ہوم << زنا اور ناجائز بچے - مبین امجد

زنا اور ناجائز بچے - مبین امجد

مبین امجد چند دن جاتے ہیں کہ ایک تصویر دیکھی تھی جس میں کسی نومولود بچے کو شاپر میں ڈال کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینکا گیا تھا۔ قسمے دیکھ کر دل لرز گیا تھا۔ آئے دن ہمارے اس اسلامی ملک کی سڑکوں چوراہوں پر کتے بلیاں نومولود بچوں کی نعشوں کو اٹھائے نظر آتے ہیں۔ اور دل خون کے آنسو روتا ہے مگر ہم کچھ کر نہیں سکتے سوائے کڑھنے کے اور جلنے کے۔ کیونکہ بات یوں ہے کہ جب معاشرہ بد چلن ہو جائے تو اس طرح کے واقعات معمول بن جایا کرتے ہیں۔ کہنے والے تو اس بچے کو حرامی کہیں گے نا مگر میں کہتا ہوں کہ حرامی تو وہ ہیں جو اس کو اس دنیا میں لانے کا سبب بنے۔ میں کہتا ہوں حرامی تو وہ ہیں جنہوں نے اپنے وقتی ابال اور لذت کی خاطر النکاح من سنتی کو پس پشت ڈال کر عارضی تعلق کو ترجیح دی۔
جب کوئی بےشرم ماں اس معصوم کلی کو یوں کوڑے کے ڈھیڑ میں پھینکتی ہوگی تب ایک بار بھی ممتا نہ تڑپی ہوگی۔ تب ایک بار بھی انسانیت نہ لرزتی ہو گی۔ میں کہتا ہوں زمین کا کلیجہ پھٹ کیوں نہیں جاتا۔ یہ ٹھیک ہے لوگ اس طرح کے کام کرتے ہیں اور پھر اپنے گناہوں پہ پردہ ڈالنے کے لیے ان معصوموں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ مگر تب کیا کریں گے جب ان کی زبانوں پہ مہر لگ جائے گی اور ان کے اعضا چیخ چیخ کر ان کے خلاف گواہی دیں گے۔ تب کہاں چھپیں گے۔ تب تو یہ بچہ بھی ان کو گریبان سے پکڑے گا۔ بتاؤ کیا جواب دو گے؟
ان بد بختوں کو شاید دوہرا عذاب ہوگا ایک زنا کا اور ایک قتل کا۔ مگر اللہ بڑا غفور رحیم ہے شاید بخش دے۔ مگر اس معاشرے کو شاید نہیں بخشے گا جس نے نکاح کو اس قدر مشکل اور زنا کو اس قدر آسان بنا دیا کہ ایسے روح فرسا واقعات ہماری اس سوسائٹی میں ہونے لگے۔ یاد رکھیے اقبال نے کہا تھا کہ
فطرت افراد سے اغماض بھی کرلیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
یاد رکھیے زنا ایک قرض ہے اور قرض ہر حال میں لوٹانا ہی ہوتا۔۔۔اور ایسا کبیرہ گناہ ہے کہ اللہ پاک نے اس کی مذمت میں فرمایا۔
[pullquote]وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا ۖ إنَّہ كَانَ فَاحِشَۃ وَسَاءَ سَبِيلا[/pullquote] خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے۔ (سورۃ اسراء آیت نمبر 32)
اللہ پاک کے اس قدر صریح حکم کے بعد بھی ہم اس قدر ذلت کی اتھا ہ گہرائیوں میں اتر چکے ہیں کہ اسے ہم معمولی گناہ تصور کرتے ہیں۔ مگر یاد رکھیے کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا بھگتان ہم اس دنیا میں بھی بھگتیں گے اور آخرت میں بھی اس کا بدلہ بہت برا ہے۔
وہ لوگ جو اسلام کی شرعی سزاؤں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ انسانیت کے خلاف ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے میں پوچھتا ہوں کہ کیا یہ بچہ انسان نہیں ہے۔ کیا تم جو مرضی کھیل کھیلو اور پھر عزتوں کو بچانے کیلیے یوں قتل عام کرتے پھرو وہ غیر انسانی نہیں ہے۔ تب انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔مگر شاید تمہارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں کیوں کہ تم نے نصاب کوئی اور پڑھا ہے اور میں نے سوال کوئی اور پوچھ لیا۔ مگر یاد رکھیے یہ دنیا مکافات عمل ہے۔ میں نے آپ جیسوں کو بعد میں روتے اور اپنے سر میں خاک ڈالتے دیکھا ہے۔ مگر سمجھ تب آتی ہے جب اللہ کی پکڑ میں آجاتے ہیں۔
مگر شاید گناہ کا احساس گناہ جاتا رہے تو معاشرے یوں ہی شکست و ریخت کا شکا ہو جاتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارا یہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جب ایسے حالات ہوجائیں تو پھر کوئی بھی نوٹس نہیں لیتا۔ کوئی پوچھتا تک نہیں۔ بلکہ ہر کوئی اپنے چند ٹکے کھرے کرنے کیلیے آنکھوں پہ پٹی باند ھ لیتا ہے۔ اگر میری بات کا یقین نہیں تو آپ پاکستان کے ہر بڑے چھوٹے اخبار میں چھپنے والا یہ اشتہار دیکھ لیں۔

Comments

Click here to post a comment