ہوم << گاؤں کے سادہ لوگ اورہماری تہذیب : محمدتنویر اعوان

گاؤں کے سادہ لوگ اورہماری تہذیب : محمدتنویر اعوان

10991360_1596065560628491_1433252386120356118_n-2-1
ایک زمانے کا زکر ہے کہ میرے گاؤں کے لوگ بہت سیدھے سادے ہوا کرتے تھے۔پہلے
میں اپنے گاؤں کا تفصیلی جغرافیہ بیان کرتا چلوں ۔ویسے شناختی کارڈ کے بقول
ہمارا ضلع وتحصیل ایبٹ آباد ہے ۔لیکن حال ہی میں گاؤں جاناہوا تو معلوم ہوا کہ
نئی حلقہ بندیوں کے نتیجے میں آدھا گاؤں ہری پور میں جبکہ آدھا ایبٹ آباد میں
ہے۔لہذاہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ہمارا گاؤں باغ درہ شریف ایبٹ آباداور
ہری پور ہزارہ کے وسط میں واقع ہے۔اس حلقہ بندی پر مجھے دھاندلی کا شبہ ہے
لیکن مجھے کیا فرق پڑتا ہے ۔میری پیدائش چونکہ کراچی کی ہے اس لئے چھٹیوں میں
ہی گاؤں جانا ہوتا ہے لیکن پچھلے الیکشن کے موقع پر الیکشن کمیشن نے میراووٹ
بھی گاؤں ٹرانسفر کرادیا کہ ہوسکتا ہے میراچھٹیاں گزارنے کا موڈ بن جائے اس
لئے پہلے ہی ووٹ کی سہولت گاؤں بھجوادی جس پر میں الیکشن کمیشن کا انتہائی
مشکور بھی تھا کہ انہیں ہم کراچی کی عوام کا کس قدر خیال ہے۔
ہاں تو میں بتا رہا تھا کہ ہمارے گاؤں کے لوگ بہت سادہ ہواکرتے تھے اور آج بھی
الحمداللہ شہر والوں سے لاکھ درجے بہتر ہیں۔میرا جب بھی گاؤں جانا ہواتو مجھے
نہیں یاد پڑتا کہ شروع کے ایک ماہ میں نے مرغی کے علاوہ کچھ کھایا ہو۔جی ہاں
پورا گاؤں ہی دعوت پر دعوت دیتا چلاجاتا تھا اب دیسی مرغی کی پرخلوص دعوت
اوروہ بھی مفت کی کوئی کم ظرف ہی ہوگا جو اس خلوص کی قدر نہ کرے گا۔خیر میں نے
ان لوگوں کو ہمیشہ سچا اور کھرا پایا ۔لڑتے بھی دیکھا اور پھر صلح کرکے گلے
ملتے بھی دیکھا۔ایسے لوگ شاید شہر کی دنیا میں کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملیں ۔
اکثرایسا ہوتا تھا کہ جن کے گھر میں بھینس یا بکری نہیں ہوتی تھی اسے گاؤں کے
کسی بھی گھر سے مفت دودھ مل جایا کرتا تھا۔لوگ تخفتاً دیسی گھی بھی ایک دوسرے
کو دیا کرتے تھے۔خاص کر میں جب بھی جاتا تھا چار سے پانچ کلو خالص دیسی گھی
مفتے میں مل جایاکرتا تھا اور خاص کر رمضان المبارک میں یہ معمول ہی رہا کہ
کوئی نہ کوئی گھی ضرور بھیجا کرتا تھا۔دکھ سکھ بھی سب کے سانجھے ہوا کرتے
تھے۔کسی کی میت ہوجاتی تو رونادھونا دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے صاحب
میت کا پورے گاؤں سے ایک جیسا ہی تعلق تھا۔اور خاص کر شادی بیاہ کے موقع پر جو
نئی نئی تفریحیاں کی جاتیں وہ اپنی جگہ بے مثال تھیں ۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارا گاؤں ترقی یافتہ نہیں تھا یعنی کہ آج سے 4 سال
قبل کا زکرہے۔پھر ہمارے گاؤں میں بجلی کی سہولت میسر آئی۔کہا جاتا ہے کہ اس سے
قبل بجلی کے کھمبے یعنی کہ پول کسی دور میں آئے تھے لیکن گاؤں والوں نے اپنی
دوراندیشی کے سبب صاف منع کردیا تھا کہ اس بجلی سے کوئی فائدہ نہیں ہونا بلکہ
ادھراُدھر تاروں کے جال سے ہمارے جانوروں اوربچونگڑوں کو کرنٹ بھی لگ سکتا
ہے۔بہر حال المیہ یہ ہے کہ ہم تربیلہ شریف سے صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع
ہیں لیکن اس سہولت کی فراہمی میں 65سال لگ گئے۔اس پر بھی ہم قبلہ مرتضٰی جاوید
عباسی صاحب کے شکر گزار ہی رہے کہ انہوں نے یہ کارنامہ عظیم سرانجام دیا اور
ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ عباسی صاحب اس وقت مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنماء
اورقومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی ہیں اوراس سہولت کی فراہمی کے ذمہ داربھی۔
میں نے پڑھا ہے کہ جدت تہذیب و تمدن میں بہتری کا سبب ہے۔جدیدیت انسانی زندگی
کو سہل بناتی ہے۔جدت پسند انسان بگاڑسے ذیادہ بناؤپر یقین رکھتا ہے۔لیکن ہمارے
ہاں الٹ ہوا۔ اب ہوا یہ کہ جیسے ہی گاؤں والوں کو بجلی کی سہولت ملی ہر دوسرے
گھر میں ٹی وی آگئی بلکہ کچھ لوگوں نے تو بجلی آنے سے پہلے ہی ٹی وی لیکررکھ
چھوڑا تھا کہ مبادہ مارکیٹ سے شارٹ ہی نہ ہوجائے۔کچھ صاحب ثروت لوگوں نے ڈش
انٹینا بھی لیکر رکھ لیا تھا ۔حالانکہ ماشاء اللہ سے پورا گاؤں ہی صاحب ثروت
ہے کیونکہ آدھی سے ذیادہ آبادی عرب ممالک میں برسرروزگارہے۔اب ان کی دیکھا
دیکھی سب نے ڈش انٹینا لیا اور یہ جاوہ جا۔ہر طرف ڈش ہی ڈش نظر آنے لگی۔بیچارے
سادہ لوح گاؤں والے ڈش کی تباہ کاریوں سے واقف نہ تھے۔
اب ہوا یہ کہ ڈش چلی تو بھارتی ڈرامے میں بھی میدان میں آگئے ۔خواتین کو پہلے
گھر کے کاموں سے فرصت نہ ملتی تھی اب بھارتی ڈراموں سے فرصت نہ ملتی۔ان ڈراموں
نے سازشی کردارسامنے لائے۔سازشوں کے طریقے بتلائے۔بہوؤں کونخرے کرناسکھائے۔ساس
کو حکمرانی کا گر سکھایا۔مہمانوں سے نمنٹنے کا طریقہ بتایا۔نتیجہ یہ نکلا کہ
گھر گھر میں توں توں میں میں ہونے لگی۔گاؤں والوں نے دیکھا کہ یار ہم کس جہاں
میں رہ رہے تھے ۔اصل زندگی تو یہ والی ہے۔اب دودھ مفت میں نہیں پیسوں کا بیچا
جانے لگاہے۔بلکہ سننے میں آیا ہے کہ دودھ میں پانی بھی ملایا جاتاہے۔اب صرف
لسی مفت میں دی جاتی ہے ۔وہ بھی نری پانی والی۔دیسی گھی کا نام بھی نہ لینا
۔پورے پچیس سوروپے کلو ہے۔
اچھا ہم کراچی والوں سے گاؤں والے ابھی بھی محبت سے ہی ملتے ہیں۔کیوں کہ بھلا
ہو ان ڈراموں کا ان کی وجہ سے گاؤں والے سمجھتے ہیں کہ ہم کسی جنت میں رہتے
ہیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ عرب امارات میں رہنے والوں کی وہ خاطرمدارت نہیں ہوتی
جو کہ ہماری ہوتی ہے۔یہ سب بھی میڈیا کی ہی مہربانی ہے۔لیکن لمحہ فکریہ ہے کہ
ہمار ے مفادات سہولتوں کو صعوبتوں میں تبدیل کررہے ہیں۔ہم زہن سازی تو کررہے
ہیں لیکن یہ مثبت سے ذیادہ منفی ہے۔ہم کردارسازی نہیں کررہے ۔میڈیا کے لئے
ریٹنگ اہم ہے۔جبکہ دوسری جانب بھارتی ثقافتی یلغار نے ہماری تہذیب وتمدن کی
بنیادیں ہلا کررکھ دیں ہیں۔ہمارے بچوں کو ایوبی کے متعلق نہیں پتا لیکن چھوٹا
بھیم کو سب جانتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ توازن کو برقراررکھا جائے ۔اپنی
اقدار کا تحفظ کیا جائے اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب مفاد کے بجائے قوم کو
اہمیت دیں گے ۔

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment