اسٹیڈیم میں آگ لگ چکی تھی. گراؤنڈ دھویں سے بھر رہا تھا. پاکستان اور انگلینڈ کے کھلاڑی گراؤنڈ سے منہ اور آنکھوں پر ہاتھ رکھے بھاگ رہے تھے. یہ 1967-68 ہے.
وہ دونوں ایک دوسرے کو خوانخوار نظروں سے دیکھ رہے تھے. دونوں کی تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں. مائیک گیٹنگ نے غصے سے اپنا معافی نامہ شکور رانا کو پکڑایا. یہ 1987 ہے.
ایمپائر نے انگلی فضا میں بلند کی مگر بلے باز کرس براڈ نے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا. کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد ساتھی کھلاڑی اور ڈریسنگ روم سے کپتان اور مینجر کی ہدایت وہ کریز چھوڑنے پر آمادہ ہوا. یہ بھی 1987 ہے.
بولر نے ایمپائر سے اپنی سوئیٹر لینا چاہی. ایمپائر غصے میں تھا اور سوئٹر اسکی بیلٹ سے الجھ بھی گئی تھی نتیجتاً عاقب جاوید کو بھی لگا کہ ایمپائر اسکے ساتھ بدتمیزی کر رہا ہے. اس نے ایمپائر کو دھمکی آمیز انداز میں دیکھا اور ہاتھ کمر پر رکھ کر بولنے لگا. اس سے قبل کپتان جاوید میانداد بھی اسی انداز میں ایمپائر سے بحث کر چکا تھے جب رائے ایمرسن نے عاقب کو لگاتار باونسر کروانے سے منع کیا تھا. یہ 1992 ہے.
انگلینڈ کے کپتان کی جیب سے مٹی اور بوتل کھولنے والی چابی نکلتی ہے. مائک ایتھرٹن اسکو اپنی غلطی اور تجربہ قرار دیتے ہوئے نظر انداز کرنے کا کہتے ہیں. یہ 1996 ہے.
گیس سلنڈر کے دھماکے سے کھیل رک جاتا ہے. اس دوران ایک پاکستانی کھلاڑی پچ پر جاتا ہے اور زور زور سے اپنے بوٹ پچ کے درمیان رگڑنا شروع کر دیتا ہے. یہ کھلاڑی شاہد آفریدی ہے. یہ 2005 ہے.
انضمام کی آنکھیں بال ٹمپرنگ کے الزام پر غصے سے سرخ ہوجاتی ہیں وہ فوراً ایمپائر ڈیرل ہیر سے معافی کا مطالبہ کرتا ہے. ہیر انکار کرتا ہے. انضمام وقفے کے بعد ٹیم کو واپس گراؤنڈ میں لے کر جانے سے انکار کر دیتا ہے. یہ 2006 ہے.
مظہر مجید کے سامنے پیسوں کا ڈھیر لگا ہے. وہ فکسنگ کی تفصیلات بتاتا ہے. کچھ دن قبل عامر اور آصف اوول اور لارڈز میں فٹ فٹ کی نو بالز کرتے ہیں. اسپاٹ فکسنگ کے الزامات بعد میں ثابت ہوجاتے ہیں. یہ 2010 ہے.
اب 2016 یے اور آج ،جمعرات کے دن سے پاکستان انگلینڈ کی ایک اور ہنگامہ خیز ٹیسٹ سیریز کا آغاز ہوگیا ہے ۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ پاکستانی ٹیم کم سے کم پہلے ٹیسٹ میں فیورٹ ہے اور پاکستان انگلینڈ کو ہرا سکتا ہے. لیکن اگلے تین ٹیسٹ میچز کے لئے انگلش ٹیم کا پلڑا بھاری ہوگا. اس دوران اگر موسم خشک اور گرم رہا تو پاکستان ایک مزید ٹیسٹ جیت سکتا ہے. میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر پاکستان یہ سیریز برابر بھی کر لے تو ایک بہتر رزلٹ کہا جا سکتا ہے. لیکن زیادہ متوقع خدشہ انگلینڈ کی 2-1 سے جیت لگ رہی ہے. پاکستان کے میچ ونرز ٹیسٹ میں بولنگ میں یاسر شاہ اور عامر جبکہ بیٹنگ یونس اور سرفراز ہوسکتے ہیں. مصباح، اسد اور سہیل خان عمدہ مدد دے سکتے ہیں.
امکان غالب ہے کہ پاکستان سری لنکا سے کہیں بہتر کھیلے گا اور سیریز ایک اچھی اور دلچسپ ہوگی. جانے کیوں میں ایک عرصے بعد پاکستانی ٹیم کے لئے مثبت جذبات اور جوش محسوس کر رہا ہوں. پاکستانی ٹیم اچھا کھیلے اور ڈٹ کر مقابلہ کرے تو ہار جیت کا بہت دکھ نہیں ہوگا. مصباح، اظہر اور حفیظ کو صرف بیٹنگ پچز پر رنز کرنے کی تنقید کو اس سیریز میں غلط ثابت کرنا ہوگا وگر نہ وہ صرف سلو پچز کے شیر قرار پائیں گے.
لارڈز میں پچ کا سلوپ پہلی بار وہاں کھیلنے والے کے لئے بہت ایشو ہوتا ہے. اس لئے امید ہے کہ پریکٹس میں خصوصی توجہ دی گئی ہوگی. اگر موسم ابر آلود ہوا تو گیند سوئنگ کرے گی اور انگلینڈ کے پاس ووکس یا پہلا میچ کھیلنے والا جیک بال یا رولینڈ جونز ہی سوئنگ بولر ہیں. اینڈرسن اور اسٹوکس کی غیر موجودگی میں انگلش بولرز کا بھی امتحان ہوگا. اگلے پانچ دن لندن میں شاید ایک دن بارش کا امکان ہے دو دن ٹھیک ٹھاک دھوپ اور مناسب موسم ہوگا اس لیے ٹیسٹ کے نتیجے کا امکان غالب ہے لیکن یاسر شاہ کو کم مدد ملے گی کیونکہ سخت گرمی یا شدید دھوپ کا امکان نہیں لگ رہا ہے. پاکستان کو سہیل خان کو کھلانا چاہئے تھا کیونکہ وہ سوئنگ بولر ہے اور اسکی لینتھ بھی فل ہے. نیز ہم سارے ہی کھبے فاسٹ بولرز نہیں کھلا سکتے، تاہم ٹیم مینجمنٹ نے سہیل کو بارہ کھلاڑیوں میں بھی شامل نہ کیا اور پھر آخری مرحلے پر عمران خان کی جگہ راحت علی کو ترجیح دی گئی۔. ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ برا فیصلہ نہیں یوگا کیونکہ لارڈز کی پچ تقریباً چار دن تک عموماً بہترین رہتی ہے صرف پہلے دن کچھ سوئنگ اور پیس کا امکان ہوتا ہے لیکن اگر پہلے بیٹنگ کرکے پاکستان بیٹنگ بھی کر لے تو تیسرے دن بادل اور بارش کا امکان ہے اور اس دن پاکستان کی بولنگ زیادہ کامیاب رہ سکتی ہے. پچ سے زیادہ آسمان کو دیکھ کر فیصلہ کرنا مناسب ہوگا. مصباح کو چاہیے کہ دو سلپ تو اپنے فاسٹ بولرز کے لئے ہر حال میں رکھے. آغاز میں چار سلپ رکھی جانی چاہئے. ہیلز کے لئے دو گلی رکھنی چاہئے. روٹ کو کھبے عامر اور وہاب آؤٹ کر سکتے ہیں. انگلش لوئر آرڈر کو جلد نپٹا نا ہوگا انکی ٹیل اچھی اور نمبر دس تک بیٹنگ کرنے والے ہیں اس لئے صرف روٹ اور کک کو آؤٹ کرکے مطمئن نہیں ہونا چاہئے.
پاکستان کی پلئنگ الیون یہ ہونی چاہئے.
حفیظ، شان، اظہر، یونس، مصباح، اسد، سرفراز، یاسر، وہاب، عامر اور راحت علی۔عمران خان ایک محنتی بولر ہے اسکو کھلانا برا فیصلہ نہیں تھا،مگر ایک جینوئن فاسٹ بولر وہاب کی شکل میں ٹیم میں ڈالنا ضروری تھا۔یونس کو بطور چوتھے سیمر کے استعمال کیا جا سکتا ہے، اظہر علی بوقت ضرورت پارٹ ٹائم سپنر کے طور پر بائولنگ کرا سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے