ہوم << پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض - ساحر ماہی

پیدائشی ڈاکٹر اور بےچارے مریض - ساحر ماہی

کچھ لوگوں کو بچپن میں ڈاکٹر بننے کا بہت شوق اور ڈاکٹر بن کر غریبوں کا مفت علاج کرنے کا جذبہ ہوتا ہے. اگر یہ شوق و جذبہ نہ ہو تو لوگوں کو کیسے پتا چلے کہ بچے ناسمجھ ہوتے ہیں.
اور جب بفضل خدا ڈاکٹر بن جائیں تو پھر مریضوں کے سامنے ایسے بل پیش کرتے ہیں گویا کہ یہ ڈاکٹر زکوۃ، فطرانہ اور دیگر صدقات کے حقدار ہوں.
پانچ روپے کی پنسل سے کاغذ پر ہزاروں روپیوں کا نسخہ لکھ کر مریضوں کو تھما دیتے ہیں جس کی وجہ سے مریض بلڈ پریشر اور قلبی امراض میں گھرجاتا ہے.
بےچارہ دوائی تو بخار کی لینے گیا اور مسیحا سے دل کی بیماری کی سند یعنی کہ ڈاکٹر کی فیس کی پرچی ساتھ لے آیا.
بچپن میں اماں شریفاں اپنی سب سے زیادہ محبوب بھینس کے دودھ کی لسی بنا کر اور دیسی گھی میں تلے پراٹھے اور ان پر مکھن رکھ کر اس کو لپیٹتی اور فیقے کے ہاتھ اسے ڈاکٹر کو بجھواتی کہ ہمارے گاؤں کا لڑکا ڈاکٹر بن جائے.
لیکن افسوس اس وقت ہوا جب سات سال بعد فیقا اپنی اماں شریفاں کو لےکر اسی ڈاکٹر کے کلینک پر گیا اور مسیحائی کی درخواست کی لیکن ڈاکٹر نے کہا کہ فیقے تم اماں کو گھر لے جاؤ، وہ ضعیف العمر ہوچکی ہیں.
میرا وقت برباد کر نہ اپنے وقت کا ضیاع کرو.
پتہ نہیں کتنی اماں شریفائیں اسی طرح رواداد سناتی نظر آتی ہیں.
ڈاکٹر کا ایک اور پہلو بھی ہے جو کہ مدد کرنے کا ہے.
جی جناب!
یہ ڈاکٹر مدد بھی کرتے ہیں لیکن اپنی برادری مطلب ڈاکٹروں کی.
یہ اپنا انداز تحریر شروع ہی سے انداز واردات کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو کہ کسی کے پڑھنے کے بس کی بات نہیں.
کیونکہ ان کا ”کوڈ آف واردات“ یہی پرچی ہوتی ہے جس پر تحریر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو جن کو میں آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، میں نے اچھی طرح دیکھ لیا ہے اور ان کو اتنے کا ٹیکہ لگانا ہے.
پھر میڈیکل والا ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتا ہے اور اس مریض کو”گولی“ دے دیتا ہے.
پھر بےچارہ مریض صبح و شام ڈاکٹر کی گولی کھاتا رہتا ہے.
اور اتنا پاگل ہے کہ اب بھی اپنی اولاد کو کہتا ہے کہ بیٹا فلاں بندے نے ڈاکٹر بن کر گاؤں کا نام روشن کیا ہے حالانکہ وہ نہیں جانتا کہ جسے دعائیں مانگ مانگ کر ڈاکٹر بنایا تھا. وہ واقعی میں ڈاکٹر بن گیا اور اس نے انسانیت اور مسیحائی کا فرقہ چھوڑ کر پیسے کو اپنا دھرم بنا لیا ہے.

Comments

Click here to post a comment