ہوم << جوائنٹ فیملی سسٹم اور اسلام پیالی میں طوفان - سید ثمراحمد

جوائنٹ فیملی سسٹم اور اسلام پیالی میں طوفان - سید ثمراحمد

سید ثمر احمد
بحث کچھ عجیب لگی۔اصول یہ ہے کہ ہر اچھی بات اسلام میں داخل ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں پائی جائے اور کسی چیز کو غیر اسلامی کہنے کے لیے اسے ثابت کرنا پڑتا ہے۔ جتنا بڑا یہ جرم ہے کہ کسی حرام کو حلال بنادیا جائے اتنا ہی بڑا جرم کسی حلال کو حرام بنانا بھی ہے۔ راہیں مسدود کرنا خدا کا منشا نہیں، راستے آسان کرنا فطرت میں شامل ہے۔کچھ بنیادی باتیں:
٭رسولِ خدا ﷺ اور صحابہؓ کے دور میں کسی بات کا نہ پایا جانا اس کے غیر دینی ہونے کی دلیل نہیں۔ ضروری ہے کہ ناجائز چیز قرآن و سنت کے ’صریح اور صحیح ‘حکم سے ثابت ہو
٭ہر نئے متعارف شدہ کام؍ ایجاد؍ رسم وغیرہ کو بدعت نہیں کہتے …بدعت کہیں گے وہ کام جس کی ’اصل‘ کتاب و سنت میں نہ پائی جائے
٭رسم اور رواج کے بارے میں اسلام کا اصول یہ ہے کہ وہ کسی کی مخالفت نہیں کرتااور ہر علاقے کی ثقافت کی عزت کرتا ہے۔ صرف ان رسومات اور رواجوں کی اصلاح؍ خاتمہ کرتا ہے جن کے نقصانات انسان؍ معاشرے کو زیادہ ہوں اور فوائد کم یا…وہ تہذیبِ اسلام سے ٹکراتے ہوں
زیرِ نظر بحث میں بھی یہ بات اہم ہے اگر ساتھ رہنا ہندوستان کا کلچر تھا تو اس کا جڑ سے اکھاڑنا اس وقت درست بنتا تھا جب یہ مذکورہ بالا شرائط پہ اترتا۔جوائنٹ فیملی کے اپنے فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی۔ اسی طرح اسلام نہ اس کے حق میں مہم چلاتا ہے نہ خلاف۔ ہاں اسلام کی کچھ اقدار ہیں، کچھ تقاضے ہیں جیسے …خیال رکھنا، بڑوں کا چھوٹوں پہ شفقت کرنا، چھوٹوںکا بڑوں کو ادب دینا، رواداری، بلند اخلاق، سچائی، خلوص، مصیبت میں کام آنا، اتفاق و اتحاد کی صورت میں رہنا، انتشار سے بچنا وغیرہ…
ہمیں سب پہلوئوںکی روشنی میںغور کرنا ہوگا کہ:
٭ جوائنٹ فیملی سسٹم نقصان دہ یا ترک کیے جانے کے قابل ہے؟
٭کیا ذمّہ داری بوجھ ہوتی ہے؟ تو کیا ماں باپ کی قربانیاں بوجھ کی نشان دہی کرتی ہیں… کیا انہیں اپنی اولاد پہ سے ہاتھ اٹھا کے دارالامان کے سپرد کردینا چاہیے؟ کیا بڑابھائی صرف پسِتا ہی ہے(جیسا کہ تحریر میں اشارہ کیا گیا) یا اس کا رتبہ اور عزت بھی بلند ہوتی ہے؟(راقم الحروف کو بھی خدا نے اس اعزاز سے نوازا ہے)۔
’جن کے رتبے ہیں سوا ، ان کی سوا منزل ہے‘
ہمارے ایک عزیز دوست حافظ محمد عامر کے بڑے بھائی اور والد یکے بعد دیگرے انتقال کرگئے۔ بہن بھائیوں، والدہ، دو بھابھیوں او ر ان کی اولادوں کی ذمہ داری آن پڑی۔ کیا ان کو چاہیے تھا کہ اپنی بیوی اور بچوں کو لے کر الگ ہوجائیں اور وقت کی کڑکتی دھوپ میں جلنے کے لیے باقیوں کو تنہا چھوڑ دیں ۔ جب کہ علیحدہ گھر (باقی گھر والوں کے لیے )کی ان کے وسائل اجازت ہی نہیں دیتے؟
٭جولوگ بڑے اور ذمہ داربھائی کی قدر نہیں کرتے تو ہمارا یہی معاشرہ ان کو کن نظروں سے دیکھتا ہے؟
٭کہیں ہم مغرب کی بے حس انفرادی زندگی کی گلیمرائزڈ مہم سے متاثرہو کے خیالات تو نہیں بْن رہے؟
ہمارا خیال ہے کہ محترمہ حیا زندگی کے کچھ تلخ تجربات؍ مشاہدات کی بنا پہ یہ رائے قائم کر بیٹھی ہیں اور پھر اسے دینی سند کے لیے یہ دلیل اختیار کر بیٹھیں کہ دورِ صحابہ ؓ میں اس کا ثبوت موجود نہیں۔ ہماری نظر میں مسائل اس وجہ سے بھی پید ا ہوتے ہیں کہ اکثر:
٭لڑکا شادی کے لیے نفسیاتی اور معاشرتی پہ تیار نہیں ہوتا۔ وہ نئے آنے والی اور باقی گھر والوں میں توازن قائم کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے اور سینڈوچ بن جاتا ہے
٭آنے والی لڑکی خود کو بہو خیال کرتی ہے بیٹی نہیں
٭آنے والی کو بہو؍ ’غیر‘ سمجھا جاتا ہے فیملی ممبر کا اضافہ نہیں
٭بڑے وسیع النظر نہیں ہوتے اور اپنے محدود تجربات کو دوسروں پہ لاگو کرنا چاہتے ہیں
٭چھوٹے ہر بات کو بغیر سمجھے اپنی آزادی میں رکاوٹ سمجھ کر رد کردینے کی راہ پہ چل نکلتے ہیں
٭بات بات پہ نگاہ رکھنے سے پرائیویسی ڈسٹرب ہوتی ہے
اصولی طور پہ ایک اور بات سمجھ لینی چاہیے کہ نیا جوڑا اپنی زندگی شروع کر رہا ہے۔ ان کے اختیارات ، آزادی اور پرائیویسی کا اہتمام ہونا لازم ہے۔ اجتماعی گھر میں بھی ان کے کمرے اور ذاتی زندگی میں دخل کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔ اور اسلام …یہی چاہتا ہے۔وہ اپنے طور پہ خوش گوار زندگی جینے کا بنیادی حق تسلیم بھی کرتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی
اسی طرح ہماری فقہ کا یہ اصول بھی سمجھا جانا ضروری ہے کہ اگر کسی فتنے کے ختم کرنے کے نتیجے میں اس سے بڑا فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس کو چھیڑنے سے اجتناب کیا جائے گا۔ ہم دیکھیں گے کیا واقعی جوائنٹ فیملی سسٹم ایک فتنہ ہے؟ اور کیا ہمارے معروضی حالات اس کو بزور ختم کردینے کے نتیجے میں کوئی خوشگوار نتیجہ پیدا کرسکیں گے؟
اس لیے ضرر کو دفع کرنا چاہیے، قابلِ اصلاح کی مرمت ہونی چاہیے، غلط کی مذمت ہونی چاہیے اور اچھی باتوں کے فروغ کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ہماری نظر میں اہم ہے کہ:
٭شادی کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کو ’شادی کورسز‘ کروائے جائیں۔ جس سے وہ آئندہ زندگی کو بہتر طور پہ گزارنے کے قابل ہوں۔ ایسا لٹریچر پڑھوایا جائے جو اس میں تعمیری کردار ادا کرسکے (لٹریچر موجود ہے اور کورسز کا آغاز بھی کچھ بڑے شہروں میں ہو چکا ہے)
٭ساسیں بھی مستقبل کی نزاکت کو سمجھیںاور تربیت گاہوں؍لٹریچر؍ لیکچرزسے گزریں۔ یہ برابر اہمیت کی بات ہے
٭آنے والی خود بھی ’غیر‘ کے طور نہ آئے اور نہ اسے ’غیر‘ سمجھا جائے
٭پرائیویسی میں قطعاََ دخل اندازی نہ ہو
٭زبردستی کی بجائے مشاورت کا اہتمام ہو
٭ذمہ داریوں کو بوجھ نہیں اعزاز سمجھا جائے اور چھوٹے احساس کا غیر معمولی التزام کریں
بحث سمیٹتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ جوائنٹ فیملی سسٹم غیر اسلامی نہیں۔ یہ مقامی کلچر کا حصہ ہے۔ اس خواہ مخواہ چھیڑنا صحت مند نتائج نہیں رکھتا۔ اس کے کچھ نقصانات کی اصلاح کی کوشش ہم سب پہ فرض ہے۔جیسے بہن بھائیوں کو ان کا حق دیا جائے ویسے ہی اولاد کو ان کا۔ اور حالات بعض اوقات کچھ حق تلفی کا تقاضا بھی کرتے ہیں جو دراصل حق تلفی نہیں ہوتی بلکہ کم اہم اور زیادہ اہم کا کھیل ہوتا ہے ۔اگر کسی جگہ اجتماعیت میں رہتے ہوئے حالات خوبصورت رخ پرقائم رہیں تو یہ بہترین صورت وگرنہ پھرکبھی نہ ملنے سے الگ ہوکے رہنا یقیناََ بہتر ہوگا ۔ ایک دوسرے کے لیے رحمت بنے رہنا ہم پر فرضِ عین بھی ہے اور اس کی مضبوطی کی کوشش کرنا خوشحال اجتماعی زندگی کا ضامن بھی۔ ا

Comments

Click here to post a comment