ہوم << میری غربت ، میرا افسانہ - مبین امجد

میری غربت ، میرا افسانہ - مبین امجد

مبین امجدجب انسان ضمیر سے زیادہ جاگ جائے یا حقیقت سے زیادہ جان جائے تو زمان و مکاں سے نا بلد ہو جاتا ہے۔اس کے اندر جیسے فصلیں اگ آتی ہیں۔ سوالوں کی فصلیں، جن کی بیائی تو آسان ہے مگر کٹائی انتہائی مشکل۔ اور اگر انسان خود کو جوکھوں میں ڈال کر اس کو کاٹ بھی لے تو ہاتھ فقط کانٹے آتے ہیں۔ جو ہر ہر لمحہ انسان کو اندر سے کھا ئے چلے جاتے ہیں ۔ یوں روح کی پیاس آنکھوں سے جھلکنے لگتی ہے۔ اور یہی پیاس میرے باپ کی آنکھوں میں جھلکنے لگی تھی۔ میرا باپ سقہ گیری کرتا تھا مگر اسکے باوجود پیاسا تھا اور سچ پوچھیں تو مجھے آج تک پیاس کی سمجھ نہیں آئی۔جانے کنویں سے پانی لے کر سب کو سیراب کرنے والا خود کیوں پیاسا رہ گیا ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ میرے باپ کو شعور وآگہی کھا گئے۔ ورنہ اسے کوئی بیماری نا تھی۔ اور یہ بات میں نے اپنے باپ کی قبر پر مٹی ڈالتے جانی کہ اپنوں کی تلخ نوائیوں اور بے وفائیوں نے اسے جیتے جی قبر میں لا پھینکا تھا۔ زندگی نے اسکےساتھ جو جو ہاتھ کیے سو کیے مگر موت نے بھی اسے نا بخشا۔ اسکے جنازے پہ میرے چچاؤں میں سے کوئی نا آیا۔ بھئی وہ مصروف لوگ تھے نہیں آسکے تو ہمیں کوئی گلہ نہیں کرنا چاہیے مگر جانے کیوں دم رخصت میرے باپ کی آنکھیں اپنوں کی کرم فرمائیوں پہ شکوہ کناں تھیں۔؟
مجھے یاد ہے میرے باپ نے کبھی مجھے ڈانٹا نہیں، خواہ میں کوئی قصور کر لیتا مگر ایک بات ایسی تھی کہ وہ ڈانٹتا بھی اور اکثر ایک آدھ ہاتھ بھی جڑ دیتا۔ اور وہ بات یہ تھی کہ میں کہتا بابا جب رب ہماری بات ہی نہیں سنتا ، ہمارا جواب ہی نہیں دیتا تو کیا فائدہ ہماری دعاؤں کا؟ اس پہ پہلے تو وہ فوراََ اپنے کانوں پہ ہاتھ لگاتا اور پھر مجھے کہتا پتر! جس کا جواب آجائے وہ عبادت ہے اور جس کا جواب نہ آئے وہ پوجا ہے۔! خدا تو ایک طرف اس نے کبھی مجھے چچاؤں کا بھی گلہ نہیں کرنے دیا۔ میں جب انہیں برا بھلا کہتا تو وہ کہتا نا بچے نا ایسے نہیں کہتے ۔ وہ کہا کرتا تھا کہ جن کو رب چن لے، ان پہ تبصرہ نہیں کرتے ان کا بس احترام کیا کرتے ہیں ان کی بس عزت کیا کرتے ہیں ۔ساری عمر مجھے گلے شکوے نا کرنے کی تاکید کرنے والا دم رخصت اپنوں کے رویے پہ شکوہ کناں تھا۔ تو حیرت کی بات ہے نا؟ شاید خدا نے یہ رشتے بھی انسان کو آزمانے کیلیے ہی پیدا کیے ہیں۔
ارے میں بھی کن باتوں کو لے کر بیٹھ گیا۔ تو میں بتا رہا تھا کہ میرے باپ کو کوئی بیماری نا تھی بس شعور و آگہی اسےکھا گئے۔۔ اور میں اپنے باپ کو دفنا کر آیا تو گھر میں میری ماں ہمسائیوں کے جمگھٹ میں اپنا بوسیدہ آنچل دانتوں میں داب بیٹھی سسک رہی تھی۔ اس کی آنکھیں بھی پیاس کا منظر پیش کر رہی تھیں کہ اس کے آنسو کب کے خشک ہو چکے تھے۔ میں صحن میں داخل ہوا تو میری ماں نے مجھے اپنے آنچل میں چھپا لیااور دھاڑیں مار مار رونے لگی۔ میرے آنسو بھی میرے رخساروں گرم لکیریں بنانے لگے۔
زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔؟ میرے لیے زندگی کیا تھی فقط بیوہ رتوں کا نوحہ۔ اور یہ نئی بات بھی نا تھی بلکہ مجھے یاد ہے میرا بچپن فاقوں میں گذرا۔ میں ہمیشہ وعدوں، ہم دردیوں، تسلیوںاور دلاسوں کے کھلونوں سےہی کھیلا۔ جب سے میں نے شعور کی آنکھ کھولی یہی دیکھا کہ ہمارے گھر کا چولہا ہفتے میں تین دن ٹھنڈا رہتا۔ مگر تب میں اور اب میں فرق یہ تھا کہ تب باپ ایک شجر سایہ دار کی طرح ہم پہ سایہ فگن تھا۔ اور تب یہ جانتے ہوئے بھی کہ تعبیریں ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہیں، میں خواب دیکھا کرتا تھا۔ فرق مگر اب یہ ہے کہ اب میرے خواب میری پلکوں پر دستک نہیں دیتے کہ وہ جان گئے ہیں کہ تعبیر کا آسیب ہمیشہ مہیب سناٹوں کو جنم دیتا ہے۔ اور یوں باپ کے بعد میرے خواب بھی مجھ سے چھن گئے۔!
اب میں ہوں اور ماں ہے۔ سو زیست تو کرنی ہی ہے۔ اور زیست کے لوازمات میں روٹی سب سے نمایا ں ہے جسے کمانے میری ماں گھر سے نکلی۔ اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی۔ کوئی اگر بھوکا مر جائے تو کسی کے کان پہ جوں نہیں رینگتی اور کوئی اگر بھرے پیٹ مرنا چاہے تو رشتہ دار ہی سانس نہیں لینے دیتے۔ جب سانس اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کو ہمیں لوگوں کا جھوٹا ملنے لگا تو ہمارے رشتےدار ہی ہماری جان کے درپے ہو گئے۔ ان کو غیرت یاد آگئی۔ میری ماں کا لوگوں کے گھر کام کرنا ان کو کھٹکنے لگا۔ یوں میری ماں پہ اپنوں نے ہی وہ وہ الزامات لگائے کہ میری پاک دامن اور عفت و شرم کی پیکر ماں کی روح چھلنی ہو گئی۔ وہ بیمار ہو کر گھر بیٹھ گئی۔ اب پھر روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ میں ننھی سی جان روٹی کماؤں یا ماں کا دوا دارو کروں؟
اور یوں چند ہی ہفتوں میں میری ماں اس جہاں سے پدھار گئی۔ ایک بار پھر وہی کہانی دہرائی گئی۔ فرق مگر یہ تھا کہ پہلے جب باپ کی قبر پہ مٹی ڈال کر گھر آیا تو ماں کاآنچل میسر تھامگر اب جب قبرستان سے لوٹا تو خالی صحن بھاں بھاں کر کے ڈرانے لگا۔۔۔ زندگی نے ایک بار پھر مجھے تپتے صحرا میں لا پھینکا۔ اور پھر جیسے وقت تھم گیا۔ میری روح پہ کانٹے اگ آئے کہ کانٹے صحراؤں کی خاص فصل ہیں۔
میں نے ایک ہوٹل میں شام کو برتن دھونے کی ملازمت کر لی اور صبح پڑھنے لگا۔ وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ دبے پاؤں گزرتا گیا۔ جانے یہ وقت اتنی خاموشی سے کیوں گذر جاتا ہے۔؟ کوئی اس کے پاؤں میں پازیب کیوں نہیں پہنا دیتا؟ آخر وہ دن بھی آگیا جب مجھے یونیورسٹی نے ایم اے کی ڈگری دی۔ وہاں ہال میں ہر کوئی اپنے ماں باپ کے ساتھ آیا ہوا تھا۔ جب میں اکیلا ہی اپنی یادوں کو کندھے پہ اٹھائےگیا۔ شاید۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ جب مہمان خصوصی نے مجھے گولڈ میڈل پہنانا چاہا تو میرے کندھے کچھ زیادہ ہی جھک گئے۔ پتہ نہیں ہال میں بیٹھے کسی نے یہ محسوس کیا یا نئیں۔ مگر مجھے خود اپنی اس حرکت پہ بعد میں بہت ہنسی آئی۔ پھر میں مقابلے کا امتحان پاس کیا اور پولیس سروس جوائن کر لی۔ شہرت اور دولت کا آفتاب میرے آنگن میں ایسا چمکا کہ سارا جیون ہی منور کر گیا۔ مگر میرے رشتےداروں نےیہاں بھی سانس نہ لینے دیا۔ فرق بس یہ پڑا کہ پہلے انہوں نے بے اعتنائیوں سے زندگی اجیرن کیے رکھی جبکہ اب وہ محبتوں سے مجھے اپنا بنانا چاہتے تھے۔ مگر مجھے اس سے بڑی الجھن ہونے لگی۔ میری طبیعت جب ان محبتوں سے آشنا ہی نہیں تھی تو میں کیسے اس کو قبول کر لیتا۔ اس لیے احتراز برتنے لگا۔ میری وہ کزنیں جو سیدھے منہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرتیں تھی اب وہی میرے آگے پیچھے پھرنے لگیں۔
میں بھی آخر انسان تھا۔ میں بھی اکیلا چلتے چلتے تھک کر نڈھال تھا مجھے بھی ایک ساتھ کی ضرورت تھی، ایک ہمجولی کی جو میری دلجوئی کرتی۔ مگر میں ایسی بیوی چاہتا تھاجو مجھ سے صرف مجھ سے پیار کرے نا کہ ان مطلبی رشتےداروں کی طرح میرے سٹیٹس اور دولت کو چاہے۔
آج میں اکتیسویں سالگرہ پر گھر میں تنہااپنے باپ کو یاد کر رہا تھا کہ مجھے میرے ہوٹل والے کی بیٹی کا فون آیا کہ ابو جی ہسپتال ہیں اور آپ کو یاد کرتے ہیں۔ میں بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچا تو دیکھا کہ میرا محسن کس بےکسی سے اپنے دن پورے کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں۔ وہ کہنے لگا اس لمبی بیماری نے اسے بہت فائدہ دیا ہے۔ میں سب کو پہچان گیا ہوں اور خود کو بھی۔ آج نفسانفسی کا دور ہے، پتہ نہیں ان مصروف لوگوں کو مجھے دفنانے کی فرصت بھی ملے گی کہ نہیں؟ بیٹا میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے بن جاؤ۔ اگر چہ میں اس کی بات سمجھ گیا تھا مگر میری آنکھوں میں چھپی حیرت کو دیکھ کر کہنے لگا، پلیز آپ اسے ایک بار دیکھ لو، یہ کہتے ہی اس نے بیل بجائی اور، اور وہ کمرے میں آئی تو میری حیرت گم ہو گئی کہ یہ تو وہی ہے جسے میں یونیورسٹی میں پسند کرتا تھا مگر کبھی اس کے رعب حسن نے مجھے اپنا مدعا کہنے نہ دیا، اور آج وہ ایک پکے ہوئے پھل کی طرح میری جھولی میں آگری تھی۔
وہ دبستان حسن کے مشرقی باب کا شاید آخری مستند حوالہ تھی۔ مجھے وہ الفاظ کسی لغت میں نہیں ملے جو اس کی خاموشی ادا کرتی تھی، اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں میں جیسے خانہ بدوش امیدوں نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا۔ مگر اس کی جواب آنکھوں میں ہزاروں سوال بھی خیمہ زن تھے۔ اس کی خواب آنکھوں اور چہرے میں اک خوبصورت سا تضاد تھا۔ یہ عشق کے سودے بھی عجیب ہوتے ہیں سودوزیاں سے مبرا۔ ہم جب بھی آمنے سامنے آئے ایک پاگل سی چپ ہمارے درمیان در آئی۔ شاید اسے ہی پوجنا کہتے ہیں۔ اور پھر آج۔ آج میرا حسین خواب تعبیر کے نقش ونگار سے سجا سنورا میرے سامنے تھا۔ اور اگر آج میں چپ رہ جاتا تو شاید ایک سناٹا ، ایک خاموشی میرے اندر در آتی اور میں سدا خاموش ہو جاتا۔ اس لیے۔ اسی لیے میں نے اپنے محسن کو فوراََ سے بیشتر ہاں کر دی۔ میرے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ اس نے اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑ میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔ جسے میں نے کس کر پکڑ لیا کبھی نہ چھوڑنے کے لیے۔
آہ! مگر اس کا باپ زیادہ دیر نہ جی سکا۔

Comments

Click here to post a comment