ہوم << بوائے فرینڈ کی مہران - طالبۃ الفردوس

بوائے فرینڈ کی مہران - طالبۃ الفردوس

اس نے آج بھی ٹیڑھی نظروں سے پیچھے آتی میرون گاڑی کو دیکھا، جس میں بیٹھا لڑکا اب کبھی کبھی مسکرانے لگا تھا. بھائی کی سائیکل پر بیٹھی کالج جاتی وہ نوعمر لڑکی غریب تھی مگر صبر اور قناعت جیسے اوصاف سے نابلد تھی. درمیانے درجے کے گھر میں پرورش پانے والی وہ لڑکی اب خواب دیکھنے لگی تھی، وہ ہمیشہ سے ہی بھائی کے ساتھ سکول جاتی، کالج تک یہی روٹین برقرار تھی. اس کا بھائی اس سے ایک سال اگلی کلاس میں پڑھتا تھا. وہ دن گنتی کب بھیا چودھویں کلاس سے نکلیں، کام ڈھونڈیں اور کب وہ وین پر اکیلے کالج جایا کرے. کم از کم اس شرمندگی سے تو بچ جائے گی جو روزانہ سائیکل پر بیٹھی وہ مہران والے لڑکے کو دیکھ کر محسوس کرتی تھی. اور وہ دن آگیا جب اس نے تیرھویں کلاس میں تین سپلی لی اور اس کا بھیا چودھویں میں پاس ہو گیا.
یہ اس کا سائیکل سے آزادی کا پہلا دن تھا، سب سے چوری آنکھوں میں کاجل لگاتے ہوئے وہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی. سٹاپ تک بھائی کی سنگت میں پہنچی اور روٹ کی وین میں بیٹھ گئی. آج مہران والے کو سہولت سے دیکھ سکتی تھی، جلد ہی میرون گاڑی وین کے ساتھ ساتھ چلنے لگی، وہ مسکرانے لگی، آج اس نے سلام کا اشارہ کیا اور وین سے اترنے کا کہا، مگر وہ کالج جا کر ہی اتری اور تیزی سے کالج پہنچ گئی. تمام دن خوابوں خیالوں میں وہ میرون گاڑی آتی رہی، چھٹی ہوئی تو کتابیں سمیٹتے وہ سہیلیوں کے ساتھ باہر آئی. سامنے وہی میرون گاڑی تھی اور وہ لڑکا دروازہ کھولے مودب کھڑا تھا. کسی انجانے غرور کے تحت وہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگی کہ وہی سائیکل اس کے سامنے آ گئی، اس کا بھائی پسینے میں شرابور گندی شرٹ پہنے اس کے سامنے تھا. بیٹھو، میں نے سوچا پہلا دن ہے تو ڈر جائے گی، اس لیے لینے آ گیا. ناچار وہ بیٹھ گئی..
تمام راستہ وہ دل ہی دل میں خود کو اور بھائی کو کوستی آئی، اسے اس کے پسینے سے بھیگے وجود سے گھن آ رہی تھی. بھائی نے گھر کے دروازے پر اسے اتارا اور واپس پلٹ گیا. وہ تن فن کرتی ماں پر برس پڑی، اماں بھائی کو کپڑے تو بدلوا دیتی، پہلے تو یونیفارم میں ہوتا تھا تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، اب میری سہیلیاں میرا کتنا مذاق بنائیں گی. مہران والا ذہن میں آتے ہی ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے. اتنے میں دروازے سے اس کا بھائی وہی منحوس سائیکل لے کر داخل ہوا. اے موٹی! لے تیرے لیے کباب اور نان لایا ہوں، اس نے دور سے ہانک لگائی اور وہ سب چھوڑ چھاڑ بھاگم بھاگ صحن میں پہنچی، بہرحال اس وقت مہران والے کے غم سے زیادہ اسے گرم گرم نان کباب بہتر لگے. جھٹ پٹ شاپر سے پانچ کباب اور چار نان نکال کر کھانے لگی، وہ ایسی ہی بےصبری تھی، لذات کے آگے سب غم بھلا دینے والی، اتنے میں بھائی منہ ہاتھ دھو کر پہنچ گیا. ارے ندیدی! انتظار کر لے مل کر کھاتے ہیں. اس نے رائتہ پیتے ہوئے سر اٹھا کر بھائی کو دیکھا جو صاف ستھرا اور گھر کے سادہ سے کپڑوں میں بہت نکھرا نکھرا سا لگ رہا تھا. کیا تھا جو تو کالج بھی منہ دھو کر آ جاتا. منہ دھو کر آ جاتا تو کئی لڑکیاں لفٹ مانگتیں پاگل، پھر تو کیسے آتی؟ وہ قہقہے مارنے لگی، ہاہاہا، لفٹ اور تیری سائیکل پر، ہاہاہا، چل کباب دے، دانت نکالے جارہی ہے، اس کے مسلسل ہنسنے پر بھائی نے مسکرا کر کہا. وہ باقی نان کباب اور رائتے کی پڑیا اس کے آگے رکھ کر کمرے میں جانے لگی، اس نے جاتے جاتے دیکھا کہ بھیا نے پلیٹ اٹھا کر ماں کے آگے رکھ دی، اماں! لے کھا ناں میرے ساتھ، اور ماں مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ شریک ہو گئی.
ہوںں، ماں مجھ سے تو یہ لاڈ کبھی نہیں کرتی، دل میں تازہ غم پالتے ہی اسے مہران والا یاد آنے لگا. اسے یاد کرتے خیالوں میں گم کب اس کی آنکھ لگی پتہ نہیں چلا. مغرب سے کچھ وقت پہلے اس کی ہمسائی اور دوست نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا، اٹھ جا اللہ کی بندی، تیری دوست کی تیسری کال آگئی ہے. کون سی دوست کی کال، اس نے نیند میں پوچھا، پتہ نہیں پہلے تو کبھی اس کی کال نہیں آئی، اپنا نام سحر بتا رہی تھی، کہتی کالج میں ساتھ پڑھتی ہوں. میں نے کہا کہ اس کی ساری دوستوں کی کال ہمارے گھر ہی آتی ہے، پہلے آپ نے کبھی کال نہیں کی تو کہتی ہماری نئی نئی دوستی ہوئی ہے. لو بتاؤ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں. ادھر وہ حیران تھی کہ یہ کون ہے. کالج میں اس کی بے شمار دوست تھیں، جس سے اسے ذرا بھی مفاد ہوتا جھٹ اس کو دوست بنا لیتی، مگر نمبر چند ایک کے پاس ہی تھا کہ گھر میں فون لگا نہیں تھا اور ساتھ والے گھر ایک کال سننے سو سوال جواب ہوتے، لہذا کوفت سے بچنے کے لیے وہ نمبر دیتی ہی نہیں تھی. لو پھر آ گئی کال، پڑوسن نے کان لگا کر لمبی ٹرن ٹرن ٹرن سننے کی کوشش کی، اس نے جلدی سے دوپٹہ ٹھیک کیا، ماں کو بتایا اور جھٹ پڑوسن کے گھر آگئی. کال آتے ہی اس کی دوست نے اٹینڈ کی اور کہا جی سحر آ گئی ہیں، آپ کی دوست، ذرا مختصر بات کیجیے گا. شان بے نیازی تارے ریسور تھما کر وہ پاس ہی کھڑی رہی.
ہیلو کون؟
میں ہوں، میری بات غور سے سنیں. مردانہ گھمبیر آواز سن کر اس کے جسم سے جان ہی نکل گئی، زبان پتھر کی ہوگئی اور پیشانی ٹھنڈے پسینے سے تر ہوگئی. ججججی، اس نے ہکلاتے ہوئے بولنے کی ناکام کوشش کی.
سن ہوتے ہاتھوں اور کانپتی ٹانگوں سے وہ جامد کھڑی تھی.
سن رہی ہیں آپ؟.
اس نے ہلکی سی ہوں سے کام چلایا.
وہ یہیں کھڑی ہے ؟
ہوں.
کل کالج آئیں گی؟
ہوں.
اچھا کل نجانے کب ہوگی. ساری رات صبح ہونے کا انتظار کرتا ہوں اور آپ کی ایک جھلک دیکھ کر دو بجے تک چھٹی کا انتظار، اب بس کریں اور کتنا انتظار کروائیں گی آپ. وہ ایک جذب سے بول رہا تھا.
ارے لڑکی بس کرو، کیا چمٹ ہی گئی ہے فون کے ساتھ. پڑوسن کی اماں کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں تو اس نے جلدی سے فون رکھ دیا.
وہ ہواؤں میں اڑ رہی تھی. اتنا امیر شخص اس سے محبت کرنے لگا تھا. اگرچہ ابتدا میں اس کی شکل بہت منحوس سی لگتی تھی مگر اب وہ کسی اور ترنگ میں اسے سوچ رہی تھی.
اماں! بھیا سو رہا ہے، میں خود ہی سٹاپ تک چلی جاتی ہوں اور ہاں میں آ جاؤں گی خود ہی، اتنی لڑکیاں اکیلے آتی جاتی ہی ہیں.
ابے موٹی! اتنی لڑکیاں اکیلے اس لیے آتی جاتی ہیں کہ ان کے بھائی کے پاس تیرے بھائی جیسی شاہی سواری جو نہیں.
یہ کب اٹھ گیا، جز بز ہوتی وہ اس کی طرف دیکھنے لگی. بھیا تو ساری زندگی مجھے لانے لے جانے میں لگا دے گا تو نوکری کب ڈھونڈے گا.
موٹی بھینس تجھے لاد کر کالج لے کر جانا کوئی کم نوکری ہے، اور میں تجھے کالج چھوڑ کر نوکری بھی تلاش کر لوں گا.
اسے ٹوٹ کر رونا آیا، یہ گھر والے میرے دشمن ہیں، مجھے کتنا ذلیل کرواتے ہیں دنیا کے سامنے، وہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہی تھی. کسی نے شاید اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھا ہی نہ تھا.
روٹ کی وین پر بٹھاتے ہوئے اس کا بھائی جلدی سے بولا، آج دھیان سے خود آ جانا، مجھے دیر ہو جائے گی.
اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا. اسی اثنا میں مہران اس کی وین کے ساتھ ساتھ چلنے لگی.
پھر یہ بھی ایک معمول بن گیا. مہران والا وین کے ساتھ ساتھ آتا، جب وہ کالج میں انٹر ہونے لگتی تو دل پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتا.
اس کا فون دوبارہ نہیں آیا تھا، شاید پڑوسن نے اسے بتایا ہی نہ ہو.
دن تیزی سے گزر رہے تھے. بھائی کی سائیکل اب بھی اس کی خوشیوں کی راہ میں کبھی کبھی آن دھمکتی تھی، بھیا کی مصروفیت کی دعائیں اس کی زندگی کا لازمی حصہ تھا.
یونہی ایک دن چھٹی کے بعد وہ خراماں خراماں روٹ وین کی طرف جا رہی تھی، مہران والا دور کھڑا اسے گاڑی میں گھر جانے کے آفر نما اشارے کر رہا تھا کہ ایک تیز ہارن نے اسے بے اختیار خود میں سمٹنے اور متوجہ ہونے پر مجبور کر دیا. کالے رنگ کے ہیلمٹ میں موٹر بائیک پر سوار لڑکا اس کے قریب زور دار ہارن بجا کر رکا اور ہیلمٹ اتار کر مسکرانے لگا.
اسے دیکھ کر وہ چیخ ہی تو پڑی
بھیا تووووو
چل موٹی بیٹھ، نئی بائیک لی ہے. اماں کو بھی نہیں بتایا، بس تجھے لینے آ گیا ہوں. دونوں اکٹھے جائیں گے تو ماں خوش ہوگی.
وہ حیرت و خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گئی.
گھر پہنچے تو ماں نے ڈھیروں دعائیں دیں. بھائی نے سامنے لٹکا ہوا شاپر ماں کو تھما دیا اور ساتھ سفید کاغذ میں لپٹے کچھ پیسے، ماں نے گنے بغیر وہ پیسے رکھ لیے، گویا بھائی کی جاب لگنے اور بائیک خریدنے کا ماں کو پہلے ہی پتہ تھا، بس وہی انجان تھی. مجھے تو اس گھر میں کوئی اپنا سمجھتا ہی نہیں. مزید بدگمان ہونے کا ارادہ تھا مگر بھائی کی جیب سے نکلتی ڈبیا نے اسے چونکایا، اگلے ہی پل ایک خوبصورت واچ اس کے سامنے تھی. خوشی سے چیختے ہوئے اس نے بھائی کی طرف ایک قدم بڑھایا مگر بھائی اچھل کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا، نہ نہ پہلے سارے برتن دھو، پھر میرے لیے چائے بنا، پھر یہ واچ تیری.
بھیا بعد میں دھوؤں گی نا، ابھی دکھا تو سہی.
مگر جواب ندارد اور وہ پاؤں پٹختی کچن کی سمت بڑھ گئی.
برتن دھو کر چائے چولہے پر چڑھائی ہی تھی کہ پڑوسن نے درمیانی دیوار پر چڑھ کر ہانک لگائی، اے بی بی تیرا فون آیا ہے.
وہ سرپٹ بھاگی، نہ چائے کا ہوش رہا نہ جلتے چولہے کا، فون بند ہوچکا تھا، اس کے پہنچتے ہی دوبارہ کال آئی.
ہیلو:
طویل سانس کے ساتھ اس کی ہیلو کا جواب دیا گیا.
وہ میرا بھائی تھا، اس نے بائیک لے لی ہے، وہ محتاط انداز میں ایک غیر کو اپنے ماں جائے کی صفائی پیش کر رہی تھی. جوابا ایک جاندار قہقہہ گونجا.
کتنی معصوم سی ہو تم، اپنا نام ہی بتا دو آج.
ہاں جی! میں ہانیہ بات کر رہی ہوں، پھر محتاط ذومعنی انداز،
نجانے یہ ظالم سماج کب ہٹے ہمارے بیچ سے، خوبصورت نام والی خوبصورت ملکہ، قہقہہ.
اس نے فون بند کر دیا.
سر سے منوں بوجھ اتر گیا.
وہ بدگمان ہو جاتا تو؟
اس کے بعد تو اس کی دنیا ویران تھی.
انھی خیالوں میں گھر پہنچی تو اماں اس کے لیے لائی گئی واچ اپنے بازو پر سجائے مسکرا رہی تھیں، چائے کے خالی دو کپ تپائی پر دھرے تھے، اس نے جھپٹ کر واچ ماں کے بازو سے اتار لی. بھیا تو بھی ناں ?
دونوں ہنسنے لگے، گویا اس کی اس حرکت کا پہلے سے علم تھا.
وہ بھی مسکرا دی.
دن پر دن گزرتے رہے. مہران والے سے ملنے کی خواہش زور پکڑتی گئی مگر ایک تو جس روز وہ اکیلے آتی جاتی، مہران والا نہ پہنچ پاتا، دوسرے اس نے کالج میں بہت ہی خوفناک واقعات سنے تھے، اس لیے وہ ملنے سے ازحد خوفزدہ ہو جاتی. وہ دبے لفظوں میں رشتہ بھیجنے اور شادی کر کے ملنے پر اصرار کرتی مگر وہ جھنجھلا جاتا، غصہ کرتا، دو چار دن خفا رہتا اور پھر واپس آ جاتا. ہانیہ اس کی خفگی محسوس کرتی، بوکھلائی رہتی اور اگلے کتنے دن شادی کی بات نہ کرتی. اس کی پڑوسن اب اس کی ہمراز تھی. جب وہ فون پر بات کرتی تو وہ اپنی اماں کو باتوں میں لگائے رکھتی، پھر وہ دیر تک اس کی باتیں اس سے دہراتی اور دونوں قل قل ہنستی تھیں.
یہ غالباً اس کے چودھویں کے امتحانات سے چند دن پہلے کی بات ہے کہ اس نے اپنے دروازے پر ایک کھٹارا سی گاڑی کھڑی دیکھی، دھک دھک کرتے دل کے ساتھ اس نے گھر میں قدم رکھا تو کچھ چہل پہل محسوس ہوئی. ماں لپک کر آئی اور بولی، جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر آ جا، کچھ خاص مہمان آئے ہیں، زیادہ زبان مت کھولنا. ماں کھسر پھسر انداز میں کچھ نصیحت کرتی چلی گئی. مگر اس کا ذہن اب تک باہر کھڑی کھٹارا گاڑی میں اٹکا تھا. تو کیا مہران والے نے بالآخر اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہوئے رشتہ بھیج ہی دیا. مسکراہٹ آپ ہی آپ اس کے انگ انگ سے پھوٹنے لگی.
اچھے سے منہ ہاتھ دھو کر سر پر دوپٹہ جمائے وہ آہستگی سے اس کمرے میں داخل ہوئی جو مہمان آنے کی صورت میں ڈرائنگ روم اور بارش آنے کی صورت میں سٹور روم کبھی ٹی وی لاؤنج اور نجانے کتنے کام دیتا تھا. چار مرلے کے اس گھر میں داخلی گیٹ کے بائیں سمت واش روم، اسی کی دیوار کے ساتھ واش بیسن تھا، دائیں طرف کچھ پودے اور بیل لگی ہوئی تھی. بھائی کی سائیکل کے بعد سب سے زیادہ نفرت اسے اس بیل اور ان پودوں سے تھی کیونکہ وقت بے وقت صحن میں ان کے پتوں کی وجہ سے جھاڑو لگانا پڑتی تھی. اسی سائیڈ سے اوپر چھت کی طرف سیڑھیاں جاتی تھیں. چھوٹا سا صحن ختم ہوتے ہی باریک سا برآمدہ تھا. وہیں ماں کا تخت تھا جس پر ہر وقت جائے نماز بچھا رہتا تھا.
اس سے آگے ایک کمرہ تھا جو بیک وقت بہت سے رول ادا کرتا تھا. بارش تیز ہو تو برآمدے میں کھڑی چارپائیوں کے لیے سٹور. بھائی کے دوستوں کی دعوت ہو تو صوفے درمیان میں لگا کر ڈرائنگ روم، کوئی رشتہ دار آ جائے تو صوفے گھسٹ کے سائیڈ پر کر کے چارپائی لگا دو تو انیکسی یا مہان خانہ. اسی کمرے سے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے کمرے تھے، ایک میں وہ اور اس کی اماں اور دوسرے پر بقول اس کے بھائی کا قبضہ تھا.
تو اس وقت مہمان درمیانی کمرے میں ڈرائنگ روم میں میزبانی کا لطف اٹھا رہے تھے. اپنی سوچ پر اسے ہنسی آئی.
ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے. دونوں عام سی جاہل سی خواتین نے اسے فوراً پسند کر لیا.
وہ خوبصورت تو تھی مگر بہت خوبصورت نہ تھی.
مہمان کچھ دیر بیٹھے اور چلے گئے تھے.
اگلے دن سے مہران والے کی کال کا وہ بےصبری سے انتظار کرتی رہی. پڑوسن کو اس کے رشتہ بھیجنے کے بابت بھی بتایا.
سب کچھ بہت خوبصورت تھا سوائے شاہ زیب کی خاموشی کے. نہ تو وہ اسے نظر آ رہا تھا نہ اس کا فون آیا تھا.
البتہ مہمان ہفتے میں دو چکر لگا گئے تھے.
سب کچھ بہت تیزی سے طے پایا اور اس کی انگلی میں مہران والے کی انگوٹھی جگمگانے لگی. آخری پیپر سے تین دن بعد اس کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی. وہ خوش بھی تھی مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مضطرب بھی کہ جب سے شاہ زیب نے رشتہ بھیجا تھا، اس نے کال کی نہ اس کے راستے میں آیا. وہ دل ہی دل میں خفا ہوتی، پھر خود ہی مان جاتی، سو دلیلوں سے خود کو سمجھاتی، کبھی اس کو اس کی طرف سے ایڈونچر سمجھ کر ہنستی، کبھی اندیشے ستانے لگتے. اس کی رازداں صرف پڑوسن تھی جو کہ اسے تسلی دیتی، فلموں کی سٹوریاں سناتی اور بتاتی کہ آج کل کے لڑکے ایسے ہی عجیب ہیں. کبھی اپنی اماں سے چھپ کر کال ملاتی، پھر بند کر دیتی کہ تیرا ہونے والا سسرال ہے، اتنی اتاولی نہ ہو. اسی شش و پنج میں اس نے امتحان دیے، آخری پیپر دے کر جب وہ باہر نکلی تو اسے لگا جیسے قدرت اس پر جی بھر کے مہربان ہو گئی ہے. مہران والا اس کے سامنے کھڑا تھا، مہران کے بجائے ایک کھٹارا سی موٹر سائیکل پر پسینے میں بھیگا ہوا نحیف سا، ہانیہ کے دل کو دھچکا لگا. مہران کے بغیر وہ اتنا دلکش نہیں لگ رہا تھا مگر اپنے ہونے والے شوہر کو بدشکل کہنا بھی مناسب نہیں. اؤں ہوں، اس نے دل میں خود کو سرزنش کی، اور مسکرا کر اس کی طرف دیکھنے لگی. امید تھی کہ اب تو وہ اس کی طرف آئےگا مگر ہنوز وہ اسے بائیک پر بیٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا.
اب اسے کوئی خوف نہ تھا، وہ پورے استحقاق کے ساتھ اس کی بائیک پر بیٹھ گئی.
شاہ زیب کو تو گویا یقین ہی نہیں آ رہا تھا، اس کے اعتماد پر وہ بوکھلا گیا، اس کے بیٹھتے ہی فراٹے سے بائیک اڑانے لگا. بائیک تیزی سے اک سڑک پر فراٹے بھرنے لگی. دونوں طرف مکمل خاموشی تھی.
بائیک کچھ آہستہ ہوئی، شاہ زیب کچھ بات کرو گے یا یونہی چپ رہو گے، اس نے بالآخر خود کہہ دیا. ایک جھٹکے سے بائیک رکی. شاہ زیب؟
یہ کون ہے ؟ اس نے بیٹھے بیٹھےگردن موڑ کر پوچھا. مذاق نہیں کرو، شاہ زیب تم ہو اور کون ہے؟
بائیک پھر سٹارٹ ہوئی اور تیز رفتاری سے چلنے لگی. اس نے اب کے پہلی بار اس کی خاموشی کو نوٹ کیا، رستوں کو غور سے دیکھنے پر پتہ چلا کہ وہ بھٹک گئی ہے. اندر کہیں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی تھیں. اس نے بلند آواز میں پوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں شاہ زیب؟
بکواس بند کرو، شور کرو گی تو یہیں تمہارا چہرہ تیزاب پھینک کر جلا دوں گا. کم بخت سال بھر سے کتے کی طرح پیچھے لگا رکھا ہے، چار دن تھانے کیا گیا، تیری ہوا بدل گئی. تو کسی شاہ زیب کے ساتھ پینگیں بڑھانے لگی. آج تجھے بےوفائی کی سزا ملے گی. تیز رفتار بائیک سنسان راستے پر دھول اڑا رہی تھی. وہ چیخنا چاہتی تھی مگر اسے احساس ہوا کہ وہ تو شاید بول بھی نہیں سکتی. بائیک تیزی سے اڑ رہی تھی. وہ تیز رفتاری سے اونچے نیچے راستوں پر جا رہا تھا. بائیک اب گلیوں میں درمیانی رفتار سے چل رہی تھی کہ ایک موڑ پر اچانک ایک بچہ بائیک کے سامنے آ گیا. بریک لگانے کی کوشش میں اس نے ایک جھٹکا دیا اور ہانیہ منہ کے بل زمین پر گر گئی. قریب گھر سے کوئی تیزی سے باہر آ رہا تھا. شاید بچے کو کچھ چوٹ لگی تھی، اس نے تیزی سے بائیک سیدھی کی، اس سے کہیں تیزی سے ہانیہ بھاگ کر ایک گھر میں داخل ہو گئی.
ہانپتے ہوئے اس نے اس گھر میں موجود افراد کو اس کا بتایا، پر اب باہر کوئی نہ تھا. اسے کچھ چوٹیں آئی تھیں مگر خوف ہر شے سے سوا تھا.
وہ گھر والے بےحد شفیق لوگ تھے، وہ کچھ گھنٹے وہیں چھپی رہی، اندھیرا پھیل رہا تھا. بی اماں نے اپنے ادھیڑ عمر بیٹے اور نواسے کو باہر بھیجا مگر کہیں کوئی خطرہ نظر نہ آیا، وہ بزدل بھاگ چکا تھا.
چلو آؤ بیٹا! تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں، ادھیڑ عمر شخص نے شفقت سے کہا. وہ سہمی ہوئی تھی مگر اس سے پہلے کہ یہ رات کا اندھیرا اس کے مقدر پر سیاہی پھیر دے، اسے اپنے گھر واپس جانا تھا. اسی چار مرلہ ڈبے نما گھر میں جس سے اسے نفرت تھی. وہ چپ چاپ بیٹھی، اماں کی چادر اوڑھ کر چہرہ چھپا کر باہر نکل آئی. ادھیڑ عمر شخص سائیکل پر سوار تھا. ٹپ ٹپ ٹپ کئی آنسو گرے.
وہ سائیکل پر بیٹھ گئی، پینتالیس منٹ لگے. اسے واپس گھر پہنچنے میں.
گھر کے دروازے پر ہی اس کا بھائی تیزی سے باہر نکلتا ہوا مل گیا. بےاختیار اس نے ہانیہ کو اپنی آغوش میں لے لیا. بھائی کے کاندھے پر سر رکھے وہ بلک بلک کر رونے لگی. تحفظ کسے کہتے ہیں، آج احساس ہوا. وہ اسے ساتھ لگائے لگائے اسی باریک برآمدے سے ہوتا ہوا ڈرائنگ روم میں داخل ہوا. شفیق سے انکل سے بھی اسے ساتھ لگائے لگائے ہاتھ ملایا اور اندر آنے کو کہا.
اماں اسے دیکھ کر تیزی سے آئیں، میری بچی کہاں رہ گئی تھی تو اس نے سر اٹھا کر بولنے کی کوشش کی کہ شفیق انکل بول پڑے. بھابھی یہ ہانیہ اور میری چھوٹی بیٹی اکٹھے پڑھتے ہیں. آج کالج سے نکلتے ہی ایک بائیک والا ٹکر مار کر بھاگ گیا. بےچاری بےہوش ہوگئی. چھوٹی کو تو اس کے گھر تک کا علم نہیں تھا، نہ کوئی فون نمبر، یہ اب ہوش میں آئی ہے تو میں اسے لے کر آگیا ہوں. ماں کا دھیان پہلی بار اسے ہاتھ پر لگی خراشوں پر گیا. ماں صدقے جائے، یااللہ تیرا شکر ہے.
اے موٹی! اب بوجھ اٹھا بھی لے، کب سے من بھر کا سر ٹکایا ہوا ہے میرے پر. بھائی کے اے موٹی میں چھپی محبت آج پہلی بار بڑی شدت سے محسوس ہوئی. وہ دوبارہ رونے لگی. خبردار! اب ناک میرے نئے قمیض سے صاف کی تو، وہ پھر بولا، شاید وہ اسے بہلانا چاہ رہا تھا.
ہانیہ کا بس چلتا تو تمام عمر اسی مہربان کندھے سے لگے گزار دیتی. اسے بچپن سے اب تک کے بےشمار واقعات یاد آ رہے تھے. آج پہلی بار اس نے بھیا کی سائیکل کو مس کیا جو اب بھی بھیا نے بیچی نہیں تھی بلکہ وہ مستقل باریک برآمدے کی زینت تھی. وہ بچپن سے اس کا سایہ بنا ہوا تھا. بھیا، وہ اور سائیکل بچپن کی کوئی یاد اس تکون کے بغیر مکمل نہیں ہورہی تھی. چھوٹی تین پہیوں والی سائیکل وہ اور بھائی. تھوڑی بڑی سائیکل وہ اور بھائی، عمر کے ساتھ ساتھ سائیکل کا سائز بدلتا رہتا مگر تکون کبھی نہیں ٹوٹی.
کٹھن وقت گزر گیا تین دن بعد اس کی شادی تھی.
وہ سنبھلنے کی کوشش میں بکھر بکھر جاتی. اس سانحہ میں اس کا ہمراز کوئی نہ تھا.
وہ اپنے چہرے کے نقوش کو چھوتی کہ کان میں پھنکار جیسی آواز آتی، اگر شور کیا تو تیزاب پھینک کر تیرا چہرہ جلا دوں گا.
اس کی شادی کا دن آن پہنچا تھا مگر چاہ کر بھی وہ شاہ زیب کے لیے کوئی محبت یا خیال سجا نہیں پا رہی تھی.
بھیا نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر اس کی شادی پر خرچ کیا.
رخصتی کے وقت قریب تھا، اس کا بھائی سٹیج پر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا. وہ رونے لگی. ضبط مشکل تھا بالآخر اس نے آہستگی سے کہا، بھیا مجھے کالج کے باہر بائیک نہیں لگی تھی اور نہ ہی میں بے ہوش ہوئی تھی.
ہانیہ ( زندگی میں پہلی بار اس کے بھائی نے اس کا نام پکارا تھا، اس نے سر اٹھا کر دیکھا، وہ اسی کی طرف متوجہ تھا.)
میری بات غور سے سنو! بھیا کی آواز میں کچھ تھا کہ وہ چونک پڑی. تم کالج کے باہر بائیک لگنے کی وجہ سے ہسپتال میں رات تک بیہوش رہی، وہ انکل تمہاری دوست کے والد ہیں. اس نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا. کبھی بھول کر بھی اپنے شوہر کو یہ مت بتانا کہ اس کے دھوکے میں تم کسی اور کی بائیک پر بیٹھ گئی تھیں. مرد کے لیے سب سے بڑی سرخروئی اس کی بیوی بہن بیٹی کی وفا ہوتی ہے. مجھے نادیہ (پڑوسن) نے سب بتا دیا تھا. جب تم لیٹ ہوئیں تو اس نے اس کے گھر آنے والی کال اور تمہاری غلط فہمی کا سب حال کہہ دیا تھا. وہ تو اسی وقت ٹریس ہوگیا تھا، اب وہ جیل میں بند ہے مگر تمہارا پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کہاں گئی. نہ وہ زبان کھول رہا تھا. اتنے میں تم خود اس انکل کے ساتھ آ گئیں. خاموش، سرسراتی آواز.
یہ بات بس ہم دونوں میں ہی دفن ہو جانی چاہیے.
چلو اب مسکراؤ، سب دیکھ رہے ہیں وہ بدقت مسکرائی. بھائی کے پراعتماد حصار اور ماں کی دعاؤں کے ساتھ وہ اس گھر سے رخصت ہو رہی تھی، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ آنگن میں لگی بیل اور برآمدے میں کھڑے سائیکل سے لپٹ کر روئے. بہرحال یہ گھڑیاں ہر لڑکی کی زندگی میں کٹھن ترین ہوتی ہیں. گھر سے باہر قدم رکھتے ہی اس نے قدرے سر جھکا لیا مگر یہ کیا جھکا سر ایک جھٹکے سے اوپر ہوا. اس کا خوبصورت شوہر سنجیدگی سے اس کے لیے کار کا دروازہ کھول کر کھڑا تھا. نئی نکور پھولوں سے سجی میرون مہران کا دروازہ ..........
گاڑیوں کا شوروم، آٹو الیکڑیشن کا کام، سادہ عورتیں، سب اس کے ذہن میں گھوم رہا تھا.
اچھا تو مس ہانیہ عباد الرحمن میرون مہران کے ساتھ آپ اور بہت سی گاڑیوں کے مالک کی شریک حیات بننے والی تھیں. سب خواہشات ایک مقرر وقت پر پوری ہونے والی تھیں. آپ نے تو بس صبر اور انتظار کرنا تھا. جو آپ نہ کرسکیں. وہ رب کتنا غفور الرحیم ہے اس نے پھر بھی تمھارے حصے کی خوشی تمھارے لیے ہی سنبھال رکھی.
اس پر کتنی محبتوں کا قرض تھا
اس پر کتنے شکرانے واجب تھے
دل ہی دل میں حساب لگاتی وہ شاید زندگی میں پہلی بار پورے اعتماد کے ساتھ مسکرائی تھی.

Comments

Click here to post a comment