ہوم << رجا، امید کا استعارہ - حنا نرجس

رجا، امید کا استعارہ - حنا نرجس

”اور ہاں رجا، صافی نے بہت تاکید کی تھی کہ تمہیں اس کی کامیابی کی اطلاع ضرور دوں. ماشاءاللہ اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر لیا ہے اس نے. پرسوں آیا تھا مٹھائی کا ڈبہ لے کر.“
”الحمد للہ! آپی، یہ تو بہت اچھی خبر سنائی آپ نے. اس کی یہ خواہش پوری ہو گئی. سچ ہے کہ شوق اور لگن ہو تو کوئی رکاوٹ، رکاوٹ نہیں رہتی.“
”خير وہ تو کئی بار مایوس ہوا اور انتہائی قدم اٹھانے تک کی سوچتا رہا. یہ تمہاری طرف سے دیا جانے والا مسلسل حوصلہ ہی تھا جس نے اسے زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کی ہمت دیے رکھی.“
”آپی میری طرف سے بہت مبارکباد دیجیے گا اسے. اور رانی کو بھی. وہ بھی بہت خوش ہو گی نا؟“
”ہاں تو اور کیا. ساتھ آئی تھی اس کے. اب تو بڑے بازار میں دکان کھول لی ہے صافی نے، چار لڑکے بھی رکھے ہوئے ہیں. رانی اب بیمار رہنے لگی ہے بیچاری. جوڑوں کے درد سے پریشان ہے. کام سے تو خیر بہت پہلے منع کر دیا تھا صافی نے کہ بیٹا کمانے لگا ہے تو ماں تجھے کیا ضرورت ہے اب کام کرنے کی. لیکن نقصان تو ہمارا ہوا نا. پھر کوئی ویسی ذمہ دار اور نفیس الطبع کام والی ملی ہی نہیں.“
”ہم بھی تو ہیں نا، آپی. اپنا سارا کام خود کرتے ہیں. دور کے ڈھول واقعی سہانے ہوتے ہیں یہ یہاں آ کر پتہ چلا.“
”ابھی تو تمہیں دو ماہ ہوئے ہیں امریکہ گئے، ابھی سے گھبرا گئی؟ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا.“
....................................................................
فون بند کر کے بھی رجا سرشاری کے حصار میں رہی. یوں لگتا تھا جیسے کل کی بات ہو جب وہ پہلی بار صافی سے متعارف ہوئی تھی. وہ اپنی شادی کی تقریبات کے بعد دعوتوں کے سلسلے تک سے فارغ ہو چکی تھی. واثق چھٹی ختم ہونے پر لاہور اپنی ملازمت پر واپس جا چکے تھے جبکہ اسے ابھی کم از کم ایک ماہ یہیں رہنا تھا. دن بوریت کا شکار ہونے لگے تو اس کی جیٹھانی، فارحہ آپی، نے اسے اپنی بوتیک پر آنے کی دعوت دی. ڈریس ڈیزائننگ ان کا جنون تھا اور اپنے اسی شوق کو وہ اپنا کاروبار بنائے ہوئے تھیں. اس مقصد کے لیے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک عمارت کرائے پر لے رکھی تھی جہاں وہ کاریگروں اور شاگردوں سے کام کرواتی تھیں. رجا کو تو وقت ہی گزارنا تھا. سو وہ شام کو وہاں جا پہنچی.
سلائی مشینوں پر زیادہ تر لڑکیاں جبکہ اڈّوں (لکڑی کے چوکور ڈھانچے جن پر کپڑا تان کر کڑھائی کی جاتی ہے) پر چھوٹے بڑے مختلف عمر کے لڑکے کڑھائی کرنے میں مصروف تھے.
وہ بچوں کے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت کرتے ہوئے مختلف سرگرمیوں کا جائزہ لے رہی تھی. دائیں طرف کونے والے اڈے پر اکیلے ہی مصروف ایک دبلے پتلے بارہ تیرہ سالہ لڑکے کی نظریں اس نے کئی بار خود پر مرکوز محسوس کیں. جب وہ متوجہ ہوتی تو وہ یوں ظاہر کرتا جیسے اس کے کام سے اہم دنیا میں کچھ ہے ہی نہیں. جب کئی بار ایسا ہوا تو وہ سیدھی اسی کے پاس جا پہنچی.
”واہ! کام تو بہت خوبصورت کر رہے ہو. کیا نام ہے تمہارا؟“
”صافی“
وہ غیر ارادی طور پر ہنس پڑی. مگر اس کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول اٹھا.
”آصف ہے جی. لوگوں نے بگاڑ کے صافی بنا دیا.“
”ہممم... نام تو پیارا ہے. کب سے کر رہے ہو یہ کام؟“
”ایک سال ہوا ہے جی.“
”اس سے پہلے یقیناً سکول جاتے ہو گے پھر پڑھائی چھوڑ کر یہاں کام سیکھنے لگے.“
”نہیں جی. ٹیپوں (ٹیپ ریکارڈر اور ریڈیو وغیرہ مرمت کرنا) کا کام سیکھتا تھا پہلے. چھ ماہ ہی سیکھا پھر ابا نے اس کام پر لگا دیا." ایک سایہ سا لہرایا تھا اس کے چہرے پر.
”اچھا اچھا ٹھیک ہے، میں تو اس لیے سکول کا پوچھ رہی تھی کہ یہاں ہر دوسرے لڑکے لڑکی نے مجھے یہی بتایا ہے کہ پہلے ہم سکول جاتے تھے، پڑھائی مشکل تھی اس لیے چھوڑ کر کام سیکھنے لگے.“
وہ ایک دم جیسے کسی خول میں سمٹ گیا. سر جھکا کر اپنے کام میں پوری طرح منہمک ہو گیا. خاموشی کے کئی لمحے بیچ میں آئے، وہ اٹھنے کو ہی تھی جب اچانک اس نے سر اٹھایا اور بولا،
”باجی، میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس.....“
اگلے الفاظ اس کے رندھے ہوئے گلے میں ہی اٹک گئے تھے اور آنکھوں میں نمی سی چمکی تھی. رجا سمجھ چکی تھی.
”اچھا، یہ بتاؤ اب شوق ہے تمہیں پڑھنے کا؟“ اس نے چند موتی ہاتھ سے بکھراتے ہوئے پوچھا.
”جی بہت زیادہ.“
”پڑھا تو کام کے ساتھ بھی جا سکتا ہے، یہ کون سی مشکل بات ہے؟“
”ہیں جی؟“
”ہاں جی!“ اس نے اسی کے انداز میں بات لوٹائی. ”ابھی میں ادھر ہی ہوں، کہو تو روزانہ تمہیں پڑھا دیا کروں. ایک گھنٹہ نکال لو فی الحال.“
”سچی باجی؟ چھٹی کی کتابیں تو ہیں میرے پاس. کل کون سی کتاب لے آؤں جی؟“
”جو تمہیں سب سے زیادہ مشکل لگتی ہے.“
”انگریزی اور ریاضی مشکل لگتی ہے، باجی. میں کل لے آؤں گا. فارحہ باجی سات بجے چھٹی دیتی ہیں نا تو کام کے بعد میں آٹھ بجے تک آپ سے پڑھ لوں گا.“
”ہاں، ٹھیک ہے.“
....................................................................
سدا کی ہمدرد دل رکھنے والی رجا کو تو من پسند مصروفیت مل گئی تھی. صافی کی لکھائی بہت خوبصورت تھی. شرمیلی سی طبیعت رکھنے والا تھا. بات چیت کرتے وقت کبھی رجا سے نگاہیں نہ ملاتا. تعلیم کا سلسلہ پھر سے جڑنے پر بے حد مسرور تھا. یہ مسرت کام کرتے وقت بھی اس کے انگ انگ میں سمائی ہوتی.
ایک دن کہنے لگا،
”باجی، اگر آپ کا کوئی ٹیپ ریکارڈر یا ریڈیو خراب ہو تو دکان پر ہر گز نہ لے کر جائیں. اس کام میں بہت "اولا" ہوتا ہے.“
”کیا مطلب؟ میں سمجھی نہیں.“
”مطلب یہ کہ گاہک کو تو پتہ نہیں ہوتا، دوکاندار معمولی سے نقص کے بھی بہت سارے پیسے لے لیتے ہیں.“
”یعنی تم مجھے اپنے تجربے کی بنیاد پر ایک ٹپ دے رہے ہو.“
وہ ہنس پڑا. ”ویسے آپ کو ضرورت بھی کیا ہے کہیں جانے کی. مجھ سے ٹھیک کروا لیجیے گا.“
”ہاں یہ ٹھیک ہے. چلو اب کتاب نکالو، آج فعل ماضی کے جملوں کا ترجمہ کرنا سیکھتے ہیں.“
اس معمول کا شاید آٹھواں دن تھا. آج صافی والا کونا ویران پڑا تھا کیونکہ وہ غیر حاضر تھا. فارحہ آپی سے دریافت کیا تو کہنے لگیں،
”رجا، میں بھی اسی سلسلے میں تم سے بات کرنے والی تھی. کچھ دیر پہلے رانی آئی تھی بتانے، بلکہ یوں کہو التجا کرنے. صافی کو کل بہت مارا ہے اس کے باپ نے.“
”مگر کیوں؟“ وہ تڑپ ہی تو اٹھی.
”اگر میں کہوں تمہاری وجہ سے؟“
”میری وجہ سے؟“
”ہاں رجا، اس کے باپ کو صرف اس پیسے سے غرض ہے جو وہ روزانہ کما کر لے جاتا ہے. وہ اس کے ہاتھوں میں کتابیں برداشت نہیں کر سکتا. اسے اولاد پر خرچ کرنے سے زیادہ، فائدہ اٹھانے کا لالچ ہے. کمانے والے ان پڑھ بیٹے کو وہ زیادہ استعمال کر سکتا ہے نا اس لیے اس کی تعلیم کے از حد خلاف ہے. جو پانچ جماعتیں صافی نے پڑھی ہیں وہ بھی روزانہ جھگڑے کی فضا میں ہی. رانی رو رہی تھی کہ سارا جسم نیلوں نیل ہے صافی کا. خدا کے لیے رجا بی بی کو منع کر دیں.“
”مگر میں تو اسے اس کے خوابوں کی تعبیر دینا چاہتی ہوں، آپی.“
”تم نہیں جانتی ان لوگوں کے مسائل اور نفسیات کو. بجائے تعبیر دینے کے تم کوشش کرو وہ ان خوابوں سے ہی دستبردار ہو جائے. یوں اس حساس لڑکے کی زندگی آسان ہو جائے گی.“
رجا کے لیے اس صورتحال کو جوں کا توں تسلیم کر لینا آسان نہیں تھا. بار بار نگاہوں کے سامنے دو ذہین، شرمیلی، جھکی ہوئی، پرعزم مگر نمی سے چمکتی آنکھیں آ جاتیں. ذہن میں ایک ہی بات گونجتی،
”باجی میں ان لڑکوں کی طرح نہیں. پانچویں پاس کی ہے میں نے. میں بہت دل لگا کر پڑھتا تھا. پھر بس....“
اگلے دن وہ ادھر نہیں گئی. حوصلہ ہی نہ تھا جانے کا. تیسرے دن وہ خود کو کسی حد تک سنبھال چکی تھی. صافی کا دکھ بھی تو بانٹنا تھا.
وہ معمول سے زیادہ خاموش اور حد درجہ سنجیدہ اپنے کام میں مصروف تھا. اس کی آمد سے باخبر ہونے کے باوجود نظر انداز کر رہا تھا. وہ پڑھنے کے لیے مقررہ کردہ وقت سے ایک گھنٹہ پہلے ہی اس کے پاس جا پہنچی.
”واہ! کتنا خوبصورت پھول بنا ہے یہ. سیاہ قمیض پر سرخ گلاب انتہائی دیدہ زیب لگ رہا ہے. یہ بھی آر (کڑھائی کرنے کا آلہ) سے ہی بنایا ہے کیا؟ پتہ نہیں کونسا جادو ہے تمہارے ہاتھوں میں. صافی، تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ یہ ہنر مجھے بھی سکھا دو. چلو آج سے تم استاد، میں شاگرد. لے کر آؤں آر؟“
وہ ضبط کے کڑے مراحل سے گزر رہا تھا. پتہ نہیں کیسے ایک دم ہی خود پر سے قابو کھو بیٹھا.
”باجی.....“ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیا. اتنا غبار جو دل میں جمع تھا، نکل گیا، سب کہہ ڈالا. وہ خاموشی سے سنتی رہی. انجانے میں ہی سہی، اس کے مندمل ہوئے زخموں کو وہ پھر سے کھرچ بیٹھی تھی. اب مسیحائی بھی اسے ہی کرنا تھی. وہ تسلی دینے کے انداز میں اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے لگی.
”دیکھو صافی، تم ابھی صرف اپنے کام پر توجہ دو. یہ ہنر ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا. تمہیں اللہ نے خصوصی طور پر نوازا ہے. پھر تم بہن بھائیوں میں سب سے بڑے ہو تو تمہارے ابو کی تم سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں. پڑھائی کے شوق کا کیا ہے، کچھ دیر انتظار بھی کیا جا سکتا ہے. جب چند سال بعد تم ایک معقول رقم کما کر گھر لے جانے لگو گے تو مجھے یقین ہے کہ تمہارے ابو تمہاری کتابیں چولھے میں نہیں ڈالیں گے.“
بات اس کی سمجھ میں آ گئی اور وہ کافی حد تک سنبھل بھی گیا.
”ٹھیک ہے پھر کل سے اسی اڈے پر ایک طرف ایک فالتو کپڑا میرے لیے بھی لگا دینا.“ رجا اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی.
وہ روزانہ اس سے چھوٹی چھوٹی کتنی ہی باتیں کرتی. بد ترین حالات کا بہادری سے مقابلہ کرنے والوں، کامیاب لوگوں کی محنت اور جد و جہد کے بے شمار قصبے سناتی. ساتھ ساتھ موتی ستارے الٹے سیدھے بڑے بڑے ٹانکے لگا کر ٹانکتی رہتی. وہ دیکھ کر مسکرا دیتا. ایک دن کہنے لگا،
”باجی، آپ کیا کرو گی سیکھ کر؟“
”اپنے کپڑوں پر کڑھائی کیا کروں گی“
”اگر آپ پڑھے لکھے لوگ خود ہی کڑھائی کرنے لگو گے تو ہم محنت کشوں سے کون کروائے گا؟“
”اوہ اچھا! تم یوں سوچتے ہو. چلو میں نہیں سیکھتی.“ اس نے آر ایک جانب رکھتا ہوئے کہا.
”مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں یہ کام اوروں کو سکھا کر ان کے روزگار کا بندوبست کر سکوں. بس تم سکھاتے رہو مجھے.“ اس نے قطیعت سے کہتے ہوئے آر پھر سے اٹھا لیا.
دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا. وہ اپنے میاں کے ساتھ لاہور سیٹل ہو گئی. فارحہ آپی کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا. صافی کی راہ میں بہت سی مشکلات آتی رہیں مگر رجا کے حوصلے و ہمت کے پیغامات آگے بڑھنے کے لیے مہمیز کا کام کرتے رہے. اس دوران دو ایک بار سرسری سی ملاقات ہوئی. وہ چند دن کے لیے سسرال آتی تو وقت کو گویا پر لگ جاتے.
پہلی ملاقات کے محض تین سال بعد، سولہ سال کی عمر میں ہی صافی نے اپنے محلے میں چھوٹی سی دکان کھول لی تھی. اکیلے ہی کام کرتا. کام میں مہارت تھی، آمدنی معقول ہونے لگی. فارحہ آپی بھی کام اکثر اس کے پاس بھجوا دیتیں. اور خوش کن بات یہ تھی کہ وہ کتابوں سے ناطہ پھر سے جوڑ چکا تھا.
اور اب جب رجا کو فارحہ آپی سے اس کے میٹرک کر لینے کی اطلاع ملی تھی تو رجا اندازہ کر سکتی تھی کہ زندگی کے سفر میں یہ دن اس کے لیے کتنا اہم تھا. یہ خواب اگرچہ بیس سال کی عمر میں پورا ہوا مگر ساتھ ہی بڑے بازار میں دکان سیٹ ہو جانا ایک اہم سنگ میل تھا.
پھر یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا رہا. اگلے چار سالوں میں صافی نے گریجویشن کر لی. اب کے اس نے خود فون کر کے اطلاع دی. ایک بے حد پر اعتماد مرد کی مضبوط آواز تھی. لہجہ سلجھا ہوا اور بےحد شائستہ تھا. یقیناً یہ وہ تحفے تھے جو تعلیم نے اسے دیے تھے. پھر وہ ای میل اور سوشل میڈیا کے ذریعے مسلسل رابطے میں رہنے لگا.
....................................................................
رجا تقریباً چھ سال امریکہ میں گزار کر وطن واپس لوٹی تھی. صافی نے بہت اصرار سے کہا تھا کہ باجی اب کے آپ ہمارے شہر آئیں گی تو ہم سے ضرور ملیں گی. وہ اب شادی شدہ اور ایک پیاری سی ایک سالہ بیٹی کا باپ تھا. اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ تحائف سے لدا ہوا ملنے آیا. رجا پردہ کرتی تھی اس لیے کچھ ہچکچاہٹ کا شکار تھی. اب وہ کم عمر لڑکا نہیں، بھر پور مرد تھا. بالآخر اس نے پردہ کر کے ملنے کا فیصلہ کیا. صافی نے بڑی محبت سے رجا کا تعارف اپنی بیوی سے کرایا. پھر اپنی خوبصورت روشن آنکھوں والی بیٹی اسے تھماتے ہوئے بولا،
”باجی! یہ ہے میری امید، میرا حوصلہ، میرا اجالا، میری زندگی، میری رجا...“
آخری الفاظ پر رجا نے ایک دم چونک کر نظریں اٹھائیں. وہ مسکراتے ہوئے بولا،
”میں جانتا ہوں باجی، امید کے یہ چراغ آپ نے ایک میری ہی نہیں بلکہ بیسیوں زندگیوں میں جلائے ہوں گے. میں نے بھی یہ سلسلہ صرف خود تک محدود نہیں رکھا. بےشمار ننھے ننھے جلتے بجھتے ٹمٹماتے چراغوں کی لو بچانے کی سعی کی ہے، کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا. جب اللہ نے مجھے بیٹی کی نوید دی، تو اسے دیکھتے ہی پہلا لفظ جو میرے منہ سے نکلا وہ تھا، رجا. اس کو یہ نام دینا میری جانب سے آپ کے لیے ایک ادنی سا خراج تحسین ہے. میرے لیے یہ خیال ہی کتنا حوصلہ افزا رہا ہے کہ کہیں کوئی ہے جو مجھے سمجھتا ہے اور میری کامیابیوں پر دل سے خوش ہوتا ہے.“
رجا کی بانہوں میں چہکتی رجا ایک دم کھل کر مسکرا دی گویا کہتی ہو،
”ہاں، میں سب سمجھتی ہوں... ہاں، میں ہی تو امید کا استعارہ ہوں...!“

Comments

Click here to post a comment