ہوم << سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے - خالد زمان

سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے - خالد زمان

زمان خالدسپریم کورٹ نے جمعرات کے روز ایک قتل کیس میں مجرم کو پھانسی کی سزا برقرار رکھی ہے جبکہ کورٹ کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی خود کر رہے تھے۔ امداد علی نامی ملزم جنہوں نے 2001ء میں ایک امام مسجد کو قتل کیا تھا۔ امداد علی کی بیوی صفیہ بانو نے پہلے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ان کا شوہر ذہنی بیماری کا شکار ہے اس لیے ان کے شوہر کی پھانسی صحت یابی تک مؤخر کی جائے۔ لاہور ہائی کورٹ کے درخواست مسترد کرنے کے بعد صفیہ بانو نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرا دی۔ کیس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دماغی امراض سے متعلق قوانین پھانسی کو مؤخر نہیں کر سکتی اور یہ کہ schizophrenia ایک مستقل بیماری نہیں ہے یا پھر مریض کچھ عرصے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق mental health Ordinance 2001 کے حساب سے schizophrenia کا مرض تعریف کے اعتبار سے دماغی امراض کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ ٖفیصلہ دو ڈکشنری ترجمے اور ہمسایہ ملک ہندوستان میں اسی نوعیت کے مقدمے کے فیصلے کے بنیاد پر تھا۔ 1977ء میں انڈیا میں کچھ اسی نوعیت کا فیصلہ سنایا گیا تھا جب ایک خاتون نے اپنے بیٹے کی پھانسی مؤخر کرنےکے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔
ملزم امداد علی کو سرکاری ڈاکٹروں نے دماغی عارضے (schizophrenia Paranoid) میں مبتلا قرار دے دیا ہے۔ 2012ء میں تین سرکاری ڈاکٹرز نے امداد علی کو ذہنی پراندگی (Paranoid schizophrenia) کی تشخیص کی تھی۔ امداد علی کےعلاج کرنے والے ڈاکٹر طاہر فیروز کے مطابق، جو کہ ماہر نفسیات ہیں، پچھلے آٹھ سال سے مریض کا علاج کر رہے ہیں، ان کے مطابق ملزم کو schizophrenia) (Paranoid لاحق ہے۔Paranoid schizophrenia ایک ایسی دماغی بیماری ہے جس میں انسان باقی لوگوں کے بارے عجیب و غریب خیالات رکھتے ہیں۔ ایسی بیماری میں انسان کو ماحول کے بارے صحیح ادراک میں بے انتہا دشواری ہوتی ہے۔ انسان کی سوچ اور خیالات دونوں میں تغیر پایا جاتا ہے، اور انسان کو اس بات کا پتہ نہیں چل رہا ہوتا کہ وہ کیا کرنے جا رہا ہے۔ انسان کو ایسی آوازیں آ رہی ہوتی ہیں جو باقی نارمل انسانوں کو سنائی نہیں دیتی۔
Schizophrenia کو قدیم زمانے میں بیماری نہیں سمجھا جاتا تھا، اب پاکستانی سپریم کورٹ نے بھی اسی طرح کے ریمارکس دیے ہیں کہ چونکہ schizophrenia سے متاثرہ انسان دوبارہ ایک نارمل انسان بن سکتا ہے اس لیے یہ کوئی دماغی عارضہ نہیں ہے ( (source: Express tribune/Dawn News۔ حالانکہ انجمن امریکی نفسیات (American Psychological Association) کے مطابق Paranoid schizophrenia ایک سنجیدہ دماغی بیماری ہے اور یہ باقاعدہ سائنسی تحقیق سے ثابت شدہ ہے۔ schizophrenia پوری دنیا میں ان 25 بیماریوں میں سرفہرست شمار ہوتی ہے جس سے انسان معذور ی کا شکار ہیں۔
میڈیکل کتابوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو Paranoid schizophrenia کا بظاہر کوئی علاج نہیں ہے، لیکن ادویات اور تھراپی کے ذریعے اس کی علامات و آثار کم کیے جا سکتے ہیں اور مریض کی حالت میں بہتری آ سکتی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس بیماری کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس کیس کے معاملے میں مزید تحقیقات کرنی چاہیے تھی۔ ایک بیماری جو دنیا بھر میں پاگل پن کی علامت سمجھی جاتی ہے اور میڈیکل کی کتابوں میں صاف طور پر لکھا ہوا بھی ہے، تو عدالت میں اتنے پڑھے لکھے لوگ کیسے انکار کر سکتے ہیں۔ بالفرض سپریم کورٹ نے کہہ دیا ہے کہ schizophrenia کا مریض ٹھیک ہو جاتا ہے، پھر امداد علی کو جب ٹھیک ہوجائے، پھانسی دی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر کی تشخیص پر اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے، اگر اس سلسلے میں کوئی شق و ابہام تھا تو مزید ڈاکٹرز کی مدد لی جا سکتی تھی، کسی ماہر عدالتی ماہر نفسیات (Forensic Psychologist) کی خدمات لی جاسکتی تھیں، لیکن بیماری پر اعتراض اٹھا نہ کہ یہ کوئی بیماری نہیں ہے، اور انسان خود بخود تھوڑے عرصے بعد ٹھیک ہو جاتا ہے، اس طرح کے ریمارکس نہ صرف پاکستانی عدلیہ بلکہ پوری پاکستانی قوم کے لیے بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی کا سبب بنے گا۔
اس کے علاوہ Mental Health Ordinance 2001 میں ترمیم کی بھی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس بات پر اعتراض اٹھائیں گی کہ پاکستانی معاشرے میں دماغی مریضوں کے ان کے حقوق نہیں ملتے۔ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، اس پر ہماری عدلیہ اور پاکستان سائکلوجیکل ایسویشن (Pakistan Psychological Association)کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
(خالد زمان، یونیورسٹی آف لاہور میں شعبہ نفسیات کے ایم فل سکالر ہیں)