ہوم << ٹرانسمیشن لائنیں یا موت کے جال - محمد نورالہدیٰ

ٹرانسمیشن لائنیں یا موت کے جال - محمد نورالہدیٰ

%d9%85%d8%ad%d9%85%d8%af-%d9%86%d9%88%d8%b1%d8%a7%d9%84%db%81%d8%af%db%8c%d9%b0 ذرائع ابلاغ میں آئے روز بجلی کی لٹکتی ہائی وولٹیج تاروں کی وجہ سے حادثات کے واقعات نمایاں طور پر دکھائے جاتے ہیں ۔ کہیں تار ٹوٹ کر گرنے سے کسی کی موت واقع ہوتی ہے تو کہیں کوئی لٹکتی تار کا نشانہ بن کر جھلس جاتا ہے ۔ مگر ان اموات پر متعلقہ ادارے کی جانب سے کوئی ایکشن سامنے نہیں آتا … لاہور کے علاقوں نشتر کالونی ، اچھرہ ، فیروزوالہ ، علی پارک ایکسٹینشن ، مناظر علی سٹریٹ ، بیدیاں روڈ ، چونگی امرسدھو ، حمزہ تائون ، قائد ملت کالونی ، دبئی چوک اچھرہ ، باٹا پور ، نشتر کالونی ، اردو بازار ، شاہ عالم مارکیٹ ،انارکلی ، سمیت آپ کسی بھی علاقے میں چلے جائیں ، بجلی کی لٹکتی اور گھروں کے سامنے سے گزرتی ہائی وولٹیج تاریں وہاں کا اہم مسئلہ ہیں … ایک ایک کھمبے پر بیسیوں میٹر اور ان میں سے نکلتے تاروں کے گھچوں کی صورت میں شہر بھر میں موت لٹک رہی ہے جو بیشتر جگہوں پر گھروں کی چھتوں پر سے بھی گزر رہی ہے … عرصہ دراز سے جگہ جگہ خطرناک حد تک لٹکتی ننگی ہائی وولٹیج تاروں کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔ اس ضمن میں لوگوں کی اموات اور اپیلوں پر کوئی کان نہیں دھرے جارہے ۔ درخواستوں پر درخواست دینے ، بارہا توجہ دلانے اور مسلسل یاد دہانی کرانے کے باوجود متعلقہ اداروں کے کان پر جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی ان میں احساس ذمہ داری پیدا ہورہا ہے ۔ بارش ہوتی ہے تو اموات کے خطرات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ۔
بجلی کی ان ننگی تاروں سے گیارہ ہزار کے وی کرنٹ گزر رہا ہے ۔ ان ہائی وولٹیج تاروں کے قریب بچے روزانہ کھیلتے بھی ہیں اور یہ لوگوں کی عمومی گزرگاہ بھی ہے ۔ کتنے ہی گھروں کی چھت یا بالکونی کے بالکل پاس سے یہ تاریں گزر رہی ہیں ، جہاں خواتین دھلے ہوئے کپڑے سکھانے کیلئے ڈالتی ہیں اور ہوا کی وجہ سے اگر کوئی کپڑا اڑ کر تاروں کے پاس گر جائے تو کوئی اسے اٹھانے کا خطرہ مول نہیں لیتا ، نہ ہی کوئی بالکونی یا کھڑکی سے استفادہ کرسکتا ہے ۔
بیشتر علاقہ جات ایسے ہیں جہاں بجلی کے کھمبے ترقیاتی کاموں یا کسی گاڑی / ٹرک وغیرہ ٹکرانے کی وجہ سے ٹیڑھے ہوجاتے ہیں اور تاریں نچلی سطح پر آجاتی ہیں اور کھیلتے بچوں کی زندگی کیلئے بھی خطرہ بن جاتی ہیں ۔ شہری اپیل کرتے ہیں کہ ان کی جانوں اور قیمتی املاک کے تحفظ کے پیش نظر گلیوں میں خطرناک حد تک لٹکتی ہائی وولٹیج تاروں کے جال کو ٹھیک کرکے اونچائی پر نصب کیا جائے ، نیز درخواست میں واضح طور پر لکھا جاتا ہے کہ ’’اس سے حادثہ رونما ہوسکتا ہے‘‘ ، لیکن سالوں پر سال گزر جاتے ہیں ، شنوائی نہیں ہوپاتی ۔
حد تو یہ ہے کہ ہر چند ماہ بعد مینٹیننس کے نام پر مختلف علاقوں کی بجلی بند کی جاتی ہے ، لیکن مذکورہ مسائل جوں کے توں رہتے ہیں … حالانکہ مینٹیننس کا واضح مطلب انسولیٹرز ، ٹرانسمیشن لائنوں اور ٹرانسفارمرز کے جمپرز تبدیل کرنا ، جوڑوں کو چیک کرکے انہیں ٹھیک اور لٹکتی تاروں کو اونچا کرنا ہے … لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ جہاں بجلی کی کوئی تار ٹوٹتی ہے ، اس کو ’’جوڑ‘‘ لگا کر درست کردیا جاتا ہے ، جو کہ مزید خطرناک کام ہے ۔
صورتحال یہ ہے کہ لاہور کا 35 برس پرانا ٹرانسمیشن سسٹم 35 ہزار میگاواٹ سے زیادہ لوڈ ہی نہیں اٹھا سکتا جبکہ گرمیوں میں یہ لوڈ 50 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتا ہے ۔ جب بجلی کی پیداوار مکمل اور پورے لاہور کو بجلی کی مکمل فراہمی شروع ہوگی تو موجودہ سسٹم بیٹھ جائے گا۔ اس ضمن میں واپڈا / لیسکو نے ابھی تک شہر کو اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ وجہ یہ ہے کہ لیسکو کے پاس مطلوبہ مقدار میں تو کیا موجودہ سسٹم کیلئے بھی سامان میسر نہیں ہے ۔ جب ان کے پاس مطلوبہ تعداد میں میٹیریل ہی نہیں ہے تو لائن مین اور ایس ڈی او نے تو سپلائی بحال رکھنی ہے ، کیونکہ ان پر عوام کا پریشر ہے ، احتجاج ہوتا ہے تو لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں ، لہذا ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنے مرضی جوڑ لگیں ، بجلی چالو رہنی چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ محکمہ ڈھائی لاکھ کا ٹرانسفارمر نہیں خرید سکتا بلکہ اس کے کاپر وائر میٹل کا سلور میٹل کے ساتھ تبادلہ کرکے چند ہزار روپے میں پرانا ٹرانسفارمر ہر مرتبہ ٹھیک کروالیا جاتا ہے ، جو کچھ دن لوڈ اٹھا کر پھر ڈیمیج ہوجاتا ہے ۔ درحقیقت موجودہ ٹرانسفارمرز کی کام کرنے کی صلاحیت اب ختم ہوچکی ہے ، لیکن ’’بوجوہ‘‘ انہی سے کام چلایا جارہا ہے ۔
دوسری جانب یہ امر بھی حقیقت ہے کہ بالخصوص گنجان آباد علاقوں میں تاروں کے یہی بکھرے ہوئے گچھے بجلی چوری کا بھی سبب بن رہے ہیں ، کیونکہ جس علاقے میں اس قدر گچھے موجود ہوں گے ، وہاں بجلی چوری میں آسانی ہوتی ہے ۔ کیونکہ عام آدمی کو آسانی سے معلوم نہیں پڑتا کہ کونسی تار کہاں جارہی ہے ۔ اسی وجہ سے بجلی چوری بڑھتی جارہی ہے … ایک اخباری رپورٹ کے مطابق شہر کے 250 کے قریب فیڈرز پر 20 سے 60 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے جبکہ مجموعی طور پر لیسکو کے 425 سے زائد فیڈر پر بجلی چوری ہورہی ہے۔ بجلی چوری چھپانے ، ریکوری بہتر بنانے اور چوری شدہ یونٹوں کا خسارہ پورا کرنے کیلئے صارفین کو زائد بلنگ کی جاتی ہے ۔ اوور بلنگ کی صورت میں شکایات سیل کے چکر لگا لگا کر شہری تھک جاتے ہیں لیکن ازالہ نہیں کیا جاتا … اب تو ویسے بھی جو ڈیجیٹل میٹر لگائے جارہے ہیں ، وہ چلتے ہی اتنے تیز ہیں کہ ان کی وجہ سے ایک عام صارف کا بل ڈیڑھ گنا تک بڑھ چکا ہے ۔
تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ایل ٹی اور ایچ ٹی تاریں لگانے کیلئے ایس او پیز اور سٹینڈرڈ ہی ان کے پاس نہیں ہے ۔ اگر کمپنی کی جانب سے ایسا کوئی قانون بنا ہوا ہے تو اسے مدنظر ہی نہیں رکھا جاتا ۔ ایل ٹی یعنی لائیٹ ٹرانسمیشن لائن کو زمین سے کم از کم 50 فٹ بلند ہونا چاہئیے مگر ایسا نہیں ہوتا جبکہ ہائی ٹرانسمیشن لائن کو اس سے بھی بلند ہونا چاہئے ۔ اس حوالے سے ایک واضح سٹینڈرڈ بنانے کی ضرورت ہے ، مگر آپ کسی بھی علاقے میں چلے جائیں ایل ٹی اور ایچ ٹی تاروں کے گچھے گھروں کے شیڈز میں نظر آتے ہیں ۔ 132 کے وی تاریں لوگوں کی چھتوں سے گزر رہی ہیں ۔ شارٹ سرکٹ اور آتش زدگی کے واقعات بھی انہی وجوہات سے رونما ہوتے ہیں ۔ لوڈڈ گاڑیاں بھی ان تاروں کی زد میں آ کر حادثے کا شکار ہوتی ہیں ۔
بارش کے دنوں میں یہ کھمبے اور بجلی کے تار انتہائی خطرناک ہوجاتے ہیں ۔ ٹوٹ کر لوگوں کے گھروں اور زمین پر گرتے ہیں ، جس سے جانی نقصانات سامنے آرہے ہیں ۔ لیکن شاید ادارے کیلئے ایک عام فرد کی موت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ آخر یہ لوگ سسٹم چلانے کیلئے بیٹھے ہوئے ہیں، ان کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں … لیکن المیہ تو یہ ہے کہ عام فرد تو دور کی بات ہے ، انہی گچھوں میں الجھ کر گذشتہ ڈیڑھ برس میں خود لیسکو کے چالیس سے ز یادہ اہلکار شہید ہو چکے ، مگر اس پر بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔ شاید اس لئے کہ ، مرنے والے نچلے درجے کے ملازم ہوتے ہیں ، جنہوں نے پول پر کام کرنا ہے ۔
بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ نئے سرے سے پورے شہر کی اسٹڈی کی جائے ، کہ کہاں کہاں خطرات ہیں ، کہاں بہتری کی ضرورت ہے اور اس کیلئے کتنا بجٹ درکار ہے ۔ موجودہ سسٹم (موت کے جال) ختم ہونے چاہئیں ۔ اول تو بجلی کی تاروں کو زمین دوز کیا جانا چاہئے ، اگر یہ ممکن نہیں تو کم از کم تاروں کے لٹکتے گچھے ختم کئے جائیں ۔ انسانی جان کھلونا نہیں ہے ۔ اس سے پہلے کہ مزید نقصانات ہوں اور عوام صارف عدالت میں جاکر انصاف طلب کریں ، واپڈا / لیسکو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے اور تمام سسٹم کو قانون اور ضابطے میں لایا جائے … ایک پول کی شفٹنگ کا سرکاری ریٹ 1200 روپے ہے ۔ اگر لیسکو کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ پول شفٹ کرکے انہیں گھروں سے کچھ دور منتقل کرسکے یا تاروں کو اونچا کرسکے ، تو یہ کام عوامی مدد سے ہوسکتا ہے ۔ ہر محلہ یہ سرکاری فیس اور دیگر فاضل اخراجات ادا کرے اور اپنے اپنے علاقوں میں موت بانٹتی ان تاروں کو خود سے دور کردے ۔ کیونکہ اگر کوئی کام سیدھے طریقے سے نہ ہورہا ہو اور اس کا تعلق بھی خود اپنی ذات کی حفاظت سے ہو ، تو اس کے کرنے کیلئے کچھ کڑوے گھونٹ بھی بہرحال پینے پڑتے ہیں ۔ وگرنہ ہر ایسی مرگ کو حادثے کا نام دیا جاتا رہے گا اور مسئلہ جوں کا توں رہے گا ۔

Comments

Click here to post a comment