ہوم << موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ - دُرّ صدف ایمان

موت، دیگیں اور معاشرے کا المیہ - دُرّ صدف ایمان

یوں تو ہمارا معاشرہ بے حس اور بے شمار المیوں سے بھرپور ہے لیکن آج جس المیہ پر الفاظ قلمبند کی جسارت کررہی ہوں، وہ المیہ لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس میں ازحد پریشانی کا باعث ہے اور اگر دیکھا جائے تو یہ المیہ سنگین صورتحال اختیار کر رہا ہے.
اگر کہیں کسی خاندان میں موت واقع ہوتی ہے تو میت کی تدفین ہوتے ہی دیگوں کے ڈھکن کھل جاتے ہیں اور وہی احباب جو کچھ دیر پہلے تسلی دیتے ہوئے نظر آرہے تھے، انہیں اپنے کھانے کی، بوٹیوں کی، گرم گرم بریانی کی، فکر ہو جاتی ہے.
*اس کے بعد اہل خانہ جو غم سے نڈھال ہوتے ہیں، اب وہ بے چارے مصروف میزبانی ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں

افسوس اس بات کا ہے کہ تعزیت کرنےوالے خود کیوں نہیں سوچتے کہ آیا وہ تعزیت کے لیے آئے ہیں یا پھر دعوت کھانے؟
اگر شریعت میں ہے کہ میت کے گھر والوں کو کھانا پہنچایا جائے تو یہ کھانا صرف اور صرف میت کے گھر والوں کے لیے ہوتا ہے یا پھر جو دور دراز کے علاقے سے تعزیت کےلیے آئے ہوئے ہوں، ان کےلیے پوری کمیونٹی برادری کےلیے کھانا بنوانا، کھانا کھلانا سب باتوں سے قطع نظر خود غور کریں کس پر بار ہے؟ اور کس پر بوجھ؟
*میت کے گھر والے یا اگر بالفرض جس کے گھر میں انتقال ہوا ہوتا ہے، جو اس گھر کا واحد کفیل تھا تو جو تھوڑی بہت بھی جمع پونجی موجود بھی ہوتی ہے، وہ اس برادری کی دعوت ِطعام و سفاکیت کی نظر ہو جاتی ہے، اور اگر موجود نہ ہو جمع پونجی تو وہ بے چارے اس غم میںاور برادری کی دعوتِ شیراز کرنے میں قرض دار بھی ہوجاتے ہیں. اور اس طرح میت کے اہل خانہ ہر طرح سے خالی ہاتھ ہو جاتے ہیں جبکہ شرعی طور پر تعزیت کا حکم اس سے بالکل جداگانہ ہے۔
میت کے گھر جائیں، اہل خانہ کو تسلی و تشفی دیں، خاندان کےقریبی اقارب میں جو مالی طور پر مستحکم ہو، میت کے گھر والوں کے لیے کھانے کا انتظام کرے، دعائے مغفرت و ایصالِ ثواب کا اہتمام کرے، اور اس کے بعد اپنے گھروں کی راہ لیں نہ کہ جنازہ اٹھنے کے بعد دیگوں کے کھلنے کا انتظار کریں اور پھر دسترخوان پر تشریف فرما ہو کر بھرے پیٹ سے دوبارہ ملنے کے اختتامی و رسماً جملے بولیں اور گھر کی طرف جائیں۔ یہ طریقہ نہ اخلاقی طور پو ٹھیک ہے نہ شرعی طور پر معتبر ہے بلکہ انسان کی انسانیت پر حرف اٹھانے والی بات ہے۔
غرض صرف یہ ہے کہ اگر معاشرے کے رسم و رواج کے مطابق دیگیں آہی گئیں اور اہلخانہ کا کھانا کھانے پر اصرار بھی ہے تو سب اپنے اپنے طور پر عہد کر لیں کہ وہ دو لقمے سے زیادہ نہ کھائیں گے، ان شاءاللہ رفتہ رفتہ کسی نہ کسی دن یہ فرسودہ اور اخلاقی گرواٹ کا باعث رسم ختم ہو ہی جائےگی۔
ہمیں اپنے آپ کوبدلنا ہے، جبھی اس بگڑے ہوئے نظام میں تبدیلی آ سکے گی اور ایک مستحکم معاشرہ بھی جلد وجود میں آجائے گا۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے اصلاح کی توفیق عطا فرمائے اور غلط رسم و رواج سے نجات عطا فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment