ہوم << پچھتاوے - ریاض علی خٹک

پچھتاوے - ریاض علی خٹک

ریاض خٹک زندگی کو تین زمانوں میں دیا گیا ہے، ماضی، حال اور مسقبل. ماضی ہمارا گزرا ہوا وقت ہے، یہ ایک یاد ہے، ایک سوچ ہے، مسقبل ہماری اُمید ہے، ایک ایسی زندگی کی اُمید جس کی ہر سانس دوسری سانس کی طلبگار ہے. حال زندگی ہے، وہ لمحہ جس میں ہم آپ جی رہے ہیں.
انسان کی زندگی خواہشات سے عبارت ہے. یہ آرزوؤں کے جال بُنتا ہے، ان آرزوؤں کو نشانِ منزل بناتا ہے، اور یہی اس کے سفر کا آسرا ہوتا ہے. اور یہی خواہشات اس کے شعور و ادراک کی منزلیں بھی بنتی ہیں. کل کی خواہش آج کے شعور پر اپنی منزلت قائم نہیں رکھ سکتی.
جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں، تو ہماری دُنیا سمٹی ہوتی ہے، تب ہم،اری خواہشات کسی ایک کھلونے پر بھی معراج ہوسکتی ہیں، یہ حاصل لگتا ہے اور اس کا کھو جانا، ٹوٹ جانا زندگی کا عظیم زیاں نظر آتا ہے. شعور کی اگلی منزل میں یہ شدت ہمیں مسکراہٹ تو دے سکتی ہے، لیکن وہ صدمہ جو ماضی کی یاد ہے، اس کا وہ احساس نہیں دے سکتی. آج کی آرزو کھلونا نہیں ہوگی، یہ طاقت اقتدار دولت ہو یا زن، زر، زمین کی صدیوں سے بنی بھوک، پر ایک عام انسان کی زندگی انہی خواہشات کے گرد سمٹ جاتی ہے.
جیسے انسان کی زندگی کا دور تین زمانوں میں منقسم ہے، ایسے ہی زندگی کا یہ سفر بھی تین منزلوں میں تقسیم ہے. ایک روح کا جنم، دوسرا اس دارالمتحان میں اس کا آنا اور تیسرا ابدی منزل، انسان کی پہلی منزل کا کوئی ماضی نہیں، دوسری منزل کا مستقبل نہیں. زندگی تو تیسری منزل ہے. جو حال ہے. قائم و دائم رہنے والا حال.
اپنی اس دُنیا میں ہم ماضی کے پچھتاوے لے کر جیتے ہیں، تشنہ آرزوں کا بوجھ لے کر چلتے ہیں. لیکن کیا یہ پچھتاوے حقیقی ہیں؟ یہ سوال اپنی ذات سے بنتا ہے. یہ انسانی فہم اور شعور پر دستک دیتا سوال ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے. اے ابنِ آدم! سوچ تیرے شعور کی ابتدا کے پچھتاوے کتنے حقیقی تھے؟ جن کو تم آج شعور کا بچپنا کہتے ہو، اپنے اُن پچھتاووں پر مسکرا دیتے ہو، کیا یہ ممکن نہیں کہ کل اُس ابدی کل اپنے آج کے پچھتاووں کے بوجھ کو اٹھانے کی سکت نہ ہو؟ آج تو تجھے مسقبل کی اُمید ہے، پر اُس ابدی کل میں زمانہ صرف ماضی لے کر جائے گا اور حال پر رک جائے گا.

Comments

Click here to post a comment