ہوم << تقاضا ہے محبت کا - حفصہ فیصل

تقاضا ہے محبت کا - حفصہ فیصل

ثوبان تم نے اس رسالے کے لیے کیوں لکھا؟ احمر نے کچھ غصے سے دوست کو تنبیہ کی.
بھائی لکھنا تو میرا شوق ہے، بس جب تخیل کی پرواز عروج پہ ہوتی ہے، میں قلم کاغذ سنبھالتا ہوں اور کہانی تخلیق ہوتی جاتی ہے، بس پھر بھیج دیتا ہوں کسی بھی اچھے رسالے میں، اب رسالے کا نام اور کام رسالے والے جانیں. اپنا کام تو صرف لکھنا ہے. ثوبان نے احمر کے اعتراض پر دلیل دی.
مگر ثوبان، تم جانتے ہو، اس میں مستقل قادیانیوں کی کمپنی کا اشتہار لگتا ہے، اس طرح یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت کے منافی ہے کہ ہم اس پودے کی نشوونما میں اپنا حصہ ڈالیں جو ہمارے پیشوا اور رہنما کی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے والے گروہ کو عزت دے. احمر ٹوٹے لہجے میں بولا.
یار! میں اس رسالے کے ذمہ داران سے بخوبی واقف ہوں، وہ لوگ پکے موحد ہیں، ثوبان نے ایک بار پھر اپنا مؤقف پیش کیا.
ایسے کیسے موحد ہیں کہ جس کی ختم نبوت کی گواہی خود اللہ نے قرآن میں دی، اسی کے دشمنوں کے اشتہار لگا کر اس کو جلا دیتے ہیں! میں نہیں مانتا تمھارے نظریے کو، جہاں محبت ہوتی ہے، وہاں اپنا فائدہ نہیں ہوتا. محبت کا تقاضا بڑ ے بڑے پہاڑ سر کروا لیتا ہے، اسی تقاضے نے کسی کو غازی تو کسی کو شہید کا منصب عطا کیا، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر ہزاروں جانیں قربان، یہ قلم قرطاس کیا شے ہے' احمر بولتا جارہا تھا جبکہ جذبات کی سرخی اس کی آنکھوں کے دھارے کھول چکی تھی.
آج احمر ثوبان کو ایک بہت بڑا قلمکار محسوس ہو رہا تھا، جس نے تخیل کی پرواز اور لفظوں کے ہتھیار کے بجائے محبت کے تقاضے کونبھایا تھا، ایسا تقاضا جس کا حکم رب نے دیا، جس کی پیروی صحابہ کرام نے کی اور اب اس تقاضے کی تقلید ہمیں کرنی ہے.
ثوبان کا جھکا سر اور نم آنکھیں دیکھ کر احمر بولا، دوست میں تمھیں قلم چھوڑنے کا نہیں کہہ رہا، بس اپنی تخلیق بھیجنے سے پہلے تھوڑی سی تحقیق کر لیا کرو، یہی تقاضا ہے، بلکہ اگر ادارہ تم سے تمھاری تحریر کا تقاضا کرے تو تم ان کو اپنا مدعا بتلا کر محبت کا حق ادا کرنے والوں میں اپنا نام لکھوا سکتے ہو، کیا خیال ہے؟ احمر جوش سے بولا.
آج ثوبان کو احمر تخیل کی نئی پرواز سے روشناس کروا گیا تھا، ایک ایسی پرواز جس کا تقاضا محبت تھی، فقط محبت..
فداک ابی وامی

Comments

Click here to post a comment