ہوم << بولوں گا کہ تو ذمہ دار ہے - محمد علی نقی

بولوں گا کہ تو ذمہ دار ہے - محمد علی نقی

محمد علی نقی پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ کوئی نئی نہیں، بلکہ یہ 1980 کی دہائی سے شروع ہے، جب ایک ڈکٹیٹر نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے مذہب کی قبا میں خود کو پناہ دینے کی کوشش کی۔ نفاذِ شریعت کو بنیاد بنا کر عوام کے احساسات سے کھیلا گیا، فقہ حنفیہ پر زور دے کر نفاذِ فقہ جعفریہ کے نعرے بھی سڑکوں پر لگوائے گئے، نتیجہ دونوں طرف سے فرقہ وارانہ تنظیموں کی شکل میں قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
افغانستان کی مسلح تحریک کی بےجا حمایت اور اپنے ملک کے عوام کو اسلام پسندی کے نام پر وہاں بھیجنا شروع کر دیا، وجہ صرف خوشنودیِ امریکہ و سعودیہ حاصل کرنا لیکن اپنے ہمسائے کے گھر کو ایندھن بنانے والے نہ جانے یہ کیسے بھول گئے کہ شیشے کے گھروں میں رہنے والے کو پتھر برسانا زیب نہیں دیتا۔ ہماری قوم کے نوجوان انتہاپسندی کی طرف مائل ہوگئے، نااہل پالیسی سازوں کی پالیسیاں نوجوانوں کے دلوں میں مذہبی تشدد کو ہوا دینے لگیں۔ کچھ مولوی برادری بھی سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی بےجا حمایت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئی لیکن اس محاذ نے شاید اس وقت اس قدر نقصان نہ دیا جس قدر یہ گروہ آج اتنی طاقت پکڑ کر دے رہے ہیں. آج انہی گروہوں نے پاکستان میں مختلف نام دھار لیے ہیں اور قابو میں آتے نظر نہیں آ رہے۔
ان کی بے باک کاروائیوں نے ہسپتالوں کو بخشا نہ تعلیمی اداروں کو، بازاروں کو بخشا نہ گلی کوچوں کو، مسافروں کو بخشا نہ محافظوں کو، ہر ہر ہجوم پر یہ اپنے اثر چھوڑ گئے۔
دہشت گردی کے ان واقعات میں سب سے دل سوز واقعہ پشاور میں اے پی ایس کے 150 معصوموں کا بہیمانہ قتل تھا جس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ بعد ازاں باچا خان یونیورسٹی کے 35 طلبہ کی شہادت نے بھی سوالیہ نشان کھڑے کردیے۔ 2009ء میں ہونے والے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں دو دھماکے کس کو یاد ہوں گے؟ کس کو یاد ہوں گے ان طلبہ کی شہادت جو سنہری خواب لے کر علم کے حصول میں مگن تھے۔
خیر سے یہ واقعات تو عوام و حکمرانوں کے ذہن پر دھندلے ہوگئے ہوں گے، جو زخم ابھی تازہ ہے، وہ ہے کوئٹہ کے ٹریننگ سینٹر میں ہونے والے 61 نوجوانوں کی شہادت کیونکہ ان شہداء کا کفن ابھی میلا نہیں ہوا، کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے، وقت بہترین مرہم ہے، معمولاتِ زندگی معمول پر آجائیں گے، پھر یہ شہداء بھی دھندلی تصویر بن کر ذہنوں میں کہیں گم ہوجائیں گے، پھر خدانخواستہ اگر کوئی حادثہ پیش آیا تو ان کی یاد بھی تازہ ہوجائے گی۔
میرے وطن تیری قسمت کہ تیرے باسیوں کا خون بہنے کے بعد یہاں عمارت کو محافظ گھیرے میں لیتے ہیں، کاش یہ گھیرے میں لینے والی رسم حملہ سے پہلے ادا ہوئی ہوتی۔
بس یہ لفظ کاش ہی کہنے کو بچ جاتا ہے۔