ہوم << ہم کہ ٹھہرے اجنبی - صالحہ سراج

ہم کہ ٹھہرے اجنبی - صالحہ سراج

سال 1957ء کی بات ہے، خطۂ ارضی کی اِک بابرکت سَرزمین کہ جو فقط اِک نظریاتی و اُصولی بنیاد پر مَعرضِ وجود میں آئی، میں اِک ننھّی جان نے جنم لیا، والدین نے دین سے محبت کا بیج اُس نا م کے ساتھ ہی اُس کے دل میں بو دیا تھا کہ جِس کے ساتھ تاحیات دنیا اُسے پہچانتی۔
”سراج الحق“ یعنی ”حق کا چراغ“
بانیانِ پاکستان کی سرزمین مشرقی پاکستان کے زرخیز پہاڑی و ساحلی علاقے چٹاگانگ میں جنم لینے والے اس ”حق کے چراغ“ کو قُدرت کی جانب سے حقیقتاً اسلام اور پاکستان سے عشق کی انتہاؤں کو چُھوتی ہوئی محبت عطا کردی گئی تھی۔
پاکستانی شناخت کے ساتھ پیدا ہونے والے اِس شخص نے اپنی پہلی سانس سے لےکر شعوری و لاشعوری زندگی میں ہمیشہ خود کو ایک پاکستانی مسلمان سے زیادہ کچھ نہ جانا اور زندگی کے ہر امتحان و آزمائش کے موقع پر اپنے اِسی عشق کی سچائی اور کھرے پن کا بے لاگ ثبوت دیتا رہا۔
پاکستان کی بقا و دفاع کی جنگ وہاں لڑتا رہا کہ جہاں اُس کی ہمنوائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ لڑکپن کے دور میں ہی اپنے محبوب وطن کو اپنوں کی غدّاری کا زخم کھا کر ٹوٹنے کا المناک دن بھی اُس کی جاگتی آنکھوں نےدیکھا۔
مگر ”پاکستان زندہ باد“ کے ترانے پڑھنے اور نعرے لگانے والی زبان کبھی بھی ”سُونار بنگلہ“ جیسے سَراب سے آشنا نہ ہوسکی۔اگرچہ پاک وطن سے عشق اور اُس کے دولخت ہوجانے کا غم اُس کی بساط سے باہر تھا۔ جِس طرح پہلی سانس کے ساتھ وہ مسلمان اور پاکستانی تھا، اِسی طرح وہ آخری سانس تک خود کو مسلمان اور پاکستانی کہلوانے اور جاننے کا عہد رکھتا تھا۔ اُس کی یہ محبت اور عقیدت کسی ثبوت، دعویٰ اور دستاویز کی محتاج نہ تھی، کیونکہ اُس کا سراپا، اُس کا انگ انگ اور اُس کا ہر عمل بذاتِ خود ایک دستاویز ہے۔ اقبالؒ کو اقبالؒ ہی کی فکر میں سمجھنے والا ایک بےلوث اور فطین معتقد، حضرت قائدِاعظم کا شرحِ صدر کے ساتھ شیدائی۔۔ نظریۂ پاکستان گویا اُس کا اوڑھنا بچھونا۔
مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے تک کے سَفر کے دوران وہ کِن کِن آزمائشوں سے گزرا، یہ ایک الگ قصّہ ہے۔ اپنی پاکستانیت کی بجھتی ہوئی شناخت کوبچانے کی خاطر اِس حق کے چراغ نے اِک ایسی سرزمین کو الوداع کہنے کا فیصلہ کیا کہ جو اب پاکستان نہ تھی۔ اُس پاکستانی نے ہر شے ترک کرکے پاکستان کی جانب رُخ کرلیا کہ جو اُس کا اصل محبوب وطن تھا۔
لیکن نہ زمین جانتی تھی نہ آسمان باخبر تھا کہ ایک روز زندگی کے ایک ایسے موڑپہ آ کر اُس کو اپنی اِس عظیم اور عزیز محبت کا خراج دینا پڑے گا کہ جِس محبت اور عشق کو وہ اپنی دوسری نسل میں اُسی شدّت اور سچّائی کے ساتھ منتقل کر رہا تھا جو اُس کے وجود میں رچی ہوئی تھی۔ آج وہی اُس کا اپنا، بہت اپنا پاکستان اُس سے پاکستانی ہونے کے ثبوت مانگ رہا تھا کہ جِس نے اِس وطن کی مٹی میں اپنے چالیس سال دبا دیے۔ جِس میں اُس کی جڑیں پیوست ہیں، کہ جِس پاکستان میں اِس بوڑھے درخت کے برگ و بار پوری آب و تاب کے ساتھ ”پاکستان زندہ باد“ کے نغمے گاتے، جھومتے ہوئے نمو پا رہے ہیں۔
آج وہ پاکستان اُس سے سوال کرتا ہے کہ تمہارے پاکستانی ہونے کے کاغذی ثبوت کہاں ہیں؟
اور یہ سوال اُس سے کیا جارہا ہے کہ جو پاکستان بننے کے دس برس بعد ہی سے پاکستانی تھا۔
یہ سوال سے بڑھ کر ایک الزام ہے اُس کی محبت پر، اُس کے عشق پر اور اُس کی اُن لازوال قربانیوں پر کہ جِس پاک سرزمین کی خاطر اُس نے ہجرت کی۔ 40 برس تک اپنے خون کے رشتوں کو اپنی کمزور ہوتی بصارتوں سے محروم رکھا۔ نہ کبھی اِک بار اس بنگلہ دیش کی جانب جانے کا خیال بھی دل میں لایا کہ جہاں اُس کے چار بھائی اور اکلوتی بہن ایک بڑے خاندان کے روپ میں ڈھل چکے ہیں۔
آج اُسی پاکستان میں اُسے اجنبیت اور غیریت کی سرحد پر لا کھڑا کردیا گیا۔ اُس کی ساری زندگی کی جدوجہد کو یکلخت ایک سوالیہ نشان میں تبدیل کرڈالا۔ پاکستان کے عشق میں ڈوب کر جوان ہونے والی اُس کی اولادوں کو اُن کے مستقبل کے حوالے سے بے یقین کر ڈالا۔
فیض احمد فیض نے اُس خونچکاں درد کو پوری شدت کے ساتھ دُرست طور پر محسوس کیا تھا کہ جِس سے یہ انسان آج گزر رہا ہے، بس ضرورت ہے تو فقط مقام بدلنے کی کہ فیض نے یہ اَلمناک تجربہ ڈھاکہ میں کھڑے ہو کر محسوس کیا اور اُس نے یہ جاں گسل تجربہ اِسی پاک سرزمین، اپنے ازلی و محبوب وطن میں رہ کر حاصل کیا
کہ
؂
ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دَھبّے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تو گویا اِن تمام تجربات سے یہ ثابت ہوگیا کہ نصف صدی سے زائد عرصہ جِس شناخت کو سینے سے لگاتے گزرا آج وہ شناخت فقط شناختی کارڈ کی محتاج ہے۔ اِس کے سوا اُس کی کوئی معتبر پہچان نہیں، کوئی شناخت نہیں۔
وہ کاغذ کا ایک سَبز مُستطیل چمکتا ہوا ٹکڑا ہی حقیقت میں اُس کی نصف صدی کی جانفشاں محبت پر بھاری ہے۔
یہ احساس کو کچل دینے والی داستان صرف ایک فرد کی داستان نہیں۔ نہ ہی اِس درد کو ایک ہی انسان تک محدود کرنے کی ضرورت ہے۔
کراچی میں بسنے والی ڈھائی کروڑ کی آبادی میں مقیم لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کر کے آ کر بسنے والوں کی یہی کہانی و رُوداد ہے۔
پاکستان ممکنہ طور پر دنیا کاایسا واحد ملک ہوگا کہ جِس میں آ کر بسنے والوں کی تیسری اور چوتھی نسل جو کہ اِسی سَرزمین کے خمیر سے اُبھری ہے، سے اُن کی شناخت کے بارے میں سوال کیا جارہا ہے۔ اُنہیں غیر ملکی ہونے کی گالی دی جارہی ہے۔70 برس بعد بھی انہیں اجنبیت اور اہانت آمیز رویّوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسا آگ و خون کا دریا پار کرکے آنے والے اُن کے بزگوں نے کبھی نہ سوچا ہوگا۔
دنیا کے بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں تو محض 3 سے 4 سال کی اقامت کے بعد ہی وہاں کی شہریت عطا کردی جاتی ہے۔ تو یہ کون سا زمانے سے الگ اور تاریخ سے جدا ملک ہے کہ جو 70 برس بیت جانے کے بعد بھی اِسی وطن میں پیدا ہونے والے، رہنے بسنے، اپنی صلاحیتوں کو اِس ملک کی ترقی کے لیے کھپانے والوں کو غیر مُلکی قرار دے کر دھتکار رہا ہے؟
بفرضِ محال اگر ایسے افراد حکّامِ پاکستان کی نظر میں غیر ملکی و غیر پاکستانی ہیں تو پاکستان کی اعلیٰ سرکار یہ جواب دیں کہ آخر 30 لاکھ سے زائد یہ غیر مُلکی کون سے ملک کی جانب واپس جائیں؟
کیا اس بھارت کی جانب کہ جو انہیں خونی و شکّی نگاہوں سے دیکھتا ہے؟ اور یہاں سے محض غلطی سے سرحد پار کر جانے والوں تک کو غدّار و جاسوس قرار دے کر یا تو ہمیشہ کی نیند سُلا دیتا ہے یا پھر تاریک زندان خانوں میں رُوپوش کر ڈالتا ہے۔
یا پھر اُس بنگلہ دیش کی طرف جو آج چوالیس سال کی مدتِ دراز گزر جانے کے باوجود پاکستان سے محبت کے جُرم میں انسانوں کو تختۂ دار پر لٹکا رہا ہے؟
یا اُس برما (میانمار) کی سَمت کہ جہاں اسلام کے نام لیوا ٹکڑوں میں تبدیل کر دیے گئے؟
یہ اگر پاکستانی نہیں تو پھر اِن کا ملک آخر کونسا ہے؟
احساس اور دانش کی نگاہوں سے آئندہ آنے والے ایّام کی سنگینی کا اندازہ مقتدر حلقوں کو آج ہی لگا لینا چاہیے کہ اربابِ حلّ و عقد کا یہ طرزِ عمل اور برتا جانے والا یہ رویہ کہیں سنگین قسم کے انسانی المیے کو نہ جنم دے دے۔
پاکستان سے اُلفت اور عقیدت رکھنے والی پہلی نسل تو اپنی عمر تقریباً پوری ہی کر چکی،اَب اُن کی اُمّید بَھری روشن آنکھیں اپنی نسلوں کو اِسی پاک سَر زمین کی وفاداری و سَپاس گُزاری میں پھَلتا پھُولتا دیکھنا چاہتی ہیں۔اُن کی آنکھیں اُن کے دل کے ساتھ اِس وطن کے لئے پَل پَل دُعاگو ہیں۔ مگر کیا کیجئے کہ جوان دِل اور پُر شباب دماغ آتش جوالہ کی صورت ہوا کرتے ہیں۔ متحمل مزاج بزرگوں کی شفقت اور صبر آمیز نصیحتوں کے باوجود خودی و غیرت پر کیے جانےوالے وار کو بمشکل ہی سہا جا سکتا ہے۔ شناختی دستاویزات سے متعلق حکّام کے اہانت آمیز سلوک اور کٹھور پن سے لبریز زہریلے لہجے کہیں اُن کو اپنی حدّوں سے ہی نہ نکال لیں۔ بَھڑکتے جذبات اور مُسلسل دَر دَر کی خواری اِس پر مُستزاد ذلّت بھری لمبی قطار، اُس میں کیا جانے والا طویل انتظار، کَڑکتی تپتی دھوپ میں جھُلسا دینے والے جوابات۔
یہ سب ڈھائی کروڑ کی آبادی میں موجود 30 لاکھ سے زائد مہاجرین کے مُمکنہ اعداد و شمار کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں موجود نوجوانوں کے ساتھ برتا جانے والا سلوک ہے کہ جس کا وہ پوری حدّت و شدّت کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔ اور اُنہیں یہ باور کروایا جارہا ہے کہ اِس دُرشت اور کرخت رویے میں آئندہ آنے والے ایّام میں مذید تیزی لائی جائے گی۔
اِس نہج پر پہنچ کر ایک لَحظہ کے لیے دماغ نئے نئے وسوسوں اور طرح طرح کے خدشات کا شکار ہو جاتا ہے کہ جِن سے ملک و قوم کے نگہبانوں، اَن داتاؤں کو پوری قوت کے ساتھ جھنجھوڑنے کا احساس جاگتا ہے۔ اگر شناختی دستاویزات کے متعلقہ عملے کا اِن نوجوانوں کے ساتھ ایسا ہی مُشتعل کر دینے والا رویہ جاری رہا تو کہیں یہ بہترین اور اعلیٰ گھرانوں کے پروردہ نوجوان اشتعال و اضطراب اور شدتِ غضب و بے بسی کے عالم میں محرومی کے درد میں مبتلا ہو کر کسی غلط راہ کی جانب یا کسی غلط گروہ کی طرف گامزن نہ ہو جائیں۔
سلامتی اور منصوبہ ساز اداروں سے دست بستہ التماس ہے کہ جو لوگ محُبانِ وطن اور اِس ملک کی خیر و فلاح کے لیے دن رات اپنی عمریں لگا رہے ہیں ، اُن کو اور اُن کی نسلوں کو خدارا اِس انسانی المیے سے باہر نکالیں۔ اُنہیں اُن کی کاغذی شناخت بحیثیت پاکستانی کے بِنا کسی ذلّت و اہانت کے دے دی جائے تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ تعلیم و تربیت اور دیگر زندگی کے مدارج طے کرتے ہوئے اس سَبز ہلالی پرچم کی شان بڑھاتے رہیں۔ اِس پاک سَر زمین کے لیے اپنا تَن مَن دَھن وارنے کی داستانیں دُہراتے رہیں اور مکمل آسودگی کے ساتھ اِس شناخت کو جو کہ فقط اِسلام سے وابستگی کی شناخت ہے اور پاکستان سے تعلق کی پہچان ہے، کو لے کر اِسی مٹّی میں ہمیشہ کے لیے اوڑھ کر سوجائیں۔
بزبانِ حالی
؂
کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خُدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر