انسان سماجی حیوان ہے۔اس کو زندگی گزارنے کے لیے اردگرد کے انسانوں پرانحصارکرنا پڑتاہے۔ تنہا زندگی گزارنا اس کے لیے صرف مشکل ہی نہیں بلکہ کئی اعتبار سے ناممکن بھی ہے۔ قدیم دور میں جب انسان جنگلوں اورغاروں میں رہا ،اس وقت بھی اسے اپنے گرد کچھ انسانوں کی ضرورت رہی۔یہ سب ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور یوں زندگی کا پہیہ چلتاتھا۔ پھرانسان نے متمدن ہونا شروع کیا توپیشے بنتے چلے گئے اور مختلف انسان مختلف پیشوں کو اختیار کرتے چلے گئے۔ کسی نے کپڑے بنے اور کسی نے خوراک اگائی ،کسی نے دفاع کے لیے ہتھیار بنائے اورکسی نے رہائش کے لیے گھر تعمیر کرنے شروع کیے۔ پہیے کی ایجاد سے قبل ہی جب زندگی کا پہیہ یوں رواں دواں ہوناشروع ہوا توانسانوں کا انحصار ایک دوسرے پر بڑھ گیا۔
ایک انسان اپنے لیے سب کچھ تنہانہ کرسکتاتھا۔ صرف ایک یاد وکاموں کے لیے اسے کسی نہ کسی دوسرے انسان کی مددکی ضرورت پڑتی تھی۔ وہ خوراک اگر خود اگاتا تھاتوپہننے کے لیے کپڑے اسے کسی اورسے لینے پڑتے تھے اورگھربنانے کے لیے کسی اور سے مدد لینا پڑتی تھی۔ یوں بارٹرسسٹم کارواج بنااور لوگوں نے ادلے بدلے میں چیزیں دیناشروع کیں۔ جس کے پاس اناج تھا،اس نے اناج کے بدلے کپڑے لے لیے،جس کے پاس ہتھیار تھا،اس نے ہتھیارکے بدلے رہائش کاسامان لے لیا۔ یوں زندگی کاپہیہ کچھ اچھے انداز میں چلنے گا۔
اس سارے دورمیں انسان کی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں اور یوں بہت سے نئے پیشے بھی وجود میں آتے چلے گئے۔
بازار اورمارکیٹیں وجودمیں آناشروع ہوگئیں کہ جہاں سے ضروریاتِ زندگی کی اشیاء فراہم ہونے لگیں۔ آبادیاں بڑھیں تو ایک پیشے کو ایک سے زیادہ لوگوں نے اختیار کرناشروع کردیااوریوں مسابقت کی فضاقائم ہونے لگی۔ایک دوسرے سے مقابلہ ہونے لگا اور اشیائے ضرورت کے خریداروں کواپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے نت نئے حربے اختیارہونے لگے۔ انسان آگے بڑھتا گیا۔ کاغذی کرنسی وجودمیں آئی اور بہت سے نئے انداز تجارت بھی سامنے آئے۔ تجارت کو بڑھاوا دینے کے حربے بھی ایجادہونے لگے اور اس کومارکیٹنگ کانام دیا گیا۔ایسے ایسے جملوں سے خریداروں کو متوجہ کیا گیاکہ جو خریدار کوکھینچ کروہاں لے آئیں۔ اپنی بنائی گئی اشیاء کے بارے میں ایسے ایسے دعوے کیے جانے لگے کہ عقل دنگ رہ گئی۔اسی دوڑ میں جب انسان مادیت پرستی میں الجھا تو اس کے سدا کے دشمن ابلیس نے بھی کاری وار کیا۔ اس نے لالچ،جھوٹ اوربہت خطرناک طریقہ کوفروغ دلوایا۔ مارکیٹنگ کے نام پرپہلے پہل صرف لالچ کومدنظررکھاگیا کہ انسان فطری طورپر حریص واقع ہواہے۔ اس کی اسی کمزوری کوپیش نظررکھتے ہوئے اسے استعمال کیاگیا۔اپنی صناعی کو بیچنے کے لیے اس کی بنیادی کمزوریوں کوہواد ی گئی۔
بدصورت کو خوبصورت بنانے کے دعوے اورکمزور کو طاقتور بنانے کے طریقے،غریب کو امیر کرنے کا نسخہ اور امیر کو ہفت اقلیم دلوانے کے نسخہ ہائے کیمیا سامنے آنے لگے۔یوں بات صرف لالچ اورطمع تک محدود نہ رہی بلکہ اس میں جھوٹ بھی شامل ہوگیا اورجھوٹ بھی ایساجسے غلو کی انتہائی بلندترین صورت قرار دیاگیا۔ اس کی کچھ مثالیں آج کے دورمیں آپ کے سامنے ہیں۔ موجودہ دور میں بہت سی کمپنیوں کے اشہارات ہماری نظروں سے گزرتے ہیں ۔ ان کے دعوؤں کواگرپرکھا جائے تووہ اس قدر بلند و بانگ ہیں کہ حقیقت سے کہیں دورجانکلتے ہیں۔غلو کا اس قدر عالم محض خریدارکواپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہے۔ مثال کے طورپر آج انسان کو خوبصورت بنانے کے لیے رنگا رنگ صناع اپنی صناعی کوپیش کرتے ہیں اور دعوے کچھ یوں کہ اگرآپ کارنگ کالا ہے تووہ انتہائی سفید ہوجائے گا۔بال کمزورہیں تووہ اس قدر مضبوط ہوں گے کہ رسیاں ان کے سامنے کمزور پڑ جائیں گی۔ لباس بنانے والے یوں گویا ہوتے ہیں کہ اس قدرخوبصورت لباس آپ کودیں گے کہ سب کی توجہ آپ کی طرف ہو جائے گی۔
انسان کی فطری کمزوری ہے کہ اسے چاہاجانااور لوگوں کااس کی طرف متوجہ ہونابہت پسندہے۔اس کی اسی کمزوری کویہ کمپنیاں اختیارکرتی ہیں اور پیٹ کاایندھن کمانے کے چکرمیں محرم وغیرمحرم کی تمیزبھی کہیںپیچھے رہ جاتی ہے۔ کھلے عام صنف مخالف کومتوجہ کرنے کے حربے بتائے جاتے ہیں۔ یوں اللہ اوراس کے رسول کی بنائی گئی وعیدوں کے مستحق ٹھہرانے کاپورا انتظام کیاجاتا ہے کہ جوغیرمحرم کواپنی طرف مائل کرنے والے ہیں یا کرنے والیاں ہیں۔یوں سرعام فحاشی وعریانی کو فروغ ملتا ہے اور ابلیس لعین اپنے اس مقصدمیں خوب کامیاب ہوتاہے۔اگران اشتہارات اورتمام ترغیب دلانے والی کمپنیوں کی بات سے ہٹ کر تھوڑاسوچاجائے توایک بات واضح سمجھ آتی ہے کہ یہ صرف انسان کی فطری کمزوری کے لالچ کواستعمال کرتے ہیں اوریوں اسے ترغیب دلاتے ہیں۔اسی ترغیب دلانے پریہ لوگ اس قدرآگے بڑھ گئے کہ ہرطرح کی تمیزبھول بیٹھے۔
مذہبی واخلاقی حدود سے اس قدردورجانکلے کہ اب واپسی کاراستہ مسدود ہوچکاہے۔حالانکہ درحقیقت کسی انسان کو اگرکسی چیزکی ضرورت ہے تووہ خود اس کوتلاش بھی کرے گا اور خریدے گا کیونکہ وہ اس کی ضرورت ہے لیکن ان اشتہارات نے نہ صرف اسراف کو بہت زیادہ فروغ دیاہے بلکہ بہت سی ناجائز خواہشات کو بھی جنم دیاہے۔ جب یہ ناجائز خواہشات جنم لیتی ہیں پھر ان کو پوراکرنے کے لیے بالعموم طریقے بھی ناجائز ہی اختیار کیے جاتے ہیں۔یوں معاشرے میں چوری،ڈکیتی، راہزنی کوفروغ ملتاہے اور معاشرہ بدامنی کا شکار ہوتاہے۔ایک فرد اگر گھرسے نکلتاہے ،اس کے سامنے کسی ایسی چیز کا اشتہارآتاہے جو اس کے دل کو موہ لیتاہے۔اس کا دل اسے حاصل کرنے کومچلتاہے ۔وہ پہلے اسے حاصل کرنے کی جائز طریقے سے کوشش کرتاہے۔ اگر کامیاب نہ ہو توشیطان اسے نت نئے ناجائز طریقے سکھلاتاہے۔ وہ لالچ میں اس قدر اندھاہوچکاہوتاہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھول جاتاہے اوریوں ہرممکن طریقے سے اس چیز کو حاصل کرنے یاباالفاظ دیگر ہتھیانے کی کوشش کرتاہے۔یہ بات حقیقت سے کسی طورپربھی دورنہیں ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کے دور میں ایسے اشتہارات بنتے ہیںجو انسان کوواقعتاً اس قدر مجبور کر دیتے ہیں اور اسے پیش کردہ چیز اپنی حقیقی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔
فکرانگیزبات یہ ہے کہ معاملہ صرف ان اخلاقی برائیوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ان اشتہارات کی آڑ میں ابلیس اپنے حقیقی مقصدکوبھی پورا کررہا ہے۔ بہت سے ایسے نعرے اور پیغامات زبان زد عام ہیں کہ جن کے معانی شیطان کے پیغام کو عام کرتے ہیں لیکن ہم مادیت پرستی میں اس قدرگم ہیں کہ اس بات پربالکل توجہ نہیں کرتے کہ اس نعرے کا معنی کیاہے اوراس کے اثرات ہمارے معاشرے یاہمارے بچوں کے معصوم ذہنوں پر کیا ہوں گے۔بظاہربے ضرر دکھنے والوں میں کیامعنی پوشیدہ ہیں آپ خود اس کاجائزہ لے سکتے ہیں۔
معاشرے میں اس وقت ایک مشہور کولڈڈرنک کا نعرہ ہے ''من کی مان'' بظاہریہ سادہ ساجملہ ہے لیکن اگر اس کے معانی پرغورکریں تویہ اسلام کے احکامات سے بالکل متضادہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق مومن نکیل ڈالے ہوئے اونٹ کی مانند ہوتاہے۔وہ من کی نہیں مانتا،بلکہ اللہ اوراس کے رسولeکی مانتا ہے۔اگر ہر انسان من کی مانے تویہ دنیافساد کامرکزبن جائے۔
اسی طرح ایک اورنعرہ ''کھالے،پی لے،جی لے زندگی''بظاہر سادہ لیکن زندگی کامقصد اس میں کیابتایا گیاکہ محض کھاؤپیؤاور موج اڑاؤ۔
الغرض اشر ف المخلوقات کے عہدے سے ہٹ جاؤ اور جانوروں کی سی زندگی گزارو۔اسلام نے انسان کی زندگی کامقصد بتایاہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے،اس کے دین کے لیے کوشش کرے لیکن آج زبان زدعام ایسے بہت سارے پیغامات ہمیں لاشعوری انداز میں کس طرف لے جاتے ہیں۔ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا۔
یہ ان اشتہارات کاسب سے خطرناک پہلو ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے اور بالخصوص مسلم معاشرے کو درپیش ہے۔آج مغرب کی اخلاقی صورتحال کی تباہی کا ایک بڑاسبب اس طرح کے اشتہارات ہیں۔ مسلم معاشرے بھی اگراسی روش پر چلتے رہے تویہ تباہی ان کا بھی مقدر بن سکتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امرکی ہے کہ ارباب اقتدار واہل فکرودانش اس معاملے کو سنجیدگی سے لیں اور اشتہارات کے نام پریوں ذہن سازی کوبند کروایا جائے۔ اشتہارات بنانے والی کمپنیوں کے لیے ضابطہ اخلاق مرتب کیاجائے اور انہیں یوں معاشرے میں فحاشی و بے حیائی پھیلانے کی ہرگزاجازت نہ دی جائے۔بظاہر یہ معاملہ معمولی نظرآتاہے لیکن اگراس پرتوجہ نہ دی گئی تو وہ وقت دورنہیں کہ جب ہمارا معاشرہ اخلاقی تباہی کے دہانے پرپہنچ جائے اورہم بھی اہل یورپ کی مانند واپسی کی راہیں تلاش کرتے رہیں۔اللہ ہمارے معاشرے کو ان اثرات سے محفوظ رکھے اورہمیں اسلام کاداعی بنائے۔آمین
تبصرہ لکھیے