ہوم << طویل المدت سرمایہ کاری - توقیر ماگرے

طویل المدت سرمایہ کاری - توقیر ماگرے

توقیر ماگرے کبھی آپ نے سنا کہ کوئی فوج بغیر اسلحے اور جنگی تربیت کے جنگ جیت گئی؟ کوئی عمارت تعمیر ہوئے بغیر کھڑی ہوگئی؟ کھانا کھائے بغیر کسی پیٹ بھر گیا یا کھلاڑی میدان میں اترے بغیر ہی مقابلہ جیت آئے؟ یقینا آپ نے ایسا کبھی نہیں سنا ہوگا اور نہ ہی کبھی ایسا سنیں گے۔ کیونکہ کسی بھی مقصد کے حصول کے لئے صحیح سمت میں پہلا قدم اٹھانا شرط ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں کامیابی کے لئے مطالعے کا وسیع ہونا ضروری ہے اور اگر بات شعبہ سائنس کی ہو تو اس میں کامیابی کے لئے مطالعے کے ساتھ ساتھ مشاہدے کا ہونا بھی نہایت ضروری ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں ہم لوگ شعبہ سائنس میں ترقی نہ ہونے کا رونا تو بہت روتے ہیں مگر کیا اس شعبے میں ترقی کے لئے ہم کوئی عملی قدم بھی اٹھا رہے ہیں؟ نہایت افسوس کے ساتھ اسکا جواب نفی میں ہے۔ علوم سائنس کی ترویج کے لئے کسی حد تک کام تو ہوا ہے جس میں کتابیں، رسائل و تحقیقی مقالوں وغیرہ کا چھپنا شامل ہے، مگر یہ بہت کم ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں کتاب بینی کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسلئے بہت کم لوگ ہی اس میڈیم سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
معاشرے میں سائنسی علوم کے فروغ کیلئے ہماری ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ ایک عام آدمی اور ایک سائنسی علوم کو سمجھنے والے انسان میں فاصلہ کم سے کم ہو۔ مستقل بنیادوں پر ان میں رابطے کا کوئی فورم بنایا جائے۔ موجودہ دور میں ترقی یافتہ ممالک اس فاصلے کو کم کرنے کیلئے "سائنسئ میوزیم" بنارہے ہیں اور انہیں بطور رابطے کا فورم استعمال کررہے ہیں۔ سائنسی علوم کے فروغ کیلئے پاکستان میں متعلقہ اداروں کو ہر سال کروڑوں روپے ملتے ہیں، مگر ہماری بدقسمتی کا یہ حال ہے کہ پورے پاکستان میں صرف ایک سائنسی میوزیم (نیشنل میوزیم آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی۔ لاہور) ہے جوکہ 1965ء میں تعمیر ہوا تھا۔
اگر ملک کے صرف بڑے شہروں میں ہی چند سائنسی میوزیم بنادیے جائیں تو اس کے بےشمار فوائد حاصل ہوں گے۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
* لوگ سائنس کی قدیم اور جدید ایجادات سے روشناس ہونگے۔
* طالبعلموں کی مشکلات کم ہوسکیں گی۔
* لوگوں میں سائنسی علوم سمجھنے کی جستجو بیدار ہوگی۔
* لوگوں میں کسی بھی چیز کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی۔
* عوام کو صحت مند تفریحی سرگرمیاں میسر آئیں گی۔
* بچے سائنسئ علوم میں دلچسپی لیں گے۔
* معاشی سرگرمی شروع ہوگی جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے۔
* اور سب سے بڑھ کر نوجوان نسل سائنسئ علوم حاصل کرنے کیطرف متوجہ ہوگی۔
یہ بات تو اٹل ہے کہ سائنسی تجربات و تحقیقات کو کتابوں سے پڑھ کر آپ ان سے واقفیت تو حاصل کرلیںگے مگر جب تک عملی طور پر انکا جائزہ نہ لے لیں ذہن کے کسی کونے میں کوئی نہ کوئی سوال کھٹکتا ضرور رہے گا۔ ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ ریاست پاکستان فی الفور بچوں کے لیے کوئی سائنسی پروگرامز کا چینل بھی شروع کرے، چاہے تجربانی بنیادوں پر ہی سہی، کیونکہ ایک سائنسی تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ ایک بچہ دس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے 65 زبانیں سیکھ سکتا ہے تو اس کا انحصار ریاست پاکستان پر ہے کہ ہمارے بچے کرائم شوز یا دیگر فضولیات دیکھ کر پروان چڑھیں یا سائنس و ٹیکنالوجی کو دیکھ کر۔
یہ نہ صرف میری بلکہ ہر پڑھے لکھے باشعور پاکستانی کی خواہش ہے کہ جتنا جلدی ہوسکے متعلقہ ادارے اس جانب توجہ دیں۔ اگر اس مد میں آج ہم نے یہ طویل المدت سرمایہ کاری کردی تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان ایٹمی طاقت کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی طاقت بھی ہوگا۔ کیونکہ ذہنوں پہ کی گئی سرمایہ کاری کبھی ضائع نہیں ہوتی۔

Comments

Click here to post a comment