ہوم << صحافت کو ضرورت ہے - نوید احمد

صحافت کو ضرورت ہے - نوید احمد

نوید احمد ضرورت ہے کہ ضروری بات پر ضرور بات کی جائے.
ضرورت ہے کہ دوسروں کے کان کھینچنے والوں کے اب کان کھینچے جائیں.
ضرورت ہے کہ دوسروں سے موقف لینے والوں سے اب موقف لیا جائے.
ضرورت ہے کہ دوسروں سے ثبوت کا تقاضا کرنے والوں سے اب غیر ذمہ داری کا ثبوت مانگا جائے.
ضرورت ہے کہ دوسروں کو نظم و ضبط کا درس دینے والے خود بھی نظم و ضبط کا مظاہرہ کریں.
ضرورت ہے کہ میڈیا کی ریٹنگ کے میعار تبدیل کیے جائیں.
ضرورت ہے کہ خبر میں مفاد کے بجائے مواد کو ترجیح دی جائے.
ضرورت ہے کہ ایکٹر کی بجائے کریکٹر میدان میں اتارا جائے.
ضرورت ہے کہ صحافت کو تضحیک، تذلیل، تشکیک اور تفریق کے بجائے تحقیق، تہذیب، تحریر اور تخلیق کی راہ دکھاتے ہوئے تربیت کی جائے.
ضرورت ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر انسانی حقوق کو پامال نہ کیا جائے.
ضرورت ہے کہ خبر کا حشر نشر کرنے کے بجائے صرف نشر کی جائے، حاضرین کو تماشہ دکھانے کے بجائے ناظرین اور قارئین تک خبر پہنچائی جائے.
ضرورت ہے کہ صحافتی تنظیمیں مذمت کے ساتھ ساتھ مرمت کا بھی مناسب بندوبست کریں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے.
ضرورت ہے کہ پریس اینڈ پبلیکیشن کمیشن کو مضبوط، متحرک اور فعال بنایا جائے، ایک ایسا ضابطہ اخلاق ترتیب دیا جائے جس میں ضابطے کے علاوہ اخلاق کو بھی مدنظر رکھا جائے، صحافیوں کی تربیت کا انتظام کیا جائے، جس طرح آزادی کی کوئی حد ہوتی ہے.
ضرورت ہے کہ صحافت کی حدود و قیود کا خیال رکھا جائے،ضرورت ہے کہ صحافی دراصل صحافی رہے، وکیل، پولیس، جج اور دیگر انتظامی اختیارات استعمال کرنے سے پرہیز کرے.
ضرورت ہے کہ اطلاعات و نشریات والے تعصب کی عینک اتار کر اشتہار گردی کے بجائے ایک ذمہ دار قومی ادارے کا کردار ادا کرتے ہوئے اطلاعات اور نشریات میں پائے جانے والے سقم دور کرنے پر توجہ دیں.
ضرورت ہے کہ میڈیا میں آجر(Employer) اور اجیر(Employee) کے درمیان مسائل دور کیے جائیں، آجربھی اجیر کی زندگی اجیرن بنانے سے پرہیز کریں، اجیر کی محنت کا جائز معاوضہ دیا جائے.
کہا جاتا ہے کہ صحافت ریاست کا چوتھا ستون ہے لہذا ضرورت ہے کہ اس ستون کی مضبوطی، حفاظت اور تزئین و آرائش کا خاطر خواہ بندوبست کیا جائے.
ضرورت ہے کہ صحافت کو قبیلہ یا برادری بنانے کے بجائے خاندان سے تشبیہ دینے کے بجائے بندوق یا تلوار کو قلم کا استعارہ بناکر پیش کرنے والے، لوح و قلم کی حرمت کی پاسبانی کا دعویٰ کرنے والے اسے ایک مقدس فرض سمجھ کر ادا کریں،

Comments

Click here to post a comment