ہوم << کشمیر نہیں، برصغیر پر اختیار کیسے ملےگا؟ عزیر خان

کشمیر نہیں، برصغیر پر اختیار کیسے ملےگا؟ عزیر خان

اللہ تعالیٰ نے زمین، آسمان اور تمام مخلوقات کو تخلیق کرنے کے بعد اپنی تمام تخلیقات میں انسان کا انتخاب کیا اور اسے زمین پر اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیا۔ اس ضمن میں ایسا نہیں کہ اللہ نے انسان کو ذمہ داری دینے کے بعد بالکل تنہا چھوڑ دیا بلکہ مرحلہ وار اس کی تربیت کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں اپنے انبیاء بھیجے۔ اس تربیت میں نہ صرف اللہ نے انسان کو شعور کی منزلیں طے کروائیں بلکہ دنیا کے امور چلانے کے لیے باقاعدہ پورا آئین مرتب کیا اور تمام ضروری چیزیں تحریری صورت میں یکجا کر کے اس کے حوالے کیں اور تو اور اس تحریری مسودے کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا۔ اس صدیوں کی تربیت کے بعد اللہ نے انسان سے تمام ظاہری رابطے منقطع کر لیے اور اس کو دنیا کا مکمل اختیار دے کر اس کی نگرانی شروع کر دی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس دن کے بعد سے آج تک اجتماعی طور پر اللہ نے انسان کے اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کی اور اس کو زمین پر پورا اختیار دیا کہ وہ اپنے اس امتحان میں سرخرو ہو سکے۔ البتہ بعض اوقات جب انسان اپنی اس ذمہ داری میں بری طرح ناکام ہوا تو جزوی سطح پر بعض علاقوں میں اللہ نے مداخلت کی اور تمام معاملات پھر سے واپس اپنی نہج پر لے آیا۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی بھی کمپیوٹر گیم میں Reset کی آپشن کا استعمال کیا جائے۔
روزمرہ زندگی میں کوئی شخص کسی بھی وجہ سے کسی دوسرے کو کچھ معاملات میں اپنا نائب بناتا ہے اور اسے کچھ اختیار دے کر یہ توقع کرتا ہے کہ وہ ان معاملات کو احسن طریقے سے چلا سکے گا۔ بالکل اسی طرح انسان کے پاس بھی اختیار موجود ہے اور روزِ قیامت اِسی اختیار کے بارے میں پوچھاجائے گا۔
اسی سلسلے کی کڑی آپ کو برصغیر میں بھی ملتی ہے کہ جب یہاں کے مسلمانوں نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ہم تو اس امتحان میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں مگر ہمارے پاس پورا اختیار نہیں۔ اللہ نے ان کے اس عذر کو بھی ختم کر دیا اور سوائے کشمیر اور ایک دو اور چھوٹی ریاستوں کے اس تمام علاقے کو جس پر اختیار کی وہ خواہش رکھتے تھے، ان کے تابع کر دیا۔ مگر ہوا وہی جو کچھ ہوتا چلا آیا ہے. یہاں بھی انسان بری طرح ناکام ہوا مگر کیونکہ انسان کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا تو یہاں کے لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا اور آج بھی ان کے پاس اس ناکامی کے جواز میں مختلف حیلے بہانے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آج بھی وہ کشمیر میں اختیار مانگ رہا ہے کہ اسے یہاں کا اختیار دیا جائے۔
اب آتے ہیں کشمیر کی طرف پاکستان میں بسنے والے ہر انسان کی ہمیشہ یہی خواہش بھی رہی ہے اور اس نے کسی نہ کسی طور پر اس کوشش میں حصہ بھی ڈالا ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائے۔ اس سلسلے میں عوام نے اپنا کردار ادا کیا اور حکومتوں نے اپنی کوشش کی۔ آج پھر کشمیر لہولہان ہے اور پاکستانی و کشمیری کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگا رہے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اگر ہم تھوڑی سی عقل سے کام لیتے تو کشمیر کا مسئلہ بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا اور وہ حل ہے بحثیت نائب اپنی ذمہ داری ادا کرنا۔
جی ہاں! کشمیر کا مسئلہ تب تک حل نہیں ہو گا جب ہم خدا سے کیا ہوا وہ وعدہ پورا نہیں کریں گے جو پاکستان بناتے وقت ہم نے کیا تھا اور وہ وعدہ ہے اللہ کے دیے ہوئے آئین کا نفاذ جس کا اور کچھ تقاضا نہیں سوائے اس کے کہ انسان اپنے زیر اختیار علاقے میں عدل اور مساوات کا نظام نافذ کرے۔ جہاں لوگوں کی جان ومال کی حفاظت کا ذمہ ریاست خود لے، جہاں میرٹ کی بالادستی ہو، اختیار عوام کی نچلی ترین سطح پر منتقل کیا جائے، جہاں خوفِ خدا تمام چیزوں سے بڑھ کر ہو، جی ہاں! یہ تھا وہ وعدہ جو ہم نے تشکیلِ پاکستان کے وقت خدا سے کیا تھا۔
آپ خود فیصلہ کریں جب ہم کہتے ہوں گے کہ کشمیر بنے گا پاکستان تو کیا عرش پر یہ بات نہ ہوتی ہوگی کہ پہلے جو علاقے تمہارے پاس ہیں اس کا جواب تو دو۔ اس موقع پر مجھے وہ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ کسی نے حضرت عمرؓ کو یہ مشورہ دیا کہ اپنی فوجوں کو مت روکو اور جتنا زیادہ علاقہ فتح کر سکتے ہو تو کرلو تو اس پر حضرت عمرؓ نے سختی سے کہا کہ خدا کی قسم وہ زمین کے بھوکے نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جتنا علاقہ اللہ نے ان کے زیرِ نگیں کر دیا ہے، اس پر اللہ کا نظام نافذ کرنا اور لوگوں کو عدل فراہم کرنا بہت مشکل ہے کجا یہ کہ وہ اور علاقے فتح کریں۔ اس لیے میری بھی یہی تجویز ہے کہ اگر آپ کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو پہلے موجود پاکستان کی طرف توجہ دیں۔
یقین کیجیے جس جس انسان کے دل میں کشمیر کا دکھ ہے وہ اپنے اختیار کو اللہ کی رضا کے مطابق استعمال کرے، اگر آپ طالب علم ہیں تو دیانتداری سے محنت کریں، اگر آپ ڈاکٹر ہیں تو مریضوں کا پورا خیال رکھیں، اگر تاجر ہیں تو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی نہ کریں، اگر بیوروکریسی سے ہیں تو رشوت نہ لیں اور عوام کی فلاح کے لیے کام کریں۔ غرض یہ کہ اللہ نے ہم سب کو صاحب اختیار بنایا ہے اور ہمیں ایک رعایا دی ہے کسی کی رعیت میں اس کے گھر والے ہیں کسی کو اللہ نے سینکڑوں ملازم دیے ہیں اور کسی کو صوبہ تو کسی کے اختیار میں پورا ملک دیا ہے۔ بس اگر ہم سب اپنے اختیار کو دیانتداری سے پورا کریں تو وہ دن دور نہیں کہ یہاں ایسامثالی نظام قائم ہوگا کہ کشمیر بھی پاکستان کا حصہ بنے گا اور پوری دنیا آپ کے ساتھ چلنا چاہے گی۔
سچ پوچھیے تو مغرب میں کسی نہ کسی حد تک یہ نظام نافذ ہے اور وہ اپنے اختیار کو کسی نہ کسی حد تک نافذ کر رہے ہیں اور نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ آج ہر شخص امریکہ اور یورپ جانا چاہتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر ہم بحثیت مسلمان اس بات کو سمجھ جائیں تو کیا عظیم نتیجہ نکلے گا اور آپ دیکھیں گے کہ دنیا میں کشمیریوں کی حمایت کی ایسیجاندار تحریک اٹھے گی کہ بھارت کیا کوئی طاقت اسے روک نہیں سکے گی۔
اور اب آئیے حکمرانوں کی طرف، اگر تو حکمران کشمیر کا معاملہ حل کرنے میں سنجیدہ ہیں تو پاکستان کے پسماندہ علاقوں کو ان کا حق دیجیے جن میں جنوبی پنجاب، اندرون سندھ اور بلوچستان سرفہرست ہیں۔ پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر ڈالیے، اور ہر پانچ دس سال بعد کشمیر کشمیر کھیلنے اور اس پر سیاست چمکانے اور پھر خاموشی کی روش سے باز آ جائیے۔ کیونکہ یہ کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی اور خدا کے عذاب کو دعوت بھی ہے۔ خدارا پہلے اپنے اختیار کا جواب دیں، اس کا درست استعمال کریں، کشمیر تو کیا اللہ سارے برصغیر کا اختیار آپ کو دے گا۔