ہوم << کاش ہمارا میڈیا آزاد نہ ہوتا - توقیر ماگرے

کاش ہمارا میڈیا آزاد نہ ہوتا - توقیر ماگرے

توقیر ماگرے کسی بھی معاشرے میں اچھے اور برے رونوں طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، اگر اچھے لوگوں کا تناسب بڑھ جائے تو ایسے معاشرے کو تہذیب یافتہ، ترقی یافتہ اور ایک سلجھا ہوا معاشرہ سمجھا جاتا ہے جبکہ اگر برے یا کم اچھے لوگوں کا پلڑا بھاری ہوجائے تو وہی لوگ اس معاشرے کی پہچان بن جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے میڈیا (الیکٹرانک اور سوشل) نے معاشرے کی پہچان کے یہ معیار بدل کے رکھ دیے ہیں۔ جو دکھتا ہے وہ بکتا ہے کی بنیاد پر اکثر میڈیا ایسی چیزیں دکھا رہا ہوتا ہے کہ جن کا پاکستان کے معاشرے سے دور دور تک کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہوتا۔
کسی جگہ بم دھماکہ ہوا، اس کی رپورٹنگ تک تو بات ٹھیک رہتی ہے مگر جب لواحقین کے آنسو کیمرہ بند کیے جاتے ہیں تو یہ دیکھنے والوں کی نفسیات پر بہت گہرا اور بعض دفعہ بہت برا اثر ڈالتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے سنسنی کی ایسی ایسی جہتیں متعارف کروائی ہیں کہ الامان والحفیظ، لوگوں کو گھیرنے کےلیے چھوٹی سی خبر کو اتنا مرچ مصالحہ لگادیا جاتا ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ اگر یہ خبر پڑھنے سے کوئی رہ گیا تو اس کا زندہ رہنا بےمقصد ہوجائے گا۔
ایک مثال لیجیے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ نیوز بلیٹن میں کسی لڑکا لڑکی کے گھر سے بھاگ جانے کی خبر نہ ہو، ایسی خبروں کو بڑی شدت سے بیچا جاتا ہے، طرح طرح کے دانشوروں سے رائے لی جاتی ہے، ایسے جوڑوں کو ہیرو بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔ پھر اگر کبھی ان جوڑوں کے والدین غیرت میں آ کر کوئی انتہائی قدم اٹھالیں، پھر تو میڈیا کی چاندی ہوجاتی ہے، انسانی حقوق کے علمبردار، موم بتی مافیا اور معروف اسکالرز (پتا نہیں کہاں کے) نکل آتے ہیں اور پورے معاشرے کی تذلیل کی جاتی ہے۔ اس پورے ڈرامے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سارا معاشرہ گومگوں کی کیفیت میں ہوتا ہے، کچھ کو سمجھ آتی ہے کہ نوجوان نسل گھروں سے بھاگ رہی ہے اور کچھ والدین کو ظالم اور جاہل سمجھ لیتے ہیں، جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، آج بھی پاکستان میں ٪99.99 شادیاں والدین اور اولاد کی باہمی رضامندی سے ہوتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میڈیا اس تناسب کو ٪100 کرنے کے لیے کوئی اصلاحی پروگرام شروع کرے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ اور نتیجتا یہی اقلیتی طبقہ پاکستان کی پہچان بنتا جارہا ہے۔
پاکستان میں کئی چیزیں غلط ہو رہی ہیں مگر ساتھ ہی یہاں بہت کچھ اچھا بھی ہورہا ہے۔ کیا پاکستان کا خاندانی نظام مثالی نہیں؟ آج بھی کسی گھر میں اگر تین بھائی معاشی طور پر مستحکم ہیں تو وہ چوتھے بھائی کی جو کہ معاشی لحاظ سے ان جیسا نہیں بھرپور مدد کرتے ہیں، بچوں کی بہترین تربیت کے لیے نانیاں اور دادیاں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ کیا بلوچستان، فاٹا اور خیبرپخنونخواہ کے لوگوں کی مہمان نوازی خاص طور پر آج بھی مثالی نہیں؟ کیا آج بھی پاکستان میں بوڑھے بزرگوں کی اکثریت اپنی اولاد کو دعائیں دیتی ہوئی گھر میں ہی دم نہیں توڑتی؟ میڈیا پہ جن ممالک کو نہایت تہذیب یافتہ قرار دیتا ہے، کیا ان ممالک میں بوڑھے لوگوں سے اولڈ ایج ہوم بھرے ہوئے نہیں؟ کیا ان ممالک میں جرائم ختم ہوچکے ہیں؟ کیا ان ممالک میں اب عورتوں کو ہراساں نہیں کیا جاتا؟
خدارا! یہ دوغلی پالیسی بدل لیں کہ باہر اگر کوئی جرم کرے تو وہ انفرادی مگر پاکستان میں اگر کوئی جرم کرے تو قصوروار سارا ملک۔ اس میڈیا نے نفرت کو بھی خوب پھیلایا ہے۔ پہلے اکا دکا واقعات کے علاوہ کوئی شیعہ سنی فساد نہیں ہوا۔ کسی اقلیت کی حق تلفی نہیں ہوئی۔ ایسے کارنامے دیکھ کر تو دل سے یہ حسرت ہی نکلتی ہے کہ ”کاش ہمارا میڈیا آزاد نہ ہوتا۔“

Comments

Click here to post a comment