ہوم << عافیت - عشوا رانا

عافیت - عشوا رانا

چیخوں پہ چیخ نے درودیوار ہلا دیے تھے..یہ کوئی نئی بات نہیں تھی .. یہاں روز ایسے ہی ستم ڈھائے جاتے تھے..چیخیں چیختی،کان انہیں سنتے پھٹنے والے ہو جاتے اور آنکھ آنسوؤں سے بھری جاتیں.. تکلیف کی.شدت کم ہونے میں نہ آتی اور پھر کچھ دیر خاموشی چھا جاتی.گہرا دردناک سکوت..اور پھر کچھ دیر بعد وہی چیخیں.. اس میں کوئی نہیں بات نہیں تھی. یہ ایک جیل تھی.یہاں روز ایسا ہی ہونا تھا.. پر نئی بات یہ تھی کہ اتنی ساری مردانہ چیخوں میں ایک دلخراش نسوانی آواز شامل ہوتی. درد سے بھی دردناک.پتہ نہیں کیا کیا ظلم کیا جاتا.کون سا قہر توڑا جاتا.صبح تھی کہ آنے کا نام نہ لیتی.. شام تھی کہ روز تاریک سے تاریک ہو جاتی.
.....................................
ماں میں وہاں پہنچ کر آپ کو کال کر دوں گی. آپ فکر نہ کریے گا. عافی نے وقت رخصت ماں کو تسلی دی.وہ ہمیشہ ہی پریشان ہو جاتی. ماں تھی نا.. ماں کی فکر کا اندازہ اسے تب ہوا جب وہ خود ماں بنی. ایک پیاری سی گڑیا اور بیٹے سے خدا نے اسے نوازا تھا. زندگی خوشگوار اور مکمل تھی. وہ امریکہ میں رہائش پذیر تھی اور اس کا شمار ذہین افراد میں ہوتا تھا. اس نے امریکہ کی مشہور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی. زندگی یوں ہی رواں دواں تھی. غم کا سایہ تک نہ تھا.
.......................................
وہ ایئرپورٹ کی طرف نکل چکی ہے. پکڑ لو اسے. گورے رنگ میں چھپی کالی زبان سے یہ لفظ ادا ہوئے اور تمام گوروں نے اس آواز پہ سر نڈر کر دیا. ان کا رنگ جتنا صاف تھا ان کا دل اتنا ہی سیاہ. مسلمان ان کے لیے سانپ کے مشابہ تھا کہ جیسے ذرا سا قریب کیا تو اب ڈسا تو اب..گوروں کی ٹیم وردی میں ملبوس اصل میں ایک بڑے آدمی کی پشت پناہی حاصل کرتے اس کمزور جان پہ حملہ آور ہوئی. ماں سے بچے چھین لیے گئے اور عافی سے عافیت ہمیشہ کے لیے ختم کر دی گئی. عافی غائب ہو گئی .. رات کے اندھیروں میں دن کی روشن صبحوں کو کالی پٹی باندھ کر اسے دور لے جایا گیا .. اتنا دور کہ آج تک واپسی کا راستہ مٹ گیا.
......................................
پتہ نہیں میری بچی پہنچی یا نہیں فون بھی تو نہیں آیا. مسز عصمت گھبراہٹ کے عالم میں بولے ہی جا رہی تھی.. پورا دن گزر گیا کوئی پتہ نہ چلا. اس سے اگلا دن پھر اس سے آگے کے مسلسل دنوں میں کوئی خبر نہیں. فوزیہ جو کہ عافی کی بہن تھیں، ماں کو تسلی. دیتی اور خود اندیشوں میں گھری رہ جاتی. مسلسل اذیتوں کے کئی دنوں بعد ایک شور بلند ہوا. قیدی نمبر جس پہ ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کی گئی وہ دراصل عافیہ ہی تھی. اپنی امی کی لاڈلی عافی جس کی اک چیخ چاہے وہ کھیل میں ہی کیوں نہ ہو ماں تڑپ اٹھتی تھی.آج اسے گلے سے نہیں لگا سکتی تھیں. مسز عصمت بیمار ہوئی اور ایسی بیمار ہوئی کہ اپنی بیٹی کا انتظار ہی انہیں اب تک زندہ رکھے ہوئے ہے.
.........................................
عافیہ کے بھائی جو کہ امریکہ سیٹل ہیں اور ڈاکٹر فوزیہ جو کہ ان کی سسٹر ہیں انہوں نے کوششیں شروع کر دی. پر یہ امریکہ اور اس کے چیلے کہاں سنتے. سنتے تو انسان ہیں.. کوشش کوشش رہی اور تسلیوں تک ختم ہو جاتی. ہر بار اک نئی اس اور پھر اس پہ پانی پھر جاتا.جب حکمرانواں سے کچھ نہ ہوا تو اک تحریک وجود میں لائی گئی.. ڈاکٹر فوزیہ کی کوششوں سے عافیہ موومنٹ کا آغاز کیا گیا.. پر یہ ظلم سہتی عافیہ کو رہا نہ کرواسکا.پر کون کہتا ہے محنت رنگ نہیں لاتی.
...................................
کمرہ عدالت لوگوں سے بھرا پڑا تھا.بے شمار صحافی پل پل کی خبر لینے کوتیار بیٹھے تھے.کیمرہ اک اک حرکت کو محفوظ کر رہا تھا.. ایسے میں کرسیوں کو چھوڑ کر کہٹرے میں اک کمزور وجود کو لایا گیا. جن کےچہرے پہ پہلے والی شادابی کی اک رمق بھی باقی نہ تھی. ڈاکٹرز کے کہنے کے مطابق انہیں کینسر ہو چکا تھا. وکیل بولے جارہا تھا.. جج صاحب اس عورت نے دو لوگوں کو قتل کیا ہے اور یہ دہشت گردوں سے اس کا تعلق اور بھرپور حمایت حاصل ہے.. ان کے پاس سارے ثبوت اور گواہ تھے.یہاں سب پہلے سے تیار تھا. کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیا گیا.. اور عدالت نے سزا سنا دی .. چھیاسی سال کی سزا. اسے سن کر تو عافیہ کی رہی سہی امید سب ختم ہو گئی ہو گی.. کوئی اپنا نہیں تھا وہاں ان کا اور کسی اپنے نے کو آنے نہیں دیا جاتا.کسی اپنے بڑے نے جانے کی زحمت بھی نہیں کی.سزا سنا دی گئی، سزا سن لی گئی. اور پتہ نہیں کب کب کیسےکیسے سہہ لی جاتی تھی.
........................................
ہمیں عافیہ واپس چاہی .جیسے ہم نے تمہارا ریمنڈ ڈیوس واپس کیا تمہیں.. انہیں ہمارے ملک بھیجو، ہم اس کی سزا کا فیصلہ کریں گے جیسے تم نے ہمارے وزیرستان کا فیصلہ کیا ہے.. تم نے ہمارے جتنے بےگناہ لوگ دہشت گردی کے نام پر مارے ہیں ہمیں سارا حساب چاہیے. صرف تم سے نہیں ان سب سے جو شامل رہے. حساب دو نہیں تو حساب لیا جائے گا... ایک آزاد ملک کے کسی شہر میں روز یہ صدائیں گونجتی ہیں اور گونجتی رہ جاتی ہیں. میلوں دور بیٹھی عافیہ اس سب سے انجان اب بھی شاید انتظار میں ہے یا بس زندہ لاش کی مانند کہ کوئی اپنا نظر آئے تو زندگی آئے. انتظار ،انتظار اور بس عافیہ کی عافیت کا انتظار..

ٹیگز