ہوم << ضرورت ضَرَر بننے لگی ہے - کفیل احمد صدیقی

ضرورت ضَرَر بننے لگی ہے - کفیل احمد صدیقی

کفیل احمد صدیقی موجودہ دور ایجادات اور اختراعات کے حوالہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، جہاں بہت سی ایجادات انسان کی سہولت کا باعث ہیں ،وہیں پر بہت سی ایجادات جو ضروریات کے حصول کے لیے تھیں وہ اب ضَرَر بَنّے لگی ہیں، ان ایجادات نے انسان کے امورِضروریہ کوتو کافی حد تک سہل کر دیا ہے، لیکن انسان کا چین و سکون غارت کر دیا ہے۔ اب مؤبائیل کو ہی لے لیجئےکہ جہاں اس اٰلہ نےتمام فاصلے مٹا دیے اورمہینوں اور سالوں کے فاصلوں کو منٹوں اور سیکنڈوں میں کر دیا ہے ،وہیں اس نے ایک گھر میں رہنے والوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیےہیں۔
اس نےنئی نسل میں وہ تباہ کاریاں کی ہیں کہ نوجوان نسل کو اپنی تہذیب و ثقافت سے ہی دور کر دیاہے۔ جو وقت پہلے بزرگوں کی صحبت میں گزرتا تھا اب وہ اس مؤبائیل کی نذر ہوتا ہے، اب تو مہمان سامنے بیٹھے ہوتے ہیں اورمیزبان صاحب اس اٰلہ کے اسیر ہوتے ہیں، پہلے توکسی کےہاں جاتے تھے خیر ،خیریت اورحال،احوال کا مذاکرہ ہوتا تھا،اب تو سلام دعا کے بعد اولاً وائی فائی کا پاس ورڈ (wifi Password) معلوم کیا جاتا ہے، صورت ِحال یہ ہوتی ہے کہ چند بزرگ ہستیاں بیٹھی منہ تک رہی ہوتی ہیں اورنوجوان اپنے چہروں پر شیطانی مسکراہٹ سجائےآنکھوں کو اسکرین پر مرکوز کیےہوئے ،کھنٹوں ایک ہی کروَٹ پر بیٹھے رہتے ہیں۔۔۔
یہ تو دور کی بات ہے بلکہ اب تو ہر گھر کا حال ہی ایسا ہوا پڑا ہےکہ ماں باپ منتظربیٹھے ہوتےہیں کہ بچہ اپنےمؤبائیل سے فارغ ہو تو کوئی بات کریں۔ سونے پر سہاگا کیا ہے ان نائٹ پیکجز نے۔ رات بھر موبائیل کی قید میں محسور صبح کو آفس اور درسگاہوں میں اپنی نیند کی تکمیل میں مصروف ہوتے ہیں۔۔۔ حیرت کی انتہا تو اس وقت نہ رہی تھی جب محلّے میں مسلسل نظر آنے رونق کی وجہ پوچھی ،تو معلوم ہواکہ خانہءِ متصل میں فری وائی فائی کی سہولت میسّر ہے۔
بچّوں کا حال بھی کچھ اس سے کم نہیں ہے۔ جو بچپن پہلےاکابرین کے احوالِ زندگی اوردلچسپ اور مزیدار جاسوسی ناول کے مطالعہ میں گزرتا تھا وہ اب ان' ٹیبلیٹ' (Tablets) کے حوالے ہے۔ اب ہوم ورک بعد میں ، پہلے 'کلاش آف کلین' (Clash Of Clans)کا اَٹیک (Attack) ہوتا ہے۔ پرانی تاریخ کے علوم کے بجائے 'سَبوے سَرفَرز' (subway surfers) کے 'کوائنز' (Coins) جمع کیے جاتے ہیں۔
اب تو سارے جسمانی ورزش کے 'کھیل کرکٹ ،فٹبال 'بھی بستر پر مہیّا ہیں۔ جو بچّے پہلے رات کو کہانیاں پڑھتے،سُنتے سوتے تھے وہ اب 'انڈین کارٹونز' دیکھ کر سوتے ہیں۔ ایسے بچوں میں پھر رومانیت سے بھری جوانیاں جنم لیتی ہیں،اور انکا طرزِزندگی اپنی ثقافت سے کہیں مختلف ،مغرب کے طرز پر ہوتا ہے۔
افسوس کہ ہمارے بزرگ بھی اس سے محفوظ نہیں۔جن چیزوں کو ضرورت کے لیے بنایا گیا تھا ،آج ان سے ضروریات کے لیے وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔ خدارا ضروری اشیاء کو ضرورت کی حد تک ہی محدودرکھیں، ورنہ آنے والا دور جسمانی،روحانی،طبّی اورذہنی حوالے سے ایسے فسادات برپا کرے گا کہ اسکا اندازہ دشوار ہے۔

Comments

Click here to post a comment