صبح بیدار ہوں تو ان کا ٹوتھ برش اپنی جگہ پر موجود ہو۔یونیفارم رات کو ہی استری ہوچکا ہو۔ شوز پالش ہوں ۔ اور اطمینان سے ناشتہ کرنے کے بعد وقت سے پندرہ منٹ پہلے وہ سکول پہنچ چکے ہوں ۔گھر میں بچوں کے لیے علیحدہ سٹڈی روم بنائیں یا کم از کم سٹڈی ٹیبل سیٹ کریں جہاں وہ سکول سے آنے کے بعد تعلیمی مشاغل سر انجام دیں ۔بچے کی کاپیاں اور ڈائری روزانہ بلاناغہ چیک کریں ۔ ہوم ورک کرنے کے بعد بچے کا بیگ ایک دفعہ لازمی چیک کریں اور کوئی کاپی ،کتاب ،پنسل ،شارپنر،ربڑ وغیرہ مس نہ ہونے دیں ۔سٹڈی روم میں اضافی کلرز ،چارٹ پیپر اور سٹوری بک بھی رکھیں تاکہ بچے کے تجسس کی تسکین ہوسکے اور اس کی انرجی درست جگہ پر خرچ ہو۔ سٹڈی روم میں ایک عدد کمپیوٹر بھی ہونا چاہیئے لیکن اس کا کنٹرول صرف والدین کے ہاتھ میں ہو۔کارٹون اور گیمیں والدین خود منتخب کریں ۔ایسے کارٹون اور گیمیں منتخب کریں جن میں تفریح کے ساتھ ساتھ تعلیم اور تربیت کا پہلو بھی ہو۔بچوں کے کمپیوٹر میں ایسے کارٹون کو ہرگز جگہ نہ دیں جن میں پھکڑ پن ہو یا اشیاء کو بڑھا چڑھا کر غنڈہ گردی کی طرف مائل کیا گیا ہو۔یا ایسے کارٹون ہوں جن میں جنس مخالف کے پیار و محبت اور عریانی کو واضح کیا گیا ہو۔ یاد رکھیں ایسے تمام تفریح کے ذرائع آپ کے بچے کی تربیت کے لیے زہر قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔
بچے کے جب دودھ کے دانت گرنے لگ جائیں تو اسے ٹوتھ برش کرنے کا عادی بنائیں ۔اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ رات کے کھانے کے بعد اپنے ساتھ اسے برش کروائیں ۔اور برش کرنے کا درست طریقہ اسے سکھائیں ۔سٹڈی روم میں ایک پیپر آویزاں کردیں جس میں پورے مہینے کے برش کرنے کا ریکارڈ ہو۔صبح اور شام کو برش کرنے کے بعد بچہ مطلوبہ خانے کو فل کردے ۔ اور مہینے کے آخر میں اس کی کارگردی پر اسے انعام سے نوازیں۔
اکثر بچے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لنچ میں مختلف چیزیں لے جانے کی فرمائش کرتے ہیں ۔ لنچ میں بچے کو زود ہضم صحت مند کھانا دیں ۔اور اس کے ذہن میں پہلے دن سے ہی برانڈڈ اور فاسٹ فوڈ کھانوں کی نفرت بٹھا دیں ۔اسے بتائیں کہ جوکھانا وہ سکول لے کر جارہا ہے وہ صحت مند اور سب سے اچھا کھانا ہے ۔ بچے کی فرمائشوں پر اسے ڈانٹ کر ہر گز چپ نہ کرائیں بلکہ بچے کی ہر بات اہمیت سے سنیں ۔ اور اس کی غلط فرمائشوں کا رد اس کے سمجھ میں آنے والی دلیل سےکریں ۔اسی طرح اگر آپ کا بچہ سکول میں کوئی غلطی کربیٹھے یا گھر میں اس سے کوئی غلط کام سرزد ہوجائے تو اس کی تشہیر ہرگز نہ کریں ۔تشہیر سے آپ کا بچہ بے عزتی محسوس کر سکتا ہے اور مخالفت میں اس سے بڑھ کر برائی کا سوچ سکتا ہے ۔اس لیے اس کا بھرم رکھیں۔دھمکی ہرگز نہ دیں بلکہ دوستانہ انداز سے اس کام کا غلط ہونا بیان کریں ۔اپنی ناراضگی کا اظہار کریں اور آئندہ وہ کام نہ کرنے کا وعدہ لیں ۔اس طریقے سےوہ غلط کام بھول کر تو کرسکتا ہے لیکن مخالفت اور ڈھٹائی سے ہرگز نہیں۔
اکثر بچے جب سکول سے گھر واپس آتےہیں تو میڈیا رپورٹر کی طرح سکول کے تمام احوال گھر میں سناتے ہیں۔ فلاں ٹیچر یوں ہے۔ فلاں سخت ہے۔ فلاں نرم ہے۔ میرے کلاس فیلو ایسے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آپ اپنے بچے کو سکول سے جوڑ سکتے ہیں ۔تعلیم اور اس کی اہمیت اس کے دل میں ڈال سکتے ہیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اکثر والدین اس موقعے کو ضائع کردیتے ہیں۔ اس موقعے پر اپنے بچے کی بات انتھائی توجہ سے سنیئے ۔اس کی باتوں کو پرکھیئے ۔اس کے رجحانات کا اندازہ کیجیے۔ اگر بچہ کوئی غیر معمولی بات کرے تو سنجیدگی سے اس کی بات کا نوٹس لیجئے ۔اگر بچہ کسی استاد کا منفی رویہ ذکر کر رہا ہے تو اسے خاص طور پر نوٹ کیجئے ۔مگر بات کا بتنگڑ بنانے سے گریز کیجئے ۔اور اس کے سامنے استاد کی ہتک ہرگز نہ کیجئے۔ بعض والدین بچے کی باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور ان کا ردعمل وہی ہوتا ہے جو کسی بڑے کی باتوں پر ہونا چاہیے ۔سکول سے متعلق بچے کی ہر خبر کو بالکل درست تسلیم کر کے اساتذہ کی شکایت کرنے کو دوڑ پڑتے ہیں ۔حالانکہ وہ جانتے بھی ہیں کہ کبھی بچے بات صحیح سمجھ نہیں پاتے یا کسی استاد کی طبیعت ان سے میل نہیں کھاتی تو اس کے متعلق ان کی خبریں درست نہیں ہوتیں۔چنانچہ جب سکول میں استاد کی شکایت پہنچتی ہے اور تحقیق کے بعد بچے کی خبر غلط ثابت ہوتی ہے تو والدین کو شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔ اور استاد کے دل میں ان والدین اور ان کے بچے کے خلاف سخت جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور یوں ان کے درمیان سرد جنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔اور والدین اور استاد کے درمیان بچہ پستا رہتا ہے۔
دوسری قسم کے والدین بچے کی خبر کو بالکل بھی اہمیت نہیں دیتے ۔بلکہ بعض والدین اس موقعے پر اپنے بچے کو ڈانٹ دیتے ہیں ۔یہ رویہ پہلی قسم کے رویے سے زیادہ خطرناک ہے۔اس رویے سے بچہ دب کر رہ جاتا ہے ۔بعض اوقات بچے کی خبر واقعی درست ہوتی ہے لیکن والدین کے رویے کی وجہ سے وہ خود پر ہونے والے ظلم کو وقتی طور پر برداشت کر جاتا ہے مگر مستقبل میں والدین کو پریشان کرتا ہے ۔عام طور پر جنسی زیادتی کے واقعات انہیں بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں جن کے والدین شروع میں بچے کی شکایت کو اہمیت نہیں دیتے ۔ چنانچہ نوبت بڑھتے بڑھتے جنسی زیادتی تک پہنچ جاتی ہے ۔اس لیے یہ موقع نہایت احتیاط کا ہوتا ہے ۔ اس موقعے پر بچے کی بات نہایت دھیان سے سن کر اس میں غور کرنا چاہیئے۔آپ سے زیادہ آپ کے بچے کے مزاج کو کوئی نہیں سمجھتا،اس کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیئے ۔اور سکول مینجمنٹ سے نہایت راز داری کے ساتھ تحقیق کروا لی جائے تاکہ استاد کی عزت بھی باقی رہے اور آپ کی درست رہنمائی بھی ہوجائے۔
اپنے بچے کے ہاتھ سال میں کم از کم ایک دفعہ اساتذہ کے لیے چھوٹا سا گفٹ ضرور بھیجیں ۔خواہ وہ گفٹ ایک پھول ،ایک پین یا سمائل کارڈ ہی کیوں نہ ہو۔اس طرح آپ کی عزت اساتذہ کی نظروں میں بڑھ جائے گی اور آپ کا بچہ ان کی نظروں میں نمایاں ہوجائے گا ۔اسی طرح اساتذہ سے اپنے بچے کے بارے میں وقتا فوقتا مشورہ کرتے رہیں ۔اس کے رویے اور تعلیم کے بارے میں آگاہی رکھیں ۔اگر وہ کسی پہلو سے کمزور ہوتو اساتذہ سے اس کمزوری کی وجہ پوچھیں ۔ اور اس کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں ۔ عام طور پر جو والدین اساتذہ سے اپنے بچے کا تعارف کرواتے رہتے ہیں لاشعوری طور پر استاد ان کے بچے کو زیادہ اہمیت دیتا ہے ۔ اور بچے میں بھی ایک قسم کی سنجیدگی آجاتی ہے ۔چنانچہ آپ کے مہینے کی ایک ملاقات آپ کے بچے میں مثبت تبدیلی لاسکتی ہے۔
بچے اکثر کسی ایک استاد سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔ہر عمر کے بچے کے متاثر ہونے کا معیار علیحدہ ہوتا ہے ۔چوتھی کلاس تک کے بچے عام طور پر اس استاد سے متاثر ہوتے ہیں جو طبعا مزاحیہ ہو۔ پانچویں سے لے کر آٹھویں جماعت کے طلبہ کی عمر عموماً گیارہ سال سے سترہ سال تک ہوتی ہے ۔اس عمر کے بچوں میں شوخا پن کے ابتدائی اثرات آنے شروع ہوجاتے ہیں ۔لہذا اس عمر کے بچے اسی استاد کو پسند کرتے ہیں جو ٹھاٹھ باٹھ کا عادی ہو۔ اسکے بعد کی عمر کے طلبہ اکثر ذہین ،اور دوستانہ طبیعت کے اساتذہ سے متاثر ہوتے ہیں ۔ان کے متاثر ہونے کا معیار استاد کی قابلیت ہوتا ہے ۔چنانچہ اگر آپ کا بچہ کسی استاد سے متاثر ہوتو آپ اس کا بھر پور فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔اگر بچہ کسی بات میں ضد کرے ،یا تربیت میں کسی حوالے سے کمی کا شکار نظر آئے تو استاد کے ذریعے نصیحت کیجیے۔
اگر آپ کا بچہ اضافی ذہین ہے اور سوال کرنے کی عادت بھی اس میں ہے تو آپ پر اضافی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے ۔اپنے بچے کی روزانہ کی بنیاد پر تربیت کیجئے۔ اس کے کسی بے وقوفانہ سوال پر ہنسی اور مذاق اڑانے سے مکمل پرہیز کریں ۔اس طرح آپ کی وقعت اس کی نظروں میں کم ہوجاتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتوں کو خود ہی روند ڈالتا ہے ۔اس موقع پراسے سوال کرنے کا ڈھنگ سکھائیں ۔ اسے بتائیں کہ کب کون سا سوال کیسے کرنا ہے۔عام طور پر زیادہ ذہین بچوں کے سوال تو درست ہوتے ہیں مگر ان کے سوال کرنے کا طریقہ بے ڈھنگا ہوتا ہے ۔اور اسی وجہ سے اساتذہ کی ان سے نہیں بنتی ۔اور وہ اپنے تجسس کی تسکین نہ پاکر استاد کو اپنا مخالف سمجھ بیٹھتے ہیں ۔جو کہ بالکل غلط رویہ ہے ۔اس کےاس رویے کی ذمہ داری والدین پر جاتی ہے ۔اگر والدین اپنے بچے کی تربیت درست طریقے سے مستقل بنیادوں پر کریں تو اس کی کامیابی کے امکانات بالکل واضح ہوتے ہیں خواہ ان کا بچہ معمولی ذہانت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔'

Comments

Click here to post a comment