ہوم << ”جہادی“ لوگ اور قومی دھارا - امتیاز خان

”جہادی“ لوگ اور قومی دھارا - امتیاز خان

کیا ”جہادی“ فکر کے لوگ قومی دھارے سے کٹے ہوئے ہیں کہ انہیں جوڑنے کی تجاویز دی جارہی ہیں؟
کیا جہادی فکر جرم اور گناہ ہے کہ اس کے حاملین میں ”تائبین“ تلاش کیے جا رہے ہیں؟
آج کے روزنامہ جنگ میں جناب انور غازی کا کالم انھی دو باتوں کے گرد گھومتا نظر آیا، اس لیے یہ سوالات فطری طور پر ابھر رہے ہیں۔
پہلے تو یہ بات طے کرنے کی ہے کہ ہمارے ہاں آج کل جن لوگوں کو ”جہادی“ کہا جارہا ہے اور فورتھ شیڈول سے لے کر شناختی کارڈ کی منسوخی تک کے قوانین کے شکنجے میں کسا جا رہا ہے، ان سے مراد کون لوگ ہیں؟
عام طور پر جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ لوگ ہرگز نہیں ہوتے جنہوں نے ریاست کے خلاف خروج کیا، رٹ کو چیلنج کیا، اندرون ملک کارروائیوں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہوئے ،عدالتوں سے سزا پائی یا مفرور ہوئے بلکہ ”جہادی“ اور جہادی تنظیموں کا اطلاق ان جماعتوں پر کیا جاتا ہے جو ریاست کی عملداری میں ہیں۔ یا جن پر الزام ہے کہ وہ ریاستی اداروں کے منظور نظر ہیں. شہباز شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی کے حوالے سے ڈان نے اسی تناظر میں خبر لگائی تھی، اصلا یہ ان ”جہادیوں“ کے بجائے افواج پاکستان کو چارج شیٹ کرنے کی کوشش کی تھی. یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن وسنت میں بیان کردہ روایتی نظریہ جہاد کے حامل ہیں۔اسی نظریے کے داعی ہیں۔ اسی نظریے کے تحت کشمیر میں جہاد کر رہے ہیں اور پاکستان کے حامی و معاون ہیں۔
کیا ایسے لوگ کسی جرم اور گناہ میں ملوث ہیں جس پر ان سے ”توبہ“ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے؟
کیا انہوں نے کوئی ملک دشمن یا ریاست مخالف سرگرمی انجام دی ہے جس کی بنا پر وہ قومی دھارے سے کٹ گئے، جس میں انہیں واپس لانا تجاویز کا محتاج ہے؟
”جہاد“ اللہ و رسول کا حکم ہے۔ اگر ان کا نظریہ جہاد غلط ہے تو یہ بات علمی طور پر ثابت کی جائے۔
کشمیر کا جہاد ہماری قومی پالیسی کا حصہ رہا ہے، اس پر عمل سے کوئی قومی دھارے سے کیونکر کٹ گیا؟ یہ واضح کرنا چاہیے.
یہ جہادی تنظیمیں پاکستان کی نہ صرف حامی ہیں بلکہ کسی حد تک محافظ بھی۔ انہوں نے خود کبھی پاکستان مخالف سرگرمی میں حصہ لیا نہ ایسی کسی طاقت کو سپورٹ کیا۔ جہاں تک افغان طالبان کی بات ہے تو ان کے اہم ترین وزراء یہاں جیلوں میں جان کی بازی ہار گئے مگر انہوں نے پاکستان کے تئیں اپنا دوستانہ رویہ تبدیل نہیں کیا۔ اس وقت جبکہ افغان حکومت پاکستان مخالف کیمپ میں ہے اور پاکستان کے‌ خلاف خطے میں سازشیں کی جا رہی ہیں، وہ ایسی کسی سازش کا حصہ بننے سے انکاری ہیں.
پھر جہاں تک قومی دھارے کا تعلق ہے تو سوال یہ ہے کہ آیا اس کا تعین قومی پالیسی سے ہوتا ہے یا کسی حکمران کی وقتی غلامانہ سوچ کے تابع؟ جسے آج قومی دھارا کہا جا رہا ہے، یہ قومی نہیں ”پرویزی“ دھارا ہے۔ ریاست کے قانون میں رہ کر ”جہاد“ کی دعوت دینے اور متنوع دینی و رفاہی خدمات سرانجام دینے والی یہ جماعتیں اگر تو واقعی آئینی اور قانونی طور پر مجرم ہیں تو عدالتی نظام انہیں پچھلے سولہ سال میں کوئی سزا دینے سے کیوں قاصر رہا ہے؟ پرویز مشرف نے ان جماعتوں کو کالعدم قرار دیا، ان پر سختیاں کیں اور عرصئہ حیات تنگ کیا مگر نہ تو یہ تنظیمیں ردعمل میں آئین و قانون کے دائرے سے باہر ہوئیں اور نہ عوام کا ان پر اعتماد متزلزل ہوا بلکہ کئی تنظیموں کا دائرہ کار ان پابندیوں کے بعد عوامی تعاون سے مزید پھیلا اور ان کی خدمات کا میدان وسیع ہوا۔ ایسے میں انہیں عالمی میڈیا کے متعارف کرائے حقارت آمیز نام سے پکارنا اور قومی دھارے سے کٹا ہوا باور کرانا کسی ایجنڈے کی تکمیل ہے یا اپنی شرمندگی مٹانے کی ناکام کوشش؟
دراصل انور غازی صاحب ایک ایسے ادارے سے وابستہ ہیں اور ایسے اخبار کے اہم عہدیدار ہیں جو پاکستان میں امارت اسلامیہ افغانستان اور دیگر عالمی جہادی قوتوں کا ترجمان اعلی سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کا اول و آخر تعارف افغانستان کی طالبان حکومت اور جہاد تھے اور وہ ان تمام قوتوں کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس تعارف کے علاوہ ان کی کوئی شناخت نہ تھی۔ پرویز مشرف کے پالیسی بدلتے ہی جن چند لوگوں کا خیال یہ تھا کہ جہادی فکر سے وابستہ کسی شخص اور ادارے کا اب زندہ بچنا محال ہے خواہ وہ ریاست مخالف ہو یا ریاست کے آئین کا پابند، ان میں یہ ادارہ سرفہرست تھا اور یہ لوگ پرویز مشرف کے ساتھ پورا نوے ڈگری یوٹرن لے گئے۔ آج دینی حلقے میں سب سے زیادہ جہاد اور مجاہدین سے بیزار طبقہ انھی کے متعلقین کا ہے اورغازی صاحب اس طبقے کے نفس ناطقہ ہیں۔ بعد میں حالات نے ثابت کیا کہ ان کی سوچ غلط تھی لیکن انہوں نے اپنے لیے واپسی کے بجائے دوسرا راستہ اختیار کر لیا اور اب تک وہی بولی بول رہے ہیں۔
قرآن وسنت کی روشنی میں آئین کے تحت نظریہ جہاد کی دعوت اور فروغ کوئی جرم نہیں جس پر توبہ کا مطالبہ کیا جائے۔ پرویز مشرف کا جبر بھی ان جماعتوں سے توبہ نہیں کروا سکا تھا۔ آئین پاکستان کے تحت قانونی کام کرنے والے قومی دھار سے باہر تصور نہیں کیے جاسکتے کہ انہیں اندر لانے کی فکر میں خواہ مخواہ ہلکان ہوا جائے۔
ہاں ایک کام ضرور کر لیجیے!
کشمیر ہمارا قومی مسئلہ ہے۔ اہل کشمیر سو دن کی طویل ترین پرعزیمت تحریک چلا کر اس کے حل کے لیے ہمارے کسی جراتمندانہ اقدام کے منتظر ہیں۔ جو لوگ کشمیر پالیسی پر پہلے کی طرح مضبوطی سے گامزن ہیں، اہل کشمیر کی امیدیں آج بھی ان سے وابستہ ہیں، وہ آج بھی گولیوں اور پیلٹ گنوں کے سامنے پاکستانی پرچم کے ساتھ ان تنظیموں کے پرچم اور حافظ سعید و مولانا مسعود اظہر کی تصاویر لے کر نکلتے ہیں۔ ہاں نام نہیں ہے تو ہمارے حکمرانوں کا نہیں ہے کیونکہ کشمیریوں کے خیال میں وہ ان کے بارے میں قومی پالیسی سے منحرف ہوکر ”قومی دھارے“ سے باہر ہوچکے ہیں۔ آپ انہیں دعوت دیجیے کہ وہ قومی دھارے میں شامل ہوں اور کشمیر کے بارے میں اپنا حقیقی کردار ادا کریں۔