ہوم << ایدھی صاحب کی وفات اور رد عمل کے چند افسوسناک پہلو : سمیع اللہ سعدی

ایدھی صاحب کی وفات اور رد عمل کے چند افسوسناک پہلو : سمیع اللہ سعدی

ایدھی صاحب بھی راہی عدم ہوگئے ،دوسروں کو کفن پہنانے والا خود کفن میں ملبوس ہوگیا ،لا وارث میتوں کو دفنانے والا دوسروں کے ہاتھوں لحد کا مکین ہوگیا ،ایدھی صاحب تقریبا نصف صدی مسکینوں ،یتیموں ،بیواوں ،بے آسرا بچوں اور غریب خاندانوں کی کفالت کر کے آخر کار اس دربار میں پہنچ گئے ،جہاں ایک ذرہ کے برابر نیکی ضائع نہیں ہوتی ،اور ہر مستحق کو اس کا پوارا پورا حق ملتا ہے ،امید ہے اللہ تعالی بے کسوں کے لئے خود کو ماوی و ملجا بنانے والے کو بھی پورا پورا بدلہ دیں گے ۔ایدھی صاحب کی وفات اور اس پر رد عمل کے ضمن میں کچھ پہلو سامنے آئے ہیں ،جس سے جہاں وطن عزیز میں جاری سیکولرزم کی تحریک کے چندگوشے مزید نکھر کر سامنے آئے ،وہاں اس پورے سانحے میں مذہبی قوتوں کے لئے بھی سوچنے اور غور کرنے کا بڑاپیغام ہویدا ہوا ہے ،بشرطیکہ دینی طبقہ اسے سنجیدگی سے لینے پر آمادہ ہو ۔
1۔ایدھی صاحب کی وفات ہوتے ہی کم وہ بیش ملک کے جملہ طبقات نے بلا تفریق مذہب و نسل افسوس کا اظہار کیا ،اس سانحے کو قومی سانحہ قرار دیا اور خدمت خلق کے حوالے سے ایدھی صاحب کے جانے سے جو مہیب خلا پیدا ہوا ہے ،اس پر حسرت آمیز تاثرات کا اطہار کیا ،سیاسی جماعتوں نے اس سانحے پر تعزیتی پیغامات جاری کئے ،حکومت نے ایدھی صاحب کو سرکاری عہدیدار کا درجہ دیا ،مذہبی جماعتوں نے ایدھی صاحب کی خمدمات کو خراج تحسین پیش کیا ،اور عوام نے سوشل میڈیا پر ایدھی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلووں پر اپنے اپنے انداز میں ایدھی صاحب کا مرثیہ پڑھا،وطن عزیز کی کوئی قابل ذکر سیاسی ،مذہبی ،سماجی اور فکری شخصیت کا نام نہیں لیا جاسکتا ،جس نے ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس کا ااظہار نہ کیا ہو اور ایدھی صاحب کی وسیع خدمات کا اعتراف نہ کیا ہو ۔
2۔ملک و و قوم کے اس متفقہ موقف کو الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے چند ناعاقبت اندیش سیکولرز نے متنازعہ بنانے کی مہم کا کا آغاز کیا ،جس سے جہاں ایدھی صاحب کی شخصیت مجروح ہوئی وہاں اس طبقے کی قومی خیر خواہی کا پردہ بھی بری طرح چاک ہوا ،اور ایدھی صاحب کی وفات ہوتے ہی مولوی ،ملا ،مذہبی ،مفتی ،فتوی اور مذہب کے خلاف ایک لمبا سلسلہ شروع کیا اور ایدھی صاحب کی زندگی میں ان کے افکار سے اختلاف کے بعض آڈیو ویڈیو کلپز اور چند تحریریں پے در پے میڈیا پر پیش کرنے لگے ،افسوس ناک تعجب کی بات ہے کہ کسی کی زندگی میں اس سے اختلاف اس کی موت پر اچھالنے کی کیا ضرورت ہے؟دنیا کی کونسی ایسی شخصیت گزری ہے ،جس سے کسی نے اختلاف نہیں کیا ؟لیکن اختلاف کے باوجود اس کی موت پر افسوس اور اس کی خدمات کا اعتراف مخالفین بھی کرتے ہیں ،پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہونے کے باجود قد آور شخصیات کی وفات پر ایک دوسرے سے بھر پور تعزیت کرتے ہیں ،پاکستان کی کسی قابل ذکر مذہبی شخصیت کا نام لیا جاسکتا ہے ،جس نے ایدھی صاحب کی خدمت خلق کا اعتراف نہ کیا ہو،اور ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کیا ہے؟اس المناک موقع پر ایدھی صاحب سے اختلاف کرنے والوں کے خلاف مہم جوئی کے کیا مقاصد ہوسکتے ہیں ،اہل فکر پر مخفی نہیں ۔
3۔سوشل میڈیا پر ایک خاص ٹرینڈ یہ چلا کہ جس جس نے بھی ایدھی صاحب کی وفات کا مرثیہ لکھا ،وہاں مولوی و ملا کو ضرور گالی دی ،مولوی و ملا پر تنقید ضرور کی ،یوں ایدھی صاحب کا مرثیہ مولوی و ملا کے خلاف چارج شیٹ بن گیا؟سوال یہ ہے کہ ایدھی صاحب پر افسوس کے ساتھ مولوی و ملا کی مخالفت کیوں نتھی کی گئی؟فیس بک پر میرے پانچ ہزار کے قریب فرینڈ ہیں ،جن میں غالب اکثریت دینی طبقے کی ہے ،سب نے اس سانحے پر افسوس کا اظہا رکیا ،لیکن پھر بھی جس سیکولر کی تحریر پڑھی ،اس میں مولوی و ملا پر تنقید شامل تھی ،کہ مولوی و ملا نے ایدھی صاحب کی وفات پر افسوس نہ کیا ،اور ایدھی صاحب کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا ؟ ،میں حیرت میں مبتلا ہوں ،کہ وہ مولوی و ملا کس سیارے میں رہتے ہیں ،جس نے ایدھی صاحب کی وفات پر خؤشی ظاہر کی؟کیا کسی کی زندگی میں اس کے افکار سےا ختلاف اس کی موت پر خوشی کا معنی رکھتا ہے؟کیا کسی کی فکر سے اختلاف اس کی دیگر خدمات کی نفی کے مترادف ہے؟
4۔کسی فکر سے وابستگی اور عوامی خدمات کے دائرے بالکل الگ الگ ہیں ،فکر سے وابستگی انسان کو کسی خاص طبقےسے جوڑتی ہے ،اور اس دنیا میں کوئی انسان نیوٹرل نہیں ہے ،کوئی نہ کوئی فکری جہت رکھتا ہے ،لیکن فلاحی و رفاہی کام عمومی طو رپر فکری دنیا سے باالاتر ہوتے ہیں ،ایدھی صاحب چونکہ اصلا رفاہی و فلاحی میدان کےآدمی تھے ،اس لئے ان کی خدمات کا دائرہ ہر طبقہ فکر کے لوگ تھے ،لیکن ہمیں افسوس ہے کہ بنیادی فرق کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے سیکولرز حضرات نے یہاں بھی اپنے فکری نظریے ہیومن ازم کا پرچار کیا اور انساسیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں کا نعرہ لگا کر ایدھی صاحب کو ہیومن ازم کا پیروکار باور کرنے کی سعی مذموم کی ،سوگ والے موقع پر اپنی فکر کا بے جا پرچار اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے سیکولر دوست ا س وسعت نظری اور برداشت سے بہت دور ہیں ،جن کا وہ ہر تحریر میں حوالہ دیتے ہیں ۔بالفرض اگر ایدھی صاحب واقعی ہیومن ازم کے علمردار بھی ہوتے ،اور مذہب کے قائل نہ ہوتے ،تب بھی اس موقع پر اس کا پرچار ایدھی صاحب کی خدمات کو محدود تر کرنے کی کوشش ہے ،جبک ایدھی صاحب کی خدمات کا دائرہ مذہبی لوگوں کو بھی محیط تھا ۔ایدھی صاحب نے فلاحی و رفاہی اصولوں کے عین مطابق فکری وابستگی سے بالا تر ہو کر بے کسوں کی خدمت کی ،کاش ہمارے سیکولر دوست بھی اس موقع پر اسی وسعت نظری کا ثبوت دیتے ۔
5۔ایدھی صاحب کی وفات پر پوری قوم مسلکی و فکری وابستگی سے بالا تر ہو کر جس المناک کیفیت میں ایدھی صاحب کا سوگ منایا،ادیدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کیا ،اس میں دینی طبقے کے لئے ایک بڑا سبق پوشیدہ ہے کہ کسی کو گرویدہ کرنے کا راستہ پیٹ سے ہوکر جاتا ہے ۔ہمارا مذہبی طبقہ فلاحی و رفاہی کاموں کی طرف اس طرح توجہ نہیں دے رہا ،جس طرح اس کی ضرورت ہے ،خآص طور پر ہماری مذہبی جماعتیں ،اس حوالے سے بالکل کسی وژن اور ہدف سے تہی دامن ہیں ۔کاش وہ بھی اس راز کو جان لیں ،کہ دکھی انسانیت کی خدمت ہی وہ طاقتور ہتھیا ر ہے جس سے اپنے دشمن کو بھی زیر کیا جاسکتا ہے ۔