ہوم << ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

معظم معین ا سیکولر دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم جیسے چاہیں جیییں جیسے چاہیں مریں ہماری مرضی اور اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ساتھ بھی محبتاں سچیاں کی پینگیں بڑھائیں تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوؤں کی آخری رسومات کا ہی کچھ ذکر کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اس کا انجام ہوتا ہے۔ سنا ہے تاریخ کے کئی سپر الٹرا سیکولر لوگ وصیت بھی کر چکے ہیں کہ انہیں سپرد خاک کے بجائے سپرد آگ کیا جائے۔ اس وصیت پر عمل ہوا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم مگر مستقبل کے ہمارے پیارے سیکولرز اگر چاہیں تو غور کر سکتے ہیں۔ اس سے انہیں کم از کم دنیا میں نہیں تو مرتے وقت ہی بدصورت مولویوں کی صورت سے نجات مل جائے گی جس کی تمنا وہ ساری عمر کرتے رہتے ہیں۔
مردوں کو حوالہ آگ کرنے کی تاریخ بہت پرانی بتائی جاتی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی انسانی گمراہیوں کی تاریخ پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں لکڑیاں جمع کی جاتی تھیں، انہیں سلگایا جاتا تھا اور بچے ان میں پتا جی کی چتا کو رکھ کر آگ میں پتا جی کے بار بی کیو بننے کا عمل لائیو دیکھتے تھے۔ کئی فلموں میں بھی سیڈ سونگ کے پس منظر میں یہ سین فلمایا جاتا تھا جسے دیکھ دیکھ کر نرم دل خواتین خون کے آنسو بہاتی تھیں جبکہ سخت دل مرد مگرمچھ کے۔ مگر پھر جب دنیا ماڈرن ہوئی اور اس عمل سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہونے لگا اور جنگلات کو خطرہ محسوس ہوا تو اس کام کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جانے لگی۔ اب برقی انگیٹھیاں اور جدید بھٹیاں incinerator میدان میں آ چکی ہیں اور اب مردے کو سپرد آگ کرنے کا یہ فریضہ گھنٹوں سے کم ہو کر منٹوں میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کئی کمپنیاں آپ کو مردہ جلانے کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ جدید آٹو میٹک مشینوں میں ماہر کاریگروں کی زیر نگرانی cremation کا سارا عمل طے پاتا ہے اور پسماندگان کو صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں خود کار نظام کے تحت پتا جی کی چتا ایک طرف سے برقی بھٹی میں داخل ہوتی ہے، نو سو سے ایک ہزار ڈگری سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت والی بھٹی میں گزرتی ہے اور پھر دو سے تین گھنٹوں میں دوسری طرف سے ڈیڑھ دو کلو گرام کی راکھ بچوں کو موصول ہو جاتی ہے۔ بقیہ پتا جی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہو کر فضا کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ جھٹ پٹ کام ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا! دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی کام آنے والے ہزاروں انسانوں کو کم وقت میں ٹھکانے لگانے کے لیے ”مہذب“ قوموں نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔
ہندوؤں کے نزدیک انسان کا جسم پانچ چیزوں کا مرکب ہوتا ہے ہوا، پانی، آگ، زمین اور آسمان۔۔۔ وفات پا جانے والے کی میت کو ان تمام چیزوں کی طرف لوٹانا ضروری ہے تاکہ وہ دوبارہ کسی دوسرے جسم کا روپ دھار کے اس دنیا کی طرف لوٹ سکے۔
ابراھیمی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت انسان کی میت کو صرف دفنانے کی تعلیم دیتے مگر سیکولر یا ماڈرن ہونے کے بعد اب کئی عیسائی بھی اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں۔ ہندوؤں کی علاوہ جین مت، سکھ، اور بدھ بھی اپنے مردوں کی چتاؤں کو جلاتے ہیں۔ البتہ سادھؤں اور شیر خوار بچوں کو ہندو بھی جلانے کے بجائے زمین میں دفناتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں معصوم بچوں اور سادھؤں کے گناہ نہیں ہوتے کہ انہیں جلا کر پاک پوتر کرنا پڑے۔ پارسی (آتش پرست) اپنے مردوں کے لیے سب سے برا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ دفناتے ہیں نہ جلاتے ہیں بلکہ ایک بلند مینار (silent tower) پر چھوڑ آتے ہیں جہاں پر لاش بھوکے گدھوں اور کووں کی خوراک بنتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انسان کے جسم میں بدروح حلول کر جاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے یعنی موت نام ہے جسم میں شیطانی روح کے حلول کر جانے کا۔ وہ آگ پانی اور زمین کو مقدس جانتے ہیں چنانچہ مقدس اشیاء سے بری شے کا چھونا مناسب نہیں لہذا لاش کو دفنایا جا سکتا ہے نہ جلایا اور نہ پانی میں غرق کیا جا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے کہ لاش کو کھلی فضا میں چھوڑ دیا جائے اور وہ وہاں قدرتی طور پر قدرت کے کارندوں کا نوالہ بن جائے۔
امریکا میں میتوں کو جلائے جانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہاں کل فوت شدگان کا تقریبا نصف آگ کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ پچاس سال پہلے یہ تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس اضافے کی بڑی وجہ تدفین کے بڑھتے ہوئے اخراجات بتائے جاتے ہیں۔ چین اس فہرست میں سر فہرست ہے جہاں یہ تعداد پینتالیس لاکھ سالانہ سے متجاوز ہے۔ جاپان میں ننانوے فیصد مردے جلائے جاتے ہیں جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔
اسلام مردہ انسان کی بھی اسی طرح عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عزت و اکرام کا سلوک کرنے کاہدایت ہے۔ اسے نہلا دھلا کر صاف کپڑے میں کفنا کر خوشبو وغیرہ لگا کر عزت سے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم ہے اور اسے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ دشمنوں کی بھی لاشوں کا مثلہ کرنے یا بے حرمتی کی اجازت نہیں۔ قرآن مجید میں اس ضمن میں بڑا واضح بیان ہے۔ اللہ رب العزت سورہ المائدہ میں فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو وہ بڑا فکر مند ہوا کہ اب میں اپنے اس مقتول بھائی کی میت کا کیا کروں۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اللہ تعالی نے ایک کوا بھیجا۔ ارشاد ہوتا ہے:
”پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔“ (المائدہ آیت 31)
یہ تبصرہ ہے قرآن کا ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے مردہ بھائیوں کے متعلق یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں کہ وہ کوے سے بھی گئے گزرے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment