ہوم << بیانیے کی جنگ اور مذہبی نوجوان ... ہوئے تم دوست جس کے - محمد حسین کھرل

بیانیے کی جنگ اور مذہبی نوجوان ... ہوئے تم دوست جس کے - محمد حسین کھرل

ارض پاک پر ایک دفعہ پھر سے معرکہ فکر و نظر بپا ہے۔ بیانیے کی جنگ زوروں پر ہے۔ عجب تو مگر یہ ہے کہ کل جولوگ 'کیمونزم' کے لیے سینہ سپر تھے،انہی لوگوں میں سے ایک طبقہ آج پھراسلام پسندوں کے خلاف 'سیکولرازم' کے لیے صف آرا ہے۔ ایک خالص فکری جنگ میں 180ڈگری کی اس قلابازی کو عجوبہ ہی کہیے گا یا کہ چڑھتے سورج کی طرف طبائع کا میلان۔
بہرحال 80ء کی دہائی میں اسلام پسندوں نے کیمونسٹوں کے خلاف جو فکری معرکہ سر کیا، یہ معرکہ اس معرکہ کی بہ نسبت اسلام پسندوں کے لیے اپنے اندر کہیں زیادہ شدت رکھتا ہے۔ کیونکہ اب کہ معتدل اسلام پسندوں کو چومکھی لڑنا ہے۔ ایک طرف وہ انتہا پسند ہیں جن کے ہاں مستحب فرض ہے، مباح حرام اور گنجائش کا نام بزدلی۔ خود خواہ ہزارہا بداعمالیوں میں مبتلا ہوں۔ مگرسماج کے لیے جن کی لغت میں ”رخصت“ نام کا کوئی لفظ موجود نہیں۔ 'عزیمت و اخلاص 'کے یہ پیکر جانے نہ جانے میں سیکولرازم کے باقاعدہ ہر اول کا کردار ادا کررہے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی سماج میں اہل مذہب کی انتہا پسندی ہی سیکولرازم کے فروغ کا ذریعہ بنتی ہے۔ کہ سیکولرازم نام ہی مذہب بیزاری کی اس تحریک کا ہے جو انتہا پسندی کے ردعمل میں معرض وجود میں آئی۔
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
تبھی کہتے ہیں کہ اخلاص بھی وہی کارآمد ہوتا ہے جس کا استعمال حالات کو بنظر غائر دیکھنے والی عقل کے ساتھ ہو۔ سید عطااللہ شاہ بخاری ؒ پان کاشوق فرماتے تھے۔ ایک دفعہ دوران سفر بس میں پیک دان انڈیلنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ آپ پیک دان باہر انڈیلنا چاہ ہی رہے تھے کہ ساتھ والی نشست پر بیٹھے خادم نے عرض کی، کہ حضور اس خادم کو خدمت کا موقع عنایت کیجیے۔ آپ نے فرمایا کہ اے بندہ خدا میں کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھا ہوا ہوں، میں پیک دان باہر انڈیل دیتا ہوں۔ تو تکلیف کیوں کرتا ہے ؟ مگر وہ مجسمہ اخلاص تھا کہ مصر رہا۔ چنانچہ آپ نے پیک دان اس کے حوالے کر دیا۔ اب سر تا پا جذبہ خدمت سے سرشار خادم نے ہاتھ شاہ صاحب کے اوپر سےلپکا کر کھڑکی سے باہر جس طرف کو بس جارہی تھی اسی طرف کو جو پیک دان اچھالا تو پیک دان میں موجود سارا گند ہوا کے دباؤ کے ساتھ واپس سیدھا شاہ صاحب کے اوپر آرہا۔ یہاں شاہ صاحب نے اس خادم کو مخاطب کرتے ہوے ایک جملہ کہا، کہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کے عقل کی جگہ بھی اخلاص ہی بھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسلام بھی ایسے ہی 'مخلصین' میں گھرا ہوا ہے۔
وہ مخلصین چاہیں تو لوگوں کی عقیدتوں کے تار کچھ یوں ہلائیں کہ نو عمر بچے اپنے ہاتھ کاٹ کےتھال میں سجاکر، ان کے روبرو پیش کردیں۔ چاہیں توممولوں کو شہبازوں سے ٹکرا دیں۔ لوگوں کی محبتوں کے محور و مراکز کا ذکر یوں چھیڑیں کہ لوگ اپنے مسلکی مخالفین کو واجب القتل جانیں۔ امت جس اختلاف کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دور سے برداشت کرتی چلی آ رہی ہے، یہ مخلصین چاہیں تو اسی اختلاف کی بنیاد پر کشتوں کے پشتے لگوا دیں۔ ملک کو آگ و خون میں نہلا دیں۔ پھر طرفہ تماشہ یہ کہ مقتولین شہید اور ان کے قاتل 'غازی ' ٹھرلیں۔
اس فکری جنگ کا سب سے بڑا میدان چونکہ سوشل میڈیا کا میدان ہے، اس لیے طرفین سے قلمی ”شاہ پاروں“کے ایسے ایسے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، کہ اخلاقی قدریں جن پر ماتم کناں نظر آتی ہیں۔ لبرلز سے تو اس کا شکوہ بھی کیا کیجیے گا، کہ مکالمہ کی بات کریں گے، دعوےدار تو ہمیشہ دلیل کی زبان میں بات کرنے کے ہوں گے۔ مگر کوسوں دور کہیں کسی کی منڈیر پر اگر کوئی کوا بھی مر جائے تو اس کے کوسنے مذہب پسندوں کو دیں گے۔ ان کی بات کی تان ملا، ملائیت پر ٹوٹے گی۔ گویا مذہب پسندوں سے نفرت ان کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہو جیسے۔ ان کی درست دلیل کو بھی تسلیم کرکے نہیں دیں گے۔ اس سب کے باوجود د وسعت ظرفی کےدعوے داربھی۔
دکھ تو ان مذہبی نوجوانوں پر ہے جنہیں دعویٰ رہبری ہے۔ مگر سنجیدگی ہے کہ انہیں جیسے زیبا ہی نہیں۔ کاش انہیں کوئی سمجھا پاتا کہ اسلام کا مقدمہ اتنا کمزور ہے اور نہ ہی اسلام پسندوں کا۔ جو آپ کی ایسی قلمی جولانیوں کا محتاج ہو، جو اسلام ہی کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ تسلیم کہ آپ نے مناظرانہ طبیعت پائی ہے۔ مگر یاد رکھیے کہ چوکوں اور چوراہوں پر مناظرے بیتے دور کا قصہ ہوئے۔ نئے دور میں پنپنے کی یہ باتیں نہیں۔ مکالمہ ہی نہیں خواہ مباحثہ بھی کیجیے، بادل نخواستہ ہی سہی مگر چل سکتا ہے۔ لیکن مخاطب کا نام لے کر اس کی عزت نفس سے کھلواڑ، تحقیر و تذلیل پر مبنی طرز نگارش اور سوقیانہ اندازتخاطب آپ کے مقدمے کی قبولیت میں رکاوٹ تو ہو سکتا ہے معاون و مدد ہرگز نہیں۔

Comments

Click here to post a comment