ہوم << دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین - شاہد اقبال خان

دورحاضر کا سب سے بہترین بیٹسمین - شاہد اقبال خان

ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں سر ڈان بریڈمین، سر گیری سوبرز، سر ویون رچرڑز، سنیل گواسکر، ظہیر عباس، جاید میانداد، انضمام الحق، رکی پونٹنگ، جیک کیلس، برائن لارا، سچن ٹنڈولکر، راہول ڈریوڈ جیسے عظیم کھلاڑی پیدا ہوے۔ سر بریڈمین بلاشبہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے کامیاب ترین بیٹسمین ہیں مگر ان کے بعد تجزیہ نگار دوسرے کامیاب ترین بیٹسمین پر کبھی متفق نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ مختلف زمانے کے کھلاڈیوں کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہر زمانے میں کنڈیشن مختلف ہوتی ہے مگر ایک ہی زمانے کے کھلاڑیوں کا آپس میں موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
دور حاضر میں بھی بہت شاندار بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ اس تحریر میں دور حاضر کے ان بیٹسمینوں کا موازنہ کیا گیا ہے جو کم از کم 40 ٹیسٹ میچ کھیل چکے ہیں اور ان کی اوسط 50 سے زیادہ ہے۔
کسی بھی بیٹسمین کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے اس کی ایوریج کافی نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں بہت سے طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس موازنے میں ہر بیٹسمین کو پانچ طریقوں سے جانچا جائے گا اور اس کو اس کے مطابق پوائنٹ دیے جائیں گے۔اس کی تفصیل نیچے دی گئی ہے۔
1۔ بیٹسمین کی ایوریج۔ 55 کی اوسط پر 20 پوائنٹ اور اس سے زیادہ ہر زنز پر ایک اضافی پوائنٹ ملے گا۔ 55 سے کم ہر رنز پر ایک پوائنٹ کاٹ لیا جائے گا.
2۔ مختلف ملکوں میں کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک میں کارکردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق ہر ملک میں پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
3۔ مختلف ملکوں کے خلاف کارکردگی۔ بیٹسمین کی ہر ملک کے خلاف کار کردگی دیکھی جائے گی اور اوپر دیے گئے معیار کے مطابق پوائنٹ جمع کر کے ان کی ایوریج لی جائے گی۔
4۔ لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت۔ ہر سنچری کے 40، ہر 150 پلس سکور کے 60، 200 پلس سکور کے 80، 250 سکور کے 100 اور 300 پلس سکور کے 120 پوائنٹ ملیں گے۔ ان تمام پوائنٹس کو جمع کر کے میچز کے تعداد پر تقسیم کر کے اس کی اوسط لی جائے گی۔
5۔ پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت۔ اس کے لیے کسی بیٹسمین کی بطور کپتان کارکردگی، بڑی اور اہم سیریز میں کارکردگی اور میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط دیکھی جائے گی. اس کے علاوہ فتوحات میں کردار بھی دیکھا جائے گا۔
دنیا میں اس وقت 6 ایسے بیٹسمین ہیں جن کی اوسط 50 سے زیادہ اور میچز 40 سے زیادہ ہیں۔ ان سب کا تفصیلی موازنہ نیچے دیا گیا ہے۔
اے بی ڈویلیر
abdevilliars-getty-1411-750 سپرمین یعنی اے بی ڈویلیر کے بارے میں یہ عام خیال ہے کہ وہ ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ کا شاندار کھلاڑی ہے کیونکہ وہ بہت مختصر وقت میں ہی مخالف ٹیم کے پرخچے اڑا کے رکھ دیتا ہے۔ مگر اے بی کی 50 کی ٹیسٹ اوسط یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اے بی ایک بہترین ٹیسٹ بیٹسمین بھی ہے۔ اوسط میں اسے 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے لیے کوئی وکٹ مشکل نہیں، کوئی باؤنڈری بڑی نہیں، کوئی باؤلر تیز نہیں، کوئی گگلی یا دوسرا گیند کو باؤنڈری سے باہر جانے سے نہیں روک سکتے۔ بنگلہ دیش میں ایک بیڈ فیز کی وجہ سے وہ زیادہ سکور نہ کر سکا۔ اس کے علاوہ تمام ممالک میں اور تمام ممالک کے خلاف اس کی اوسط 45 سے زیادہ رہی۔ مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر اسے بالترتیب 15،16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 106 میچز میں 21 سنچریاں، 7 بار 150 پلس،اور 2 بار 200 پلس سکور کیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے بی لمبی اننگز کھیلنے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسے اس کیٹیگری میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اے بی ایک خوف کا نام ہے۔ جب تک وہ وکٹ پر موجود ہو مخالف ٹیم جیت کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اس کی بطور وکٹ کیپر اوسط 57 کی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشکل اور زیادہ ذمہ داری کے وقت پہلے سے بھی بہتر پرفارم کرتا ہے۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اوسط بھی 45 سے زیادہ ہے۔ اس لیے پریشر کی کیٹیگری میں اسے 23 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 84 بنتی ہے۔
ہاشم آملہ
ہاشم-آملہ.jpg ایک بار شعیب اختر نے یہ کہا تھا کہ آملہ کو آؤٹ کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ اس سے ہی پوچھ لیا جائے کی بھئی تمہیں کہاں پر گیند کرائیں. آملہ ساؤتھ افریقہ کی رنز مشین ہے۔ اس کی ٹیسٹ اوسط 51 کی ہے۔ اوسط میں اسے 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ ہر ٹیم کے خلاف بےرحمی سے پیش آیا مگر اسے پاکستان، ویسٹ انڈیز اور بنگلہ دیش کی سلو وکٹوں نے بہت تنگ کیا۔ وہ ان ملکوں میں 30 کی اوسط سے بھی نہیں کھیل سکا۔ اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 12 اور 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ آملہ لمبی دوڑ کا کھلاڑی ہے۔ اگر وہ سیٹ ہو جائے تو پھر مخالف ٹیم اننگز ڈیکلیئر ہونے کا ہی انتظار کرتی ہے۔ اس نے 96 میچز میں 25 سنچریاں، 3 بار 150 پلس، 2 بار 200 پلس اور ایک ٹرپل سنچری بھی سکور کی۔ اسے ا س کیٹیگری میں 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی بطور کپتان بیٹنگ اوسط میں تھوڑی سی کمی ہوئی ہے۔ میچ کی تیسری اننگز میں اس کی اوسط نہایت شاندار 65 کی ہے مگر چوتھی اننگز میں اوسط کافی کم 35 کی ہے. انڈر پریشر کھیلنے میں آملہ کا ریکارڈ زیادہ امپریسو نہیں۔ اسے اس کیٹیگری میں 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 74 بنتی ہے۔
سٹیو سمتھ
SteveSmith اسمتھ آسٹریلیا کا کپتان ہے اور بہت نوجوانی میں ہی اسے یہ ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔ اس کی اوسط 58 کی ہے جو موجودہ دور کے کھلاڑیوں میں سب سے زیادہ ہے۔ اوسط میں اسے 23 پوانٹ ملتے ہیں۔ سمتھ کی یہ خوبی بھی اسے دوسرے تمام نان ایشین کھلاڑیوں سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ ہر طرح کی پچ پر کھیل سکتا ہے۔ اس کی تمام آٹھ ممالک میں 40 پلس کی اوسط ہے۔ ایشیا میں بھی اوسط 41 رہی۔ اس لیے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں اسے 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کوئی بھی ٹیم سمتھ کے بلے کے سامنے بند باندھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس نے تمام ٹیموں کے خلاف 40 سے زیادہ کی اوسط سے بیٹنگ کی سوائے پاکستان کے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ نے 44 میچز میں 15 سنچریاں، 3 بار 150 پلس اور 1 بار 200 پلس رنز کیے۔اس لحاظ سے اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ سمتھ کا انڈر پریشر پرفارم کرنے کا ریکارڈ بہت ہی شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 47 کی اوسط سے بیٹنگ کی۔ ایشیز سیریز میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط 81 کی رہی جو ناقابل یقین ہے مگر میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 40 سے کم رہی جو سمتھ کے ریکارڈ کا واحد منفی پوائنٹ ہے۔ اس لحاظ سے اسے15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کل پوائنٹ 96 بنتے ہیں۔
جو روٹ
joe-root جو روٹ انگلینڈ کی بیٹنگ لائن اپ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بلاشبہ پچھلے 20 سال میں انگلینڈ کا بہترین ٹیسٹ بیٹسمین ہے۔ پاکستان کے خلاف حالیہ سیریز میں الیسٹر کک اور جو روٹ کے آؤٹ ہونے کے ساتھ ہی پاکستانی قوم یہ سمجھنے لگ جاتی تھی کہ انگلینڈ آل آؤٹ ہو گئی ہے، وہ الگ بات ہے کہ ہر دفعہ ہی بیرسٹو اور معین علی ہمیں جھٹکا لگا دیتے تھے۔ جو روٹ کی ٹیسٹ اوسط 55 کی ہے جو کہ نہایت شاندار ہے۔ اوسط میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ سیم بال کو اچھا کھیلتا ہے۔ اس کی انگلینڈ اور جنوبی افریقہ مین اوسط 55 کی ہے۔ وہ اسپین باؤلرز کو کھیلنے والا انگلینڈ کا بہترین کھلاڑی ہے۔ اس کی ایشیا اور ویسٹ انڈیز میں بھی اوسط 55 سے زائد ہے مگر روٹ کے لیے باؤنسی وکٹ پر کھیلنا محال ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اوسط 20 کے قریب ہے۔ اسے مختلف ممالک میں کھیلنے کی کیٹیگری میں 17 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے تمام ممالک کے خلاف اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ اس کی سب سے کم اوسط نیوزی لینڈ کے خلاف 40 کی ہے۔ اس شاندار کارکردگی پر روٹ کو مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے 46 میچز میں 10 سنچریاں سکور کی ہیں جو اس کے معیار سے کافی کم ہیں۔ اس نے 3 بار 150 پلس، ایک بار 200 پلس اور 1 بار 250 پلس سکور کیا۔ اس لحاظ سے اسے لمبی اننگز کھیلنے کی صلاحیت میں 16 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ نے یواے ای میں پاکستان، ایشیز میں آسٹریلیا اور دورہ بھارت میں کئی انڈر پریشر اننگز کھیلیں۔ اس کی میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں بھی اوسط 40 سے زیادہ ہے، جیتنے والے میچز میں اس کی اوسط ناقابل یقین یعنی 82 کی ہے۔اس لیے اسے پریشر میں کھیلنے کی کیٹیگری میں19 پوائنٹس ملتے ہیں۔ روٹ کے کل پوائنٹ94 بنتے ہیں۔
کین ولیمسن
kane_williamson ولیمسن صرف 25 سال کی عمر میں بطور بیٹسمین وہ کچھ حاصل کر چکا ہے جو کوئی اور نیوزی لینڈ کا بیٹسمین حاصل نہیں کر سکا۔ وہ پہلا نیوزی لینڈ ہے جس کی ٹیسٹ اوسط 50 کی ہے۔ اس لے اسے اوسط میں 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن کی کارکردگی میں ایک قابل تنقید بات اس کی بھارت، جنوبی افریقہ اور انگلینڈ میں 35 سے بھی کم کی اوسط ہے۔ اس وجہ سے اس کی ان ممالک کے خلاف مجموعی اوسط بھی 35 سے کم ہے، البتہ کین ولیمسن ہر ٹیم کے خلاف سنچری اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی میں بالترتیب 13، 15 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس نے 54 میچز میں 14 سنچریاں سکور کیں، 3 بار 150 پلس اور صرف 1 بار ڈبل سنچری اسکور کی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اپنے کیرئیر میں کوئی زیادہ لمبی اننگز نہیں کھیلیں۔ اس کیٹیگری میں اسے 10 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین ولیمسن اننگز کو سنبھال کر چلنے والا کھلاڑی ہے۔ اس کی بھی دوسرے تمام عظیم کھلاڑیوں کی طرح پریشر میں کھیلنے کی صلاحیت شاندار ہے۔ اس نے بطور کپتان 61 کی اچھی اوسط سے بیٹنگ کی۔ میچ کی تیسری اور چوتھی اننگز میں اس کی اوسط 50 کے قریب ہے۔ فتوحات میں کین کی اوسط 82 کی ہے۔ ہر لحاظ سے کین ایک میچ ونر اور انڈر پریشر پرفار کرنے والا کھلاڑی ہے۔ اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ کین کے مجموعی پوائنٹس کی تعداد 73 بنتی ہے۔
یونس خان
یونس-خان.jpgیونس خان اعداد و شمار کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے کامیاب ٹیسٹ بیٹسمین ہیں، اسی وجہ سے آئی سی سی نے اسے کنگ خان کا خطاب بھی دیا، البتہ بہت سے تجزیہ نگار اور سابق کرکٹرز اب بھی اسے جاوید میانداد، ظہیر عباس اور انضمام الحق سے کمتر کھلاڑی سمجھتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے اس کی وجہ شاید وہ بھی نہیں جانتے۔ یونس کی پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ یعنی 53 کی ٹیسٹ اوسط ہے۔ اوسط میں اسے 18 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ تمام ممالک میں سنچری اسکور کر چکا ہے سوائے آسٹریلیا کے۔ اس کی ویسٹ انڈیز کے علاوہ تمام ممالک میں اوسط 40 سے زیادہ ہے۔ وہ تمام ممالک کے خلاف سنچری سکور کرنے والا واحد پاکستانی کھلاڑی ہے۔ اس کی کسی ٹیم کے خلاف اوسط 40 سے کم نہیں۔ اس لحاظ سے اسے مختلف ممالک میں اور مختلف ممالک کے خلاف کارکردگی پر بالترتیب 18 اور 22 پوائنٹس ملتے ہیں۔ وہ لمبی اننگز کھیلنے کا ماہر ہے۔ آپ ٹیسٹ میچ کے دوران جب بھی ٹی وی آن کریں گے آپ کو یونس کھیلتا ہوا نظر آئے گا۔ اس نے 108 میچز میں 30 سنچریاں، 6 بار 150 پلس، 4 بار 200 پلس، 1 بار 250 پلس اور ایک بار ٹرپل سنچری بھی اسکور کر چکا ہے۔ اس لیے لمبی اننگز کھیلنے میں اسے 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ اس کی ٹیسٹ کی چوتھی اننگز میں سب سے زیادہ اوسط، سب سے زیادہ سنچریاں ہیں، اس کی بطور کپتان اوسط 55 کی رہی جو کہ اچھی اوسط ہے۔ جن میچز میں پاکستان فتح یاب ہوا ان میں بھی اس کی اوسط 76 کی ہے۔ اس لحاظ سے یونس ٹیسٹ میچز میں پریشر کی صورتحال میں کھیلنے کا ماہر ہے۔ اس لیے اسے اس کیٹیگری میں 20 پوائنٹس ملتے ہیں۔ یونس کے کل پوائنٹس کی تعداد 99 بنتی ہے۔
%d8%a8%db%8c%d9%b9%d8%b3%d9%85%db%8c%d9%86

Comments

Click here to post a comment