ہوم << نواز شریف، جمہوریت اور ملوکیت - مجاہد حسین خٹک

نواز شریف، جمہوریت اور ملوکیت - مجاہد حسین خٹک

مجاہد حسین خٹک دور ملوکیت ہزارہا سال تک انسانی سماج کا سیاسی نظام رہا ہے۔ اس دور میں اختیارات کا منبع ایک ہی شخص ہوا کرتا تھا۔ ریاستی سطح پر بادشاہ اورعلاقائی سطح پرجاگیردارکی ذات میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کا ارتکاز موجود تھا۔ ایک عام آدمی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اسے اپنے علاقے کے وڈیرے کے پاس جانا پڑتا تھا۔ نہ جانے کتنے لوگوں کے سامنے وہ ہاتھ جوڑتا، کارندوں سے مالک کے مزاج کی پرتوں کا احوال جاننے کی کوشش کرتا تاکہ حاضری اس وقت ہو جب اس کے ماتھے پر شکنیں موجود نہ ہوں۔سارا معاشرہ ایک ایسے شخص کے شکنجے میں پھنسا ہوا تھا جو خود ہی قانون تھا اور خود ہی عدالت ۔ فیصلے کسی عمومی قانون کی بجائے اس کی اندرونی افتاد طبع کے تحت صادر ہوتے تھے۔ ہمارے معاشرے کی نفسیات میں جس قسم کی ہیرو پرستی پھیلی ہوئی ہے اس کی جڑیں بھی اسی طویل دور کے تجربات میں پیوست ہیں۔
جمہوریت میں یہ کام افراد سے لے کر اداروں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے چونکہ یہ اپنی ساخت میں غیر جذباتی ہوتے ہیں اس لئے یہ قوانین کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ عام آدمی کے ساتھ زیادتی ہو جائے تو متعلقہ ادارہ شکایت موصول ہوتے ہی ایک خودکار نظام کے تحت کام شروع کر دیتا ہے۔ یہ ادارے ہی ہیں جہاں حکومت اور رعایا کا ایک دوسرے سے تعامل ہوتا ہے۔ یہ ایک جدید تصور ہے جس کا مقصد عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ طاقتور افراد کو قانون کے دائرے میں رکھنا بھی مقصود ہے۔
انتخابات جمہوریت کا ایک محدود جزو ہیں۔ جمہوریت کا اصل وظیفہ اختیارت کے ارتکاز کو ختم کرکے اسے مختلف اداروں میں تقسیم کرنا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ صرف قانون سازی کے لئے منتخب کیے جاتے ہیں، انہی سے کابینہ کا انتخاب ہوتا ہے جو پورے ریاستی ڈھانچے کو رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے اور ان پر نگاہ بھی رکھتی ہے۔ عام آدمی کےزیادہ تر مسائل بلدیاتی انتخابات کے تحت منتخب ہونے والے نمائندے حل کرتے ہیں۔ بیوروکریسی انتظامی مسائل سنبھالنے پر معمور ہوتی ہے۔ فوج سرحدوں کی حفاظت کرتی ہے اور عدلیہ متنازعہ مسائل سلجھاتی ہے۔ حکو متی وظائف کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنا دور جدید کی دین ہے جس کے ذریعے ریاست کے پیچیدہ نظام کو سنبھالنا آسان ہو جاتا ہے اور اس نظام کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ جاتے ہیں۔
نواز شریف کی سیاست کا تجزیہ کریں تو دو باتیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ ایک تو معاشرے کو جدید دور کے تصورات سے ہم آہنگ کرنے کی بجائے نون لیگ نے ہیرو پرستی کی نفسیات کو فروغ دیا ہے۔ شخصیت پرستی کو اس قدر پروان چڑھایا ہے کہ جس ادارے کی بنیاد میں ان کے نام کی تختی نہ لگی ہو وہ ان کی بے توجہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ کوئی سنگین واقعہ ہو جائے تو وزیر اعظم چاہے اقوام متحدہ کے دور ے پر ہوں، وہاں سے بھی اس کا نوٹس ضرور لیں گے۔ شہباز شریف بارش کے پانی میں گھس جائے یا پھر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر عوام تک پہنچے، یہ تمام حربے ایک ہیرو کا تصور قائم کرنے کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ادارے پس پردہ چلے گئے ہیں اور شخصیات ابھر کر سامنے آ گئی ہیں۔ انسانیت ہزاروں سال کے مسلسل تجربات سے جن نتائج تک پہنچی ہے، یہ حرکتیں اس کے یکسر خلاف ہیں۔
دوسرا ظلم اس جماعت نے پاکستانی سماج پر یہ کیا ہے کہ اداروں کی غیرجانبداری ختم کر کے انہیں ایک بار پھر جاگیرداروں کے تابع کر دیا ہے۔ آج کا ایم این اے یا ایم پی اے پرانے دور کے جاگیردار کا متبادل بن چکا ہے ۔ سرکاری اداروں کے سربراہان سیاست دانوں اور ان کے مقامی پٹھوؤں کے سامنے بے بس ہیں۔ بنیادی جمہوریت کواپنا کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ تمام ریاست اداروں کو خوفزدہ کر کے انہیں اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے حقیقی مقاصد سے بہت دور جا چکے ہیں۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جب تاریخ کا پہیہ پیچھے موڑنے کی کوشش کی جائے تو معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں۔
جمہوریت کے خوبصورت لبادے کو میاں نواز شریف اور ان کے خاندان نے تار تار کر کے اس میں ملوکیت کے اتنے پیوند لگا دئے ہیں کہ اب نہ ہی یہ خالص جمہوریت رہ گئی ہے اور نہ ہی بادشاہت۔ پاکستان کے سب ادارے اس وقت ریاستی مسائل حل کرنے کی بجائے حکومت کے سیاسی چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مجھے اس جماعت کے اکابرین سے سب سے بڑی شکائیت یہی ہے۔ ان کا وژن صرف اگلے انتخابات جیتنے تک محدود رہتا ہے جس کی وجہ سے طویل المعیاد منصوبہ بندی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ قوم کی بدنصیبی ہے کہ 1985ء سے لے کر یہ لوگ بار بار حکومت میں آ جاتے ہیں۔ جب تک یہ مائنڈ سیٹ اوپر کی سطح پر قائم رہے گا، پاکستان کبھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔