ہوم << کشمیری مسلمان ہونا ہی جرم ٹھہرا : عاصم رسول

کشمیری مسلمان ہونا ہی جرم ٹھہرا : عاصم رسول

سرینگر،مقبوضہ کشمیروطن ِعزیز پچھلے ستر سال سے بالعموم اور گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے بالخصوص ،جاری عوامی احتجاجی لہر کے دوران خونِ مظلوم کی ارزانی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ حالات کی کشیدگی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ کہ ان خون آشام شب و روز میں تادم تحریر 90 سے زیادہ افراد کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا اور ہزاروں لوگ مضروب ہوئے ہیں ،پانچ سو سے زائد لوگ ہیں،جن کی آنکھیں پیلٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئیں ۔یہاں تک کہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے افراد بھی ہیں جو آنکھوں کی بینائی سے مکمل طور
پر محروم ہوچکے ہیں اور معالجینِ چشم کا کہنا ہے کہ اب وہ پوری زندگی دیکھ نہیں سکیں گے اور وہ زندگی بھر کے لیے اندھے پن کے عذاب میں مبتلا کردیے گئے ہیں۔کاروبارِ زندگی مکمل طور پر ٹھپ ہے جس کی وجہ سے یہاں کے تجارت پیشہ لوگ ناقابل تلافی نقصانات سے دو چارچکے ہیں ۔نہتے کشمیریوں پر یہ سارے مظالم اس لیے ڈھائے جارہے ہیں کہ وہ اپنا پیدائشی اور بنیادی حق ،حق خودارادیت کی مانگ کررہے ہیں لیکن ہندوستان کسی طور بھی یہ حق تسلیم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہورہا ہے ۔عالمی سطح پر بھارت سب سے بڑا جمہوری ملک ہونے کا دعوی کررہا ہے لیکن کشمیر میںجب عوام بالکل جمہوری اور پُر امن طور اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں تو جمہوری ضابطوں کی ایسی عصمت ریزی کی جاتی ہے کہ چنگیزیت کے بھی تمام ریکارڈ مات کیے جاتے ہیں۔رواں احتجاجی لہر کی ایک کریہہ صورت جو سامنے آرہی ہے وہ یہ کہ وردی پوش اہلکار کی بے تحاشہ شدت پسندانہ کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف وہ افراد موت کے گھاٹ اتاردیے گئے جو کسی احتجاجی ریلی میں شریک تھے یا ’’سنگ بازی‘‘میں ملوث تھے بل کہ ہلاک شدگان میں ان افراد کی بھی خاصی تعداد ہے جن کا ’’cold blooded murder‘‘کیا گیا۔لہٰذا ریاست کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی اس بات میں رتی برابر بھی سچائی نہیں ہے جو موصوفہ نے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہی کہ مارے گئے افرادــ’’ مٹھائی‘‘ یا’’ دودھ‘‘خریدنے کے لیے گھر سے باہر نہیں نکلے تھے۔ ان کی یاددہانی اور تاریخی حقائق کی درستی کی خاطر میں یہاں تین مثالیں پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن سے یہ بات مترشح ہوتی ہے بے قصورکشمیریوں کا خون کس بے دردی سے بہایا جارہا ہے اور انسانی حقوق کی کس طرح مٹی پلید کی جارہی ہے۔۸جولائی ۲۰۱۶ کو حزب المجاہدین کے خوب رو کمانڈر برہان مظفر وانی کے جان
بحق ہونے کے محض تین دن بعد یعنی ۱۱جولائی کو ٹینگہ پورہ میں ایک ۲۶ بر س کے شبیر احمد میر نامی نوجوان کو گولی مار کر ابدی نیند سلادیا گیا۔شبیر کے والد عبدالرحمان میر ،جس کی آغوش میں اس کے جگر پارے نے آخری ہچکی لی ،کے مطابق’’اس دن وہ روزمرہ کی صورت حال سے باخبر ہونے کے لیے ٹی وی پر خبریں دیکھ رہے تھے اور اس دوران علاقے میں ہر سو شور مچ گیا۔پولیس اہلکار ایک ڈپٹی سپرانٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی)کی قیادت میں ہمارے مکان میں داخل ہوئے اور مکان کے اندر ہی ٹیر گیس شل داغ دیا۔اس موقع پر اگر چہ ہم نے پولیس اہلکاروں کو صبر و تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا ،تاہم انہوں نے شبیر احمد اور اس کی والدہ کے علاوہ میرا بھی زد کوب کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا‘‘۔ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتے ہوئے عبد الرحمان مزید کہتے ہیں’’مذکورہ آفیسر کی قیادت میںپولیس اس دوران شبیر احمد کو نچلی منزل میں لے کر آئے اور وہی پر گولی داغ دی جب کہ شبیر نے کھڑکی سے چھلانگ لگا کر صحن میں پہنچنے کی کوشش کی لیکن وہا ں اس پر اس کو ایک اور گولی ماردی گئی اور اسے ہمیشہ کے لیے ساکت کردیا گیا‘‘۔معصوموں کی ہلاکت کا تمسخر اورمذاق اُڑانے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ شبیر اپنے گھر کے کمرے میں کون سا احتجاج کررہا تھا ؟یا فورسز اہلکاروں پر کہاں سے پتھر پھینکے جس کی پاداش میں بوڑھے والدین سے ان کا چشم چراغ ان کی آنکھوں کے سامنے نہایت سفاکی سے چھین لیا گیا۔۔۔؟؟
دوسری مثال چھتہ بل سری نگر کے گزر بل محلہ میں رہنے والے ریاض احمدشاہ کی ہے جس کی موت کی داستان سن کر اگر آسمان خون کی بارش کرے وہ بھی کم ہے۔ اے ٹی ایم گارڑ کے طور کام کرنے والے نوجوان ریاض احمد شاہ ،جسے سی آرپی ایف اہلکاروں نے پیلت مارکر جاں بہ حق کردیا۔ ڈاکٹروں نے پوسٹ مارٹم کے دوران اس بات کا انکشاف کیا کہ ریاض احمد پر نزدیک سے پیلٹ داغا گیا جس کی وجہ سے ۶۰۰ کے قریب پیلٹ ان کے جسم میں پیوست ہوگئے۔غریب کنبہ کی کفالت کرنے اور گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والا ریاض احمد دن میں سری نگر جامع مسجد کے نزدیک ایک دکان پر بطور سیلز مین اور رات کو اے ٹی ایم گارڑ کا کام کرتا تھا ،اور اس وقت بھی اسی فکر میں مگن کسی احتجاجی مظاہرے میں شامل نہ سنگ اندازی کا کرتب دکھانے میں مشغول تھا ۔اسے بھی صرف اس جرم بے گناہی میں ابدی نیند سلا دیا گیا کہ وہ وادی بے آئین کا مظلوم فرد تھا۔
تیسری مثال مضافاتی علاقہ شار کھریو سے تعلق رکھنے والے نوجوان لیکچرر شبیر احمد منگو کی ہے جنہیں حراست میں لے کر انتہائی جسمانی ٹارچر کانشانہ بنا کر زیر چوب موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا۔کشمیر شاید دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں استاد کو ،جو بچوں کوتعلیم کے نور سے منور کرنے کا عظیم کام انجام دیتے ہیں،اس طرح وحشیانہ انداز میں مار ڈالا جاتا ہے ۔موجودہ مخلوط حکومت میں وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز جناب نعیم اختر صاحب بچوں کی پڑھائی متاثر ہونے پر بظاہر بڑی تشویش کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان سے بجا طورپوچھا جاسکتا ہے کہ جب اسکولوں ،کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھانے والوں کا یہ حشر کیا جارہا ہو جس کی مہذب دنیا میں نظیر ملنا مشکل ہو تو تعلیم اور پڑھائی پر فکرمندی جتانا ۔۔چہ معنی دارد۔۔؟؟ یہ صرف مگر مچھ کے آنسو ہیں۔ کھریو شار کے شبیر کے والد ولی محمد منگو ،جو محلہ میں امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، نے واقعہ کی نسبت کہا ’’شبیر ایس پی کالج سری نگر میں ایڈہاک لیکچرر تھا تاہم دو ماہ قبل اس کی نوکری مستقل ہوئی تھی۔دوسال قبل لیتہ پورہ میں شبیر کی والدہ فوجی گاڑی کی زد میں آنے کی وجہ سے لقمہ اجل بنی تھی جس کے بعد شبیر کی شادی کی گئی تھی اور اس کے ہاں ایک
بیٹی نے جنم لیا تھا۔ رات ساڑھے دس بجے فوجی اہلکار لوہے کی سلاخون اور کلہاڑیوں سمیت ہمارے گھر پہنچ گئے اور گھر کے باہر کھڑی سومو گاڑی ،جسے شبیر کا چھوٹا بھائی چلا رہا ہے، کی توڑ پھوڑ کرنے لگے۔ اس دوران شبیر اور اس کا چھوٹا بھائی گھر سے باہر نکلے اور
فوج کو ایسا کرنے سے روکنے کی کوشش کی، تاہم ان کا موقع پر ہی زد و کوب کیا گیا جب کہ شبیر کو جسمانی اذیت کا نشانہ بنا کر کیمپ پر لے جایا گیا۔رات بھر گائوں میں آہ و بکاہ کا عالم تھا اور پورا گائوں نیند سے بیدار تھا۔ صبح کے وقت ایک ایمبولینس گاڑی آئی جس میں ایک لاش تھی اور وہ محلہ میں رک گئی اور لاش کی شناخت کرنے لے لیے کہا، جوں ہی لوگوں نے لاش دیکھی تو وہ شبیر کی لاش تھی۔اس طرح بھارت کے ’’ویر سینائوں ‘‘ نے اپنی ’’ویرتا‘‘ کے جوہر ایک استاد کی زندگی چھین کر دکھائے ۔متذکرہ بالا تین مثالیں مشتے نمونے از خروارے کے طور یہاں پیش کی گئیں ،ورنہ اگر دیکھا جائے تو رواں عوامی تحریک میں کام آئے ایسے ہلاک شدہ گان ہیں جن کے جسم کا رشتہ روح سے فورسز اور پولیس نے جان بوجھ کر جدا کردیا ، حالاں کہ وہ سنگ اندازی تو درکنار کسی پرامن پروٹیسٹ، جو کہ جمہوری نظام میں عوام کا نا قابل تنسیخ حق گردانا جاتا ہے ،میں بھی شامل نہیں تھے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حقوق کی اس بدترین پامالی کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی سعی کی جائے اور عالمی تحفظ انسانی حقوق کی تنظیموں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کشمیر میں ہورہی بشری حقوق کی خلاف ورزیوں کا سخت نوٹس لے کر بھارت پر دبائو ڈالیںکہ وہ ظلم و استبداد کا یہ سلسلہ فوراً سے بیشتر بند کرے۔بد قسمتی سے یہاں وردی پوش اہلکاروں کو انسانی حقوق کی پامالی کی کھلی چھوٹ دے دیگئی ہے اور وہ کسی جواب دہی کے عمل سے بری کردیے گئے ہیں ،افسپا (AFSPA)جیسے کالے قانون کے ہوتے ہوئے ،جسے ایمنسٹی انٹرنیشل نے بجا طور ’’lawless lawــ‘‘قرار دیا ،کسی فوجی کو سزا نہیں ملے گی اور کشمیر کی تاریخ اس بات پر شاہد عادل ہے کہ جب بھی یہاں فوجی کسی جرم اور قتل میں مبینہ طور ملوث پائے گئے تو اربابِ اقتدار نے عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے ’’پروب‘‘اور ’’تحقیقات‘‘کا حکم دیا لیکن مرور زمانہ ان فائلوں کو دفتروں میں دیمک چاٹ گئے اور متاثرین کو عدالتی کارروائیوں میں ایسا الجھایا گیا کہ گھنائونے جرائم انجام دینے والے فوجیوں کو کیفر کردار تک پہنچانا تو دور کی بات ہے الٹا پس ماندگان کو ہی مختلف حربے استعمال کرکے تنگ طلب کیا گیا اور مجرم کشمیر کی سڑکوں پر بالکل آزاد ہوکر دند ناتے بھرتے ہیں۔ اسی جان لیو اصورت حال میں کل تک جو محبوبہ مفتی زخموں پر مرہم کاری ، باعزت امن کی بحالی، افسپا کی واپسی اور فوجیوں کی جوابدہی کا مطالبہ کر رہی تھیں، وہ آج علی ا لاعلان ماوارئے عدالت ہلاکتوں، توڑپھوڑ کی کارروائیوں اور بشری حقو ق کی خلکاف ورزیوں کو جواز بخش کت کشمیری مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہی ہیں