ہوم << درخت ہماری زندگی کی اہم ضرورت : شانی انصاری

درخت ہماری زندگی کی اہم ضرورت : شانی انصاری

شانی انصاری کچھ دن قبل گاؤں جانا ہوا وہاں شدید گرمی تھی اوپر سےلوڈ شیڈنگ بہت ہورہی تھی دوپہر کے ٹائم بجلی کی بندش کے باعث گھر میں رہنا دشوار ہورہا تھا گھر میں نیم کا ایک چھوٹا سا درخت ہے جس کے سائے میں بمشکل دو چارپائیاں ہی آ پاتی ہیں جنہیں گھر کی خواتین ہی سنبھال لیتی ہیں ایسے میں ہم مرد گھر کے باہر پانی کے کھالے پر موجود درختوں کے نیچے چارپائیاں لے کر چلے جاتے ہیں وہاں دوپہر کا وقت گزارنے...
میں بھی باہر درختوں کے نیچے بیٹھنے کےلیے چلا گیا ..مگر یہ دیکھ کر اک جھٹکا سا لگا کہ درخت کٹتےکٹتے اب صورتحال یہ ہے کہ محض ایک درخت آن بچا ہے جو سوکھا سڑا سا ہے جس کے سائے میں ایک چارپائی بھی نہیں آسکتی.. کسی دور میں نرسری کا منظر پیش کرتے کھالے کی اب ایسی حالت دیکھ کر مجھے رونا سا آگیا..ایک وقت تھا جب اس کھالے پر دونوں اطراف میں ایکڑ تک پھیلے درخت ہی درخت تھے. اور یہ ہمارے بچپن کی محنت کا نتیجہ تھا... جی ہاں... ہمارے بچپن کے محبوب مشغلوں میں ایک مشغلہ درخت لگانا بھی تھا...
ہم پڑھ کر واپس آتے تو درانتی یا کُھرپی لے کر کھیتوں کی طرف نکل جایا کرتے تھے جہاں سے پودے ڈھونڈھ ڈھونڈ کر نکال لاتے تھے جنہیں گھروں میں. سڑک کے قریب اور کھالوں کی نکروں پر لگا دیا کرتے تھے کیکر ٹالی آم ایسے درختوں کی کثیر تعداد ہم نے پانی کے کھالے کے اوپر لگا رکھی تھی .پھر ان کی خوب محنت سے پرورش کرتے تھے ہم آٹھ دس کزنز کا ایک گروپ بنا ہوا تھا کسی کے ذمے گوڈی کرنا ہوتی تو کسی کے ذمے پانی وغیرہ لگانا انکی ہر طرح سے حفاظت کرتے تھے کوئی ایک پودہ بھی مرجھاتا تو ہمارے چہرے بھی مرجھا جایا کرتے تھے...
پھر وقت کے ساتھ ساتھ وہ درخت بڑھے تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوگئی تھی. اس وقت میں بھی کئی درخت ہمارے بڑوں نے کاٹ کر بیچے تھے لیکن چونکہ ہر آئے دن اس مشن پر لگے رہتے تھے تو کبھی اتنی کمی محسوس نا ہوتی تھی ..ہمیں درخت لگانے کا شوق جنون کی حد تک تھا..اور ایسا کیسا نا ہوتا ہمارے مدرسے کے اساتذہ ہمیں درخت لگانے کی خوب ترغیب دیا کرتے اور اسکا ثواب بھی بتایا کرتے تھے جس کی وجہ سے ہم میں یہ شوق جنون کی حد تک پیدا ہوچکا تھا....
سب گھروں میں دو دو درخت تو لازمی ہوتے تھے صحن بڑا ہوتا تو دو سے بھی زیادہ درخت ایک گھر میں ہوتے تھے...ہمارے گھر میں بھی دو درخت تھے جنہیں نئی عمارت بناتے وقت کاٹنا پڑا ...
پھر جب ہم بڑے ہوتے گئے تو کسی کو پڑھائی اور کسی کو روزگار کی وجہ سے گاؤں کو خیر باد کہنا پڑا اس لیے رفتہ رفتہ ایک طرف تو درختوں کے کٹنے کا سلسلہ سنگین ہوتا چلا گیا اور دوسری طرف بدقسمتی سے عہد کے بچوں کا درخت لگانے کا شوق ختم ہوتا چلا گیا... اور اب یہ حال ہے کہ آج کل میں نے کبھی کسی بچے کو درخت لگاتے نہیں دیکھا...
ماحول کے حوالے سے درختوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے آب و ہوا کی کمی کو پورا کرنے کےلیے درختوں کی کثرت بہت ضروری ہے... آج کل گرمیوں کی شدت بھی درختوں کی کمی کی وجہ سے ہے درخت آب و ہوا کو صاف بنانے میں مدد دیتے ہیں اور ہوا میں نمی کے تناسب کو بڑھاتے ہیں بارش کو کھینچتے ہیں.. آپ مشاہدہ کیجیے کہ جہاں درخت زیادہ ہوں وہاں بارشوں کی کثرت رہتی ہے....
بدقسمتی سے پاکستان میں اب درختوں کی صورتحال بہت خراب ہے ایک رپورٹ کے مطابق شروع شروع میں پاکستان میں درخت 6.10 فیصد تھے جو اب گھٹتے گھٹتے 2.19 پر آچکے ہیں....اور گمان کیا جارہا ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو آئندہ چند سالوں میں عرب ممالک سے بھی کم تناسب ہوجائے گا... اور گرمی بھی عرب ممالک جتنی ہوجائے گی...!!
اب حکومتیں بھی اس طرف دھیان دے رہی ہیں کہ درختوں کی زیادہ سے زیادہ پیداوار کو کیسے ممکن بنایا جاسکے... حال ہی میں عمران خان نے خیبر پختون خواہ میں ایک عرب درخت لگانے کا وعدہ کیا تھا... حالانکہ ماشاء اللہ خیبر پختون خواہ میں درخت دوسرے صوبوں کی نسبت اب بھی بہت زیادہ ہیں...
زیادہ مسئلہ سندھ اور جنوبی پنجاب کا ہے اس طرف درخت بہت کم مقدار میں ہیں جس وجہ سے گرمی کی شدت بھی دوسری جگہوں سے زیادہ ہوتی ہے... حکومت کو چاہیے کہ ان کی طرف نظر کرم فرمائیں..
ساتھ ساتھ ہم لوگ بھی اپنے آپ میں درخت لگانے کے شوق کو دوبارہ زندہ کریں اور اپنے بچوں کو درخت لگانے کی ترغیب دیں ان میں ان سرگرمیوں کا شوق پیدا کریں...
دیہی علاقے کے مکینوں کو تو اس معاملے میں کوئی دقت نہیں کہ کھیتوں کھلیانوں میں بے شمار درختوں کے پودے قدرت کی طرف سے لگا دئیے جاتے ہیں بغیر کسی خرچے کے محض تھوڑی سی محنت سے یہ پودے کھیتوں میں سے کھود کر سڑک کنارے یا گھروں میں یا کسی خالی جگہ پر لگائے جاسکتے ہیں..وگرنہ یہ قیمتی متاع زمین بوتے وقت ہل چلنے سے ختم ہوجاتی ہے... تاہم پھر بھی آئیندہ اللہ کریم انہیں پیدا تو کردیتے ہیں لیکن ہم ہی انکی قدر نہیں کرتے...جو کہ نقصان کا زریعہ بنتا جارہا ہے...
درخت لگانے کی ترغیب تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی دی ہے اور درخت لگانے کو صدقہ جاریہ قرار دیا ہے...
ثواب کا ثواب اور دنیاوی فائدے کا فائدہ بس ہمیں تھوڑی محنت کی ضرورت ہے اور اپنے بچوں کو ترغیب دینے کی ضرورت ہے..
قدرت کی انمول تخلیق ہیں یہ درخت جو دنیا ہی میں جنت کا نظارہ ہوتے ہیں.
یارو اور کچھ نا سہی ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں اپنے اور اس ملک کے فائدے کےلیے...... !!

Comments

Click here to post a comment