ہوم << جاہلیت جدیدہ و جَہلِ خرد - منیر احمد خلیلی

جاہلیت جدیدہ و جَہلِ خرد - منیر احمد خلیلی

منیر خلیلی محمد قطب ؒ نے اپنی ایک کتاب میں بیسویں صدی کی جاہلیت کی تصویر کشی کی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اکیسویں صدی جس جاہلیت کے ساتھ اپنا 16واں سال مکمل کرنے جا رہی ہے وہ گزشتہ صدی سے کہیں زیادہ تاریک اور ہولناک ہے۔ ہم صرف اپنے ملک اور قوم کے منظر نامے پر نظر ڈالیں تو جَہل ِ خرد پوری طرح ظاہر ہے۔ یہ جَہلِ خرد سیکولرزم کے نام سے بھی اپنا آپ دکھا رہا ہے اور لبرلزم کے روپ میں بھی نظر آ رہا ہے۔ فرقہ وارانہ مذہبیت کے لبادے میں بھی ہے اور لبرل اسلامسٹ شکل میں بھی ہم اس کو دیکھتے ہیں۔ سیاست میں جہاں جعلی اور اصلی ڈگریوں کی بھرمار ہے وہاں یہ جَہل و جاہلیت خاص طور پر اپنے رنگ دکھا رہی ہے۔لیکن سیاسی حلقے اور سیکولر اور لبرل بلکہ لبرل اسلامسٹ بھی بڑی ہوشیاری سے مذہبی عناصر کی طرف انگلیاںاٹھا کرجَہل فکری کو صرف ان سے منسوب کر دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مذہبی بنیادوں پر فرقہ پرستی اُمت ِ مسلمہ کابہت بڑا المیہ ہے۔وحدت و اتحاد ِ اُمت کا خواب اس فرقہ پرستی نے شرمندۂ ِ تعبیر نہیں ہونے دیا۔تاتاریوں کے بغداد میں آنے سے لے کر دورِحاضر میں فلسطین، کشمیر ،افغانستان اور عراق و شام میں خون ریزی تک کے سارے سانحات کے پیچھے یہی فرقہ پرستی کارفرما رہی ہے۔ ایک سادہ دل مسلمان جب دیکھتا ہے کہ مسجدیں فرقوں کی آماجگاہیں اور مدرسے نفرت و تعصب کی بارودگاہیں ہیں تو اس کے پاس دو ہی صورتیں ہوتی ہیں۔ایک یہ کہ وہ بھی دِین کی وسعتوں سے نکل کر کسی فرقے کی تنگنائی میں سمٹ آئے یا پھر اس دِین ہی سے ہاتھ اٹھا لے جس میں ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔ جس میں اہلِ ایمان کے مابین محبت و اخوت کے رشتے باقی نہیں اور جس میں وفا اور اطاعت کا حق اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ اور اس کے نبی ؐ سے چھین کر مختلف فرقوں کے سرپرستوں کو منتقل کر دیا گیا ہے۔جہاںاخوت کا تعلق دِین کی اساس پر نہیںبلکہ فرقوں کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔جہاں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ جو اپنے فرقے کا نہیں وہ ہندو سکھ اور یہودی اور عیسائی سے بھی بدتر اور لائق نفرت و حقارت سمجھا جاتا ہے۔
ذراغور کریں تو سماج میں بکھرائو اور منافرتوں کی خاردار زہریلی فصل اگانے میں ہمارے سیاست دانوں کا کردار مذہبی رہنمائوں سے کچھ کم گھنائونا نہیں ہے۔ہوسِ اقتدار کے مارے ہوئے موقع پرست اور ابن الوقت سیاست دان فرقہ پرست مولویوںسے کہیں زیادہ آپس میں بغض و عناد رکھتے اور ایک دوسرے کی تحقیر و تذلیل کرتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ سیاست دان چونکہ موقع پرست اور ابن الوقت ہیں اس لیے وہ بڑی ڈھٹائی سے تکرار کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’اختلاف جمہوریت کا حسن ہے یا سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی یا سیاست میں کل کے دشمن آج دوست بن سکتے ہیں‘۔اور واقعی وہ دوستی کو دشمنی اور دشمنی کو دوستی میں بدلنے میں کمال کی مہارت رکھتے ہیں۔آج مسلم لیگ ن میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کل مشرف کے مقربین میں شامل تھے اور تحریک ِ انصاف میں وہ چہرے کثرت سے ملتے ہیں جو کل پیپلز پارٹی یا قاف لیگ میں اتنے ہی نمایاں تھے ۔یہ جس پارٹی کے اقتدار کے امکانات دیکھتے ہیں، اس میں شامل ہونے میں دیر نہیں کرتے، خواہ ماضی میں انہوں نے اس پارٹی اور اس کے رہنمائوں کے خلاف منہ سے کیسی ہی گندگی اگلی ہو۔ان کے سینے میں دل کے بجائے سِل رکھی ہوتی ہے جس میں احساس کی لہریں نہیں دوڑتیں۔یہ ضمیر کو سیاست میں دخل دینے کی اجازت دیتے ہیں اور نہ شرم و حیا اور غیرت کو۔ذہنوں کی اس ساخت، دلوں کی ان کیفیات اور ضمیر و ایمان کی اس ویرانی و تاریکی میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ کے مختلف گروہ، تحریکِ انصاف اور دیگر کئی پارٹیاں یکساں ہیں۔ان کے لیڈر ان پڑھ نہیں ہیں ۔پیپلز پارٹی کی مقتول رہنما محترمہ بے نظیر ، ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو، عمران خان اور متعدد اور سیاست دانوں نے برطانیہ اور امریکہ کی عالمی شہرت کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ہے لیکن یہ چِٹّے ان پڑھوں سے کہیں بڑھ کر جَہل و جاہلیت کے مظاہرے کرتے ہیں۔بحیثیت لیڈر خواہ ان کے کارکن ان کو اوتار مانتے ہوں لیکن اپنی ذہنیت اپنے رویوں اور اظہارات سے یہ ایک فُٹ پاتھیے کی سطح سے بلند نظر نہیں آتے۔
سوشل میڈیا اس جَہل اور جاہلیت کا اس وقت سب سے بڑا میدان ہے۔اگر فیس بک اور ٹوٹر پر سے صرف تحریکِ انصاف اور مسلم لیگ ن کی سوشل میڈیا ٹیموں کی ایک دوسرے پر اچھالی ہو ئی غلاظت ہٹا دی جائے تو شاید یہ دونوں محاذ بالکل ویران نظر آئیں۔یہ ایک دوسرے پر ہی گندگی نہیں اچھالتے بلکہ ہر وہ شخص جو ان کے لیڈر یا ان کے سیاسی اطوار کی حمایت نہیں کرتا اس پر بھی یہ متعفن چھینٹے پھینکتے ہیں۔کوئی کالم نگار اگر تحریکِ انصاف کے لیڈر پر تنقید کرے تو انہیں مسلم لیگ ن کا چمچہ کہاجاتا ہے اور اگر کوئی مسلم لیگ ن کی پالیسیوں اور طرزِ حکمرانی کا بے لاگ جائزہ لے تو اسے ٹائیگر خون خوار نظروں سے دیکھتے اورچیرے پھاڑے جانے کے مستحق تصور کرتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کالم نگاروں، صحافیوں اور ٹی وی اینکرز میں بھی جیالے، متوالے اور جنونی گھسے ہوئے ہیںاور ان پارٹیوں کے احسانات کا بدلہ ان کے حق میں لکھ اور بول کر چکاتے ہیں۔لیکن ان کے ان پارٹیوں کی قیادت سے کوئی ذاتی مراسم ہوں گے یا وہ کسی نہ کسی انداز میں ان کے زیر بار احسان ہوں گے۔جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے عمران خان سے کوئی پرخاش ہے اور نہ ہی میاں نواز شریف اور ان کے خاندان سے میری کوئی الفت اور چاہت ہے۔ان میں سے کسی کے ساتھ نہ کبھی بالمشافہ ملاقات ہوئی اور نہ ٹیلیفون پر کوئی رابطہ ہے۔اللہ کا احسانِ عظیم ہے کہ ان میں سے کسی سے میری کبھی کوئی غرض اٹکی رہی اور نہ کبھی کسی سے قربت کا تعلق رہا ۔میں ان میں سے کسی کے میڈیا لشکر کا سپاہی بننے کا تصور نہیں کر سکتا۔ کالم نگار برادری میں شاید میں واحد ایسا قلم کار ہوں جس کی مطلعِ سیاست پر چھائی ہوئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں اور گھرانوںکے پہلی دوسری یا تیسری صف کے لیڈروںمیں سے کسی کے ساتھ ذاتی تعلق تو درکنار دور سے دعا سلام بھی نہیں ہے۔مجھے معلوم نہیں کہ جاتی امرا، بنی گالہ ،بلاول ہائوس اور ظہور پیلس کے ڈائننگ ٹیبل کتنے طول و عرض کے ہیں اوران پر صحافیوں، کالم نگاروں، تجزیہ کاروں اور سیاسی برادری کے لوگوں کے لیے ناشتے ، لنچ یا ڈنر کی کتنی ڈشیں سجتی ہیں۔
میری یہ معروضی سوچ ہے کہ عالمی سیاسی منظر نامے پرنریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ جَہل و جاہلیت کی دو بڑی علامتیں ہیں۔ مودی اپنی خونخواری اور تعصب فروشی و فرقہ پرستی کے باوجود اپنے دعوے کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب وزیر اعظم ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے نسل پرست،نفرت پرور،بد دماغ اور ادنیٰ درجے کی ذہانت کے آدمی کو امریکہ پرہمیشہ مسلط رہنے والی دو بڑی پارٹیوں میں سے ایک ری پبلکن پارٹی کے سنجیدہ حلقے صدارتی امیدوار کے طور نامزد گی حاصل کرنے سے روک نہیںسکے۔ شیخ رشید اس وقت پاکستان کے مودی اور ٹرمپ کا کردار ادا کر رہا ہے۔ جَہل کی علامت اور جاہلیت کا وہ ایک جیتا جاگتا اشتہار ہے۔ بد زبان، پوچ فکر اور ہذیان گو شخص میاں نواز شریف کا چہیتا وزیر بھی رہا اور مشرف کی عقیدت کا دم بھی بھرتارہا اور اس کی قربت اور وزارت دونوں کے مزے لوٹتا رہا ہے ۔عمران خان نے لاہور میں نوابوں اور رئیسوں کے بچوں کے لیے مشہور تعلیمی ادارے ایچی سن کالج میں بھی تعلیم پائی اور برطانیہ کی مشہور درسگاہ آکسفورڈ سے بھی فیض پایا لیکن ان اداروں میں تعلیم پانے والے دیگر بہت سے پاکستانی سیاست دانوں اور بیوروکریٹوں اور بزنس مینوں کی طرح جاہلیت اور جَہلِ خرد ان کے ہر طرزِ عمل اور گفتگو سے جھلکتے ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کے زمانے میں جیسی صحبت پائی، اس وقت ان کے کردار سے اس کے اثرات عیاں تھے اور سیاسست میں خاص طور پر 2011 کے بعد انہیں جو صحبت میسر آئی وہ اب اپنا پورے رنگ میں جلوہ گر ہے۔اس صحبت میں انہوں نے یہ سیکھا ہے کہ اصول پسندی اور بلند اخلاقی اقدار کے چکر میں پڑ کر اقتدار سے محرومی میں عمر گزار دینا عقل مندی نہیںہے۔حالیہ دور میں اپنے سیاسی اتالیق شیخ رشید سے انہوں نے تازہ سبق یہ لیا ہے کہ جہل و جاہلیت کے راستے سے اگر اقتدار تک پہنچنا ممکن ہے توبھاڑ میں جائے تہذیب و شائستگی۔منزل اگر وزیر اعظم ہائوس ہے تو CPECاور ملکی ترقی کے ابھرتے ہوئے نشانات ان کی بلا سے۔ ان کو کیا پڑی کہ کشمیریوں پر ٹوٹنے والے مظالم کے غم میں گھلتے رہیں اور بھارت کے جنگی تیاریوں پر فکر مند ہوں۔ وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچنا اگر جاہلیت اختیار کر کے اور جَہلِ خرد کے مظاہرے کر کے ممکن ہے تو wisdom کو آگ لگائو۔مجموعی طور پر سماجی اور سیاسی زندگی پر جہالت اور جَہلِ خرد کا غلبہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment