ہوم << غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل - ناصر محمود

غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل - ناصر محمود

ناصر محمودآج کل ہمارے خطے کے زیادہ تر نوجوان یورپ کے خواب آنکھوں میں سجائے عمرِ رفتہ کی منازل طے کرتے ہیں۔ کسی کو اپنی ساری پریشانیوں کا حل یورپ میں نظر آتا ہے تو کوئی یہاں کی چکا چوند سے مرعوب ہے۔ کسی کو پیسے کی ضرب تقسیم چین نہیں لینے دیتی تو کوئی آزاد طرزِ زندگی کا دلدادہ ہے۔ اب چونکہ یورپ کا کوئی بھی ملک، عربوں کی طرح، اپنا ویزا نہیں بیچتا تو خواہش مند افراد یقینی طور پر غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جن میں ڈنکی (پیدل اور کشتیوں پر سرحدیں عبور کرنے والوں کے لیئے استعمال ہونے والی عمومی اصطلاح) سب زیادہ معروف اور سستا طریقہ ہے۔ کچھ سیاحتی ویزے پر واپس ناں جانے کی نیت سے سفر کرتے ہیں تو کچھ اور تعلیمی ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ان کا تعلیم حاصل کرنے یا جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس طرح کے سپنے بننے والوں کا مطمع نظر یورپ کی روشنیاں، رنگینیاں اور دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور کسی موڑ پر بھی یہاں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میں ناں تو سوچا جاتا ہے اور ناں ہی کسی سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ اور نتیجے میں عمومی طور پر، جانے انجانے میں، دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اذیت کا سامان کر لیا جاتا ہے۔
ڈنکی لگانے والے بلوچستان سے ایران میں داخل ہوتے ہیں اور ایران سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ ترکی کو ہی منزل بنا کر کام میں جت جاتے ہیں تو باقی سمندر کے راستے یونان کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے اپنے حالات اور رجحان کے مطابق دوسرے ملکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ سارا سفر بنا کسی بھی طرح کی دستاویزات کے کیا جاتا ہے اور نہایت ہی دردناک اور دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ چونکہ غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کی جاتی ہیں تو لازمی طور پر جنگلوں اور ویرانوں کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں تمام لوگ ایجنٹ کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔ کبھی ایک گھونٹ پانی کی قیمت ہزاروں میں طلب کی جاتی ہے تو کبھی پیچھے رہ جانے پر ڈنڈوں سے عزت افزائی ہوتی ہے۔ کہیں گاڑی میں گندم کی بوریوں کی طرح اوپر نیچے لٹایا جاتا ہے تو کبھی سنگلاخ پہاڑوں اور کانٹوں بھری زمین پر بنا آواز کیئے دوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور اس دوران اگر کوئی بدقسمت کسی ناگہانی آفت کا شکار بن جائے تو لاش کھلے آسمان تلے جنگلی جانوروں کی لیئے چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایجنٹ کے لیئے یہ لوگ صرف ایک "پارسل" کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے ناں تو جذبات ہوتے ہیں اور ناں ہی احساسات۔ جہاں کہیں ایجنٹ کو خطرہ محسوس ہو وہ پارسل کو چارہ بنا کر خود نکل جاتا ہے پھر چاہے پارسل آدم خور گدھوں کے ہتھے ہی کیوں ناں چڑھ جائے۔ یہ ساری مشقتیں یہ سوچ کر برداشت کر لی جاتی ہیں کہ یورپ پہنچتے ہی ساری تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا لیکن جب خواب ٹوٹتا ہے تو اس وقت تک کشتیاں جل چکی ہوتی ہیں۔ جب یہ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو کفِ افسوس ملتے ہیں اور اپنے ملک کی جو زندگی بے کار نظر آتی تھی وہی شاہانہ روپ اختیار کر لیتی ہے۔ جن گلیوں سے گذرنا توہین خیال کیا جاتا تھا وہی نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ جن رشتوں کو درخوئے اعتنا نہیں سمھجا جاتا تھا انہیں کی یاد دل میں کسک بن کر چبھتی ہے اور اوپر سے یورپ میں پہلے سے بسے اپنوں کی سرد مہری، بے اعتنائی اور مطلب پرستانہ مزاج مل کر انسان کو بہت تھوڑے عرصے میں جذبات اور احساسات سے عاری کر کے ایک مشین کا روپ دے دیتا ہے جس کا انتہائی مقصد پیسہ ہوتا ہے پھر چاہے وہ کسی بھی طریقے سے آئے۔
مختلف یورپی ممالک تارکینِ وطن کے ساتھ مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کچھ اپنے ملک میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ دے کر کماؤ اور کھاؤ کی بنیاد پر چلتا کر دیتے ہیں تو کچھ رہائش کا انتظام بھی کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو رہائش، کھانا اور دوا کے ساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر اچھا خاصا جیب بھی دیتے ہیں۔ جرمنی بھی انہیں چند ملکوں میں سے ہے جو اپنے ملک میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کی مکمل کفالت کرتا ہے اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ ماہانہ جیب خرچ بھی دیتا ہے۔ یہاں پر تارکینِ وطن کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جن کی جان کو یقینی طور پر خطرہ ہوتا ہے جیسے کہ جنگ میں مبتلا ملکوں کے باشندے اور دوسرے وہ جو ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں جنگ وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جیسے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلادیش وغیرہ۔ پہلی قسم کے لوگوں کو چونکہ آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کے لیئے باقاعدہ طور پر سرحدیں کھولی جاتی ہیں تو ان کو حکومت ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور ابتدائی چند ماہ کے بعد ان کو باقاعدہ طور اس شرط کے ساتھ ویزا جاری کر دیا جاتا ہے کہ جب ان کے ملکی حالات درست ہو جائیں گے تو یہ لوگ واپس چلے جائیں گے۔ اس دوران ان کی مکمل کفالت کا انتظام کیا جاتا ہے، خاندان کے افراد کے حساب سے گھر دیئے جاتے ہیں، ہر فرد کا ماہانہ خرچ دیا جاتا ہے اور زبان سیکھا کر قابلیت کے اعتبار سے ملازمت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ چند سال بعد قابل لوگ چونکہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن جاتے ہیں تو چند نہایت معمولی شرائط کی بنیاد پر ان کو شہریت لینے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔
اور دوسری قسم کے افراد چونکہ ذاتی وجوہات کی بنا ہر ملک چھوڑتے ہیں تو ان کی پناہ کی درخواست پر غور و فکر کرنے لے لیئے ان کو مختصر مختصر وقفوں کے اجازت نامے جاری کیئے جاتے ہیں اور اس دوران ان کی کفالت بھی حکومت ہی کرتی ہے۔ ابتدائی چھ ماہ ان کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جس کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ عدالت میں ان سے آنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے جس کے جواب میں ننانوے فیصد جھوٹ بولا جاتا ہے جس میں عموما اپنے ملک اور مذہب کا چہرہ مسخ کر کے دیکھایا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر ویزا کے لیئے اپیل کی جاتی ہے۔ اس دوران چونکہ کفالت کی مکمل ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے تو ان کو قانونی طور پر کسی بھی طرح کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور پھر یہاں سے ظلم، بربریت اور ذلت کا ایسا دور شروع ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
غیر قانونی تارکینِ وطن (حصہ دوم)
جو افراد ذاتی وجوہات کی بنا پر ان ملکوں سے آتے ہیں جہاں عمومی طور پر جمہوریت اور امن ہوتا ہے۔ ان کے لیئے پناہ کا طریقہ کار کچھ مختلف ہوتا ہے۔ یورپی اتحاد میں پناہ کی درخواست کا ٖفیصلہ جس قانون کے تحت کیا جاتا ہے وہ "ڈبلن ریگولیشن" کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی بنیاد تو جون ۱۹۹۰ میں رکھی گئی لیکن باقاعدہ عمل سیتمبر ۱۹۹۷ سے شروع ہوا۔ اس قانون کے تحت دنیا کے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان کا خطرہ ہونے کی صورت میں یورپی اتحاد کے کسی بھی ملک میں پناہ کی درخواست دائر سکتا ہے۔ اور بیان کی گئی وجوہات کی تصدیق ہونے پر نہ صرف یہ کہ باعزت طریقے سے سکونت کی اجازت دے دی جاتی ہے بلکہ صلاحیت، قابلیت اور دلچسپی کی بنیاد پر مناسب روزگار کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ پناہ کی درخواست کا طریقہ کار انتہائی سادہ اور آسان ہےجس کے مطابق پناہ کے متلاشی کو ملک میں داخل ہونے کے فوری بعد حکومتی نمائندوں جیسے پولیس وغیرہ کے پاس جانا ہوتا ہے اور متعلقہ اشخاص چند بنیادی سوالات اور اندراج کے بعد اس شخص کو قریب ترین واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں بھیج دیتے ہیں جہاں اس کو نہ صرف یہ کہ رہائش دی جاتی ہے بلکہ کھانے پینے کے ساتھ صحت کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ چند دنوں میں طبی معائنے کے بعد ان کو مرکزی کیمپ میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور وہاں ان سے باقاعدہ طور پناہ کی درخواست دلوائی جاتی ہے جس کی مکمل رہنمائی حکومتی نمائندے کرتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ترجمان کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ عموما ابتدائی تین سے چھ ماہ مختلف کیمپوں میں رکھا جاتا ہے (آجکل چونکہ پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد جرمنی آرہی ہے تو اکثر لوگوں کو اس سے زیادہ وقت بھی گزارنا پڑ جاتا ہے) اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ کھانا پکانے کی سہولت موجود ہوتی ہے بلکہ پرائویسی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ کیمپوں کے اندر بنیادی مسئلہ کھانے کا ہوتا ہے کہ وہاں حلال کھانے کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ ہر کیمپ میں باقاعدہ طور پر رہائشیوں کو بتایا جاتا ہے کہ گوشت حلال نہیں ہے لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اکثریت اس کو بڑی رغبت سے کھاتی ہے۔ چونکہ درخواست کی سماعت کی باری عموما کئی سالوں میں آتی ہے تو اس دوران حکومت رہائش اور کھانے پینے کے علاوہ دیگر ضروریات کے لیے ہر ماہ نقد رقم بھی ادا کرتی ہے۔
سماعت کی باری آنے پر متعلقہ شخص کو عدالت میں طلب کیا جاتا جہاں ترجمان کے ذریعے اس سے بیالیس سوال کیئے جاتے ہیں جن کا لبِ لباب ذاتی شناخت اور پناہ کی درخواست کی وجہ جاننا ہوتا ہے۔ چونکہ پناہ کی درخواست صرف اسی صورت میں قبول کی جاتی ہے جب جان کو خطرہ ہو تو اس مقام پر عموما جھوٹی کہانیاں سنائی جاتیں ہیں جن کی بنیاد زیادہ تر مذہب اور ریاست کو بنایا جاتا ہے۔ کثرت کے ساتھ جو چند وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں طالبان کی طرف سے دہشت گرد بننے پر اصرار، حکومتی خفیہ اداروں کی طرف سے خود کش بمبار بننے پر مجبور کیا جانا، اور علماء کی طرف سے جہاد پر جانے کے لیئے مجبور کرنا شامل ہیں۔ بہت سارے لوگ مذہبی تنظیموں جیسے کہ جماعۃ الدعوہ وغیرہ کی طرف سے شدت پسندی پر مجبور کیئے جانے کو بنیاد بناتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے لال مسجد کو کیش کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کا کبھی پولیس یا فوج سے تعلق رہا ہو تو وہ عموما یہ بیان دیتے ہیں کہ چونکہ لال مسجد کے واقعہ میں ہم حکومت کے حمایتی تھے تو اب "مولوی" ہمارے دشمن بن چکے ہیں اور سزا کے طور پر ہمیں زندگی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے بیان دیتے ہوئے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہے کہ ان کا ملکی کردار پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ اگر سوچا جاتا ہے تو صرف یہ کہ وہ کونسا ایسا بیان ہے جو ان کے حق میں بہتر ہو گا پھر چاہے وطن کی عزت کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑانی پڑیں۔
چونکہ زیادہ تر بیانات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست رد کیئے جانے کے واضح امکانات ہوتے ہیں تو ہر کوئی چور راستوں کی تلاش میں رہتا ہے جن میں سب سے مختصر جرمن بچے کا باپ بننا ہوتا ہے۔ جرمنی چونکہ بچے کی پیدائش پر ویزا جاری کرتا ہے تو حتی المقدور ہر کوئی اسی کوشش میں لگا رہتا ہے اور عموما پہلا بچہ بنا شادی یا نکاح کے پیدا کیا جاتا ہے کہ یورپی لڑکیاں شادی کے لیئے بہت "بعد" میں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد پائی جاتی ہے جو اسی طرح کا بچہ پیدا کر کے ویزا لینے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اب یہ نہیں جانتے کہ وہ بچہ کہاں ہے۔ کیوں کہ جرمن خواتین صرف ان لوگوں کے ساتھ ٹکتی ہیں جو کچھ کما رہا ہو نہ کہ وہ جو خود بھی انہیں کے سہارے بیٹھا ہو۔
اس دوران ان لوگوں کو چونکہ پیسہ بھی کمانا ہوتا ہے تو یہ کام کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ جرمن ادارے قانونی کاروائی پوری کیئے بنا کسی کو بھی کام پر نہیں رکھتے اور ان لوگوں کو عموما کام کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ لینی پڑتی ہے اور اجازت ملنے کے بعد جب کام مل جائے تو حکومتی امداد بند کر دی جاتی ہے کہ اب خود کمانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ جو اگرچہ مستقبل میں قانونی اعتبار سے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن چونکہ فی الفور حکومتی امداد سے ہاتھ دھونے کا خوف ہوتا ہے تو چوری چھپے کام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جو زیادہ تر پیزا اور برگر وغیرہ کی پاکستانی، ترکش اور انڈین دکانوں میں ملتا ہے۔ جرمن قانون کے مطابق قانونی طور پر کام کی صورت میں ایک گھنٹے کی کم از کم اجرت آٹھ یورو اور پچاس سنیٹ دینا ضروری ہے جو پاکستانی تقریبا ۹۹۰ روپے بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کام دینے والے کو ملازم کا ٹیکس اور ہیلتھ انشورنس کا کچھ حصہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے جو کہ ہمارے لوگوں پر کارِ گراں گزرتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو قانونی طور پر کام نہ کرنا چاہتے ہوں۔ اور جن سے کام تو دوگنا لے سکیں لیکن اجرت ناں ہونے کے برابر دینی پڑے۔ نئے آنے والوں کو مختلف طریقوں سے یہ جتلا دیا جاتا ہے کہ ویزا لینے کے لیئے بچہ ضروری ہے اور عقل مندی چوری چھپے کام کرنے میں ہے اور پھر ان لوگوں کو کام پر رکھ کر گدھوں کی طرح ہانکا جاتا ہے اور مزدوری کے نام پر چند ٹکے ہاتھ پر رکھ دیئے جاتے ہیں اور یہ مزدور چونکہ حکومت کے زیرِ کفالت ہوتے ہیں اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ حکومت سے ماہانہ اچھی خاصی نقد رقم بھی وصول کر رہے ہوتے ہیں تو جمع تفریق کر کے اپنوں کے ظلم پر راضی ہو جاتے ہیں۔ اور پھر دوسرے مقصد کے طور پر ہر گذرنے والی لڑکی کو چلتے پھرتے ویزے کی شکل میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب پیسے گھر بھیجنے کی باری آتی ہے تو قانون کی ںظروں سے بچنے کے لیئے ھنڈی اور حوالے کا سہارا لیا جاتا ہے جو بذاتِ خود انتہائی قبیح اور ممنوع عمل ہے اور کسی بھی ملک کی بنیادیں ہلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ گویا اپنے ملک سے نکل کر یورپ آنے اور کام کرنے سے گھر پیسے بھیجنے تک ہر قدم پر قانون اور ملکی وقار کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے اور اپنے عہد کو پورا کرو کہ بیشک عہد کے بارے میں (قیامت کے روز) پوچھا جائے گا، کے تحت اللہ کے قوانین کو بھی بے دردی سے روندا جاتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس پہلو پر نہ تو کسی بھی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی شرعی حیثیت واضح کی جاتی ہے۔ جانے انجانے میں نہ تو مذہبی رہنما اس کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی شعوری مہم چلائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے سرحدیں عبور کرنا، جھوٹ کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کرنا اور ھنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کو نہ تو برا سمھجا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بھی درجے میں گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ طرفہ تماشا تو یہ ہے اس کام کے لیئے باقاعدہ طور پر دعا کی جاتی ہے، کامیابی کے لیئے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے، صدقہ اور خیرات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور منتیں مانی جاتی ہیں۔ گویا اللہ کی مخالفت پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے اور جس چیز سے قرآن منع کرتا ہے اس کی کامیابی کے لیئے اسی قرآن کی آیات پڑھی اور پڑھائی جاتیں ہیں۔ جبکہ مذہب کا سیدھا سا اصول ہے کہ ہر وہ دنیاوی قانون اور معاھدہ جو ہمارے ایمان اور ایمانی تقاضوں سے نہ ٹکراتا ہو اس کی پاسداری اور پابندی ہم پر اسی طرح لازم ہے جس طرح دوسرے احکام کی۔ بنا ویزوں کے سرحدیں عبور کرنا جس طرح دنیاوی قانون میں جرم ہے بلکل اسی طرح اللہ کے ہاں بھی گناہ اور جرم ہے۔ اب گناہ تو اللہ کریم توبہ اور استغفار کے تنیجے میں معاف فرما دیتے ہیں لیکن جرم کا تعلق چونکہ انسانوں سے ہوتا ہے تو جب تک متعلقہ افراد سے معاملہ ختم نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ کریم بھی اس میں دخل اندازی نہیں کرتے کہ یہی عدل کا تقاضا بھی ہے۔ اور غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کر کے، غیر قانونی طریقوں سے کام کر کے، اور کام ہونے کے باوجود حکومتی امداد وصول کر کے، جو عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے، ہم کتنے ہی لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اگر ان کو لوٹانا پڑ گیا، جو کہ یقینا لوٹانا پڑے گا، تو سوچیں ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہمارے پاس انتی نیکیاں ہوں گی کہ سب کا حق ادا کرنے کے لیئے کافی ہوں؟ اور یہ حقوق یقینا ادا کرنا پڑیں گے کہ اللہ کا قانون یہی ہے۔ جو خدا جانورں تک کے آپسی جھگڑوں کا ٖفیصلہ عدل کی بنیاد ہر کرے گا وہ انسانوں کے ساتھ کی گئی زیادتی سے کس طرح صرفِ نظر کر سکتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment