ہوم << سیکولر دوستوں کا دو غلاپن، دو واقعات - عبیداللہ عابد

سیکولر دوستوں کا دو غلاپن، دو واقعات - عبیداللہ عابد

ہمارے ایک صحافی دوست ہیں۔ شرمیلا فاروقی کے سسرالی ٹی وی چینل میںایک پروگرام بھی کرتے ہیں۔ سیکولر خیالات کے حامل ہیں۔ اس باب میں کسی قسم کی نرمی کے قائل نہیں۔ ساری عمر کہتے رہے کہ صحافی کو غیرجانبدار ہو نا چاہیے، لیکن پیپلزپارٹی سے اپنا عشق چھپاتے نہیں ہیں، حتیٰ کہ تجزیہ کاری میں بھی نہیں۔ عرصہ پہلے ٹوئٹر کی وساطت سے براہ راست تعلق قائم ہوا۔ ایک دوسرے کی ٹویٹس پر تبصرے، تعریف اور تنقید سب کچھ چلتا رہا۔ میں ان کے تحمل و برداشت کا قائل ہونے لگا۔
چند ہفتے قبل خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے مولانا سمیع الحق کے دارالعلوم حقانیہ کو 30 کروڑ کی امداد دی گئی تو اس صحافی دوست نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے دہشت گرد پیدا کرنے والی فیکٹری کو امداد دی ہے۔
ان کی ٹویٹ دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں اسی مدرسہ کی مدد سے افغانستان میں طالبان نامی گروہ قائم کیا گیا تھا اور اس کا سربراہ ملامحمد عمر کو بنایا گیا، جناب حامد میر کو ملاعمر سے ملاقات کے لیے بے نظیر بھٹو ہی نے تیار کیا تھا اور ان کی تعریف وتوصیف میں جوکچھ کہا تھا، وہ حامد میر سے پوچھ لیجیے۔ مجھے یاد آیا کہ بے نظیر بھٹو ہی کے وزیرداخلہ نصیراللہ بابر کہا کرتے تھے کہ طالبان میرے بیٹے ہیں۔۔۔۔ ان کے ایسے تمام بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں۔
میں نے اس سیکولرصحافی دوست سے محض یہی پوچھنے کی جسارت کی کہ پچھلا پورا دورِ حکومت پیپلزپارٹی کا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے دارالعلوم حقانیہ پر کیمیائی بارش نہ کی؟؟؟ کیونکہ سیکولرز اور لبرلز اکثر کہا کرتے ہیں کہ ان ’’دہشت گردوں‘‘ پر کیمیائی بارش کرکے انھیں بھسم کردینا چاہیے۔
میرے یہ دوست خاموش ہوگئے۔ پھر عید کی چھٹیوں پر گھر چلا گیا۔ میری عادت اچھی ہے یا بری، بہرحال میں گھروالوں کے ساتھ ہوں تو میڈیا اور سوشل میڈیا سے مکمل لاتعلق رہتاہوں۔ چھٹیوں سے واپسی پر میں نے ٹوئٹر اوپن کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف نے مجھ سے اپنی ٹویٹس دیکھنے کی سہولت چھین لی ہے یعنی بلاک کردیا ہے۔ اس پر بے ساختہ میرے چہرے پر مسکراہٹ چھاگئی۔
مجھے یاد آیا کہ یہ ’’ سیکولردوست‘‘ کہا کرتے تھے کہ معاشرے میں شدید عدم برداشت کا دور دورہ ہے۔ ایک دوسرے کی اختلافی رائے کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا۔۔۔۔۔ وہ اس کی ذمہ داری مذہبی طبقہ پر ڈالا کرتے تھے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ اگرمذہبی طبقہ کا کوئی فرد تحمل کا مظاہرہ نہ کرے تو وہ قابل گردن زنی لیکن سیکولرز کو سو خون بھی معاف۔۔۔
کسی نے لکھا تھا کہ کھجلی آپ کو ہو تو الرجی لیکن وہی کھجلی مجھے ہو تو خارش (کتے اور ٹومی والی بات اس لیے نہیں لکھ رہا کہ وہ بہت پامال ہوچکی ہے)۔
ہمارے ایک دوسرے سیکولرصحافی دوست ( اتفاق سے وہ بھی پیپلزپارٹی سے وابستہ ہیں) ایک بڑے اخبار کے چیف رپورٹر بھی ہیں، اکثر سینہ تان کر کہا کرتے ہیں کہ میرے پاس کسی مذہبی جماعت کی خبر آتی ہے تو آنکھیں بند کرکے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتاہوں۔۔۔