ہوم << نفرت کب جنم لیتی ہے - محمد تنویر اعوان

نفرت کب جنم لیتی ہے - محمد تنویر اعوان

محمد تنویر اعوان آج سے 14سوسال قبل دنیامیں ایک عظیم اسلامی مملکت کی بنیادرکھی گئی۔اس اسلامی مملکت میں مسلمان عیسائی یہودی اوردیگرمذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کبھی کوئی بڑاسانحہ نہیں ہوا۔کبھی یہ مختلف مذاہب کے لوگ آپس میں نہیں لڑے۔یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ عصر حاضر کے دہشت گردقراردیئے جانے والے مذہب کے ماننے والوں کی حکومت ہو اور وہاں اقلیتوں کوحقوق بھی حاصل ہوں ۔ان سے امتیاز بھی نہ برتاجائے۔تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے علم میں ہونے کے باوجود کہ یہودی اسلامی ریاست کے خلاف سازشوں میں مصروف کبھی اسلامی ریاست میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جو کہ امن و امان میں خرابی کاباعث بن سکے۔
اگر ہم جائزہ لیں تو یہ بات کھل کرسامنے آتی ہے کہ کمال انسانوں کا نہ تھا کیوں کہ یہودی بھی انسان تھے مسلمان بھی انسان تھے ۔یہ کمال ان تعلیمات کا تھا جو وقت کے حکمرانوں کی جانب سے دی گئیں۔وہ احکامات تھے جو محسن انسانیتﷺنے دیئے تھے۔یہ وہی احکامات تھے یہ وہی تعلیمات تھیں کہ جب بیت المقدس فتح ہوتا ہے تو کسی گرجا گھر کونہیں گرایاجاتا کسی چرچ کونہیں گرایا جاتا۔وہ تعلیمات کیا تھیں ۔مساوات،اخوت،عدل وانصاف،بھائی چارے پر مبنی ایسی تعلیمات کہ جو کسی اورمذہب کے ماننے والوں کے پاس نہیں تھیں۔اسلام نے حقوق وضع کئے تو صرف مسلمانوں کیلئے نہیں بلکہ غیرمسلموں کے حقوق بھی بتادیئے۔پڑوسیوں کے حقوق بیان کئے تو بلاتخصیص کہہ دیا گیا کہ پڑوسی بھوکا رہا تو تم سے بھی سوال ہوگا۔
ہم برصغیر میں آتے ہیں یہاں بھی ایک طویل عرصے تک مسلمان ،ہندو،سکھ ،عیسائی اور دیگر مذاہب والے ایک ساتھ رہے۔لیکن کبھی مذہب کی بنیادپر آپس میں نہیں لڑے۔یہاں بھی مسلمانوں کی ایک ہزارسال تک حکومت رہی لیکن کبھی کوئی مسئلہ نہ ہوا ۔ آج جس دین کو انتہاپسندی اوردہشت گردی کی جڑقراردیاجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے مسلمانوں کا غیرمسلموں سے برتاؤبہترین رہا ۔کبھی کوئی ایسا بڑا واقعہ نہیں ہوا جو ہندومسلم تفریق کا باعث بن سکے۔مسلمانوں کے دربار میں اکثریتی حکومتی عہدوں پر ہندو اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی فائز رہے۔ مسلمانوں نے محبت اور بھائی چارے کی فضاء کو دوام بخشنے کے لیے ہندوؤں میں شادیاں بھی کیں۔
اب مہا سوال یہ ہے کہ جب سب کچھ اچھا رہا ہے تاریخ شاندار ہے تو یہ نفرتیں کہاں سے امنڈ آئیں۔انسانی فطرت میں محبت ہے انسان محبت چاہتاہے لیکن مفاد بھی انسانی فطرت کا اہم جز ہے عقیدت بھی انسانی فطرت کاسب سے اہم حصہ ہے ۔اب یہاں بات آتی ہے تعلیمات کی۔اگر ہم یہودیوں کی مقدس کتابوں کا مطالعہ کریں یہودی ربیوں کی باتیں سنیں تو وہ ایک ہی بات کرتے ہیں۔ماضی میں مسلمانوں اورعیسائیوں نے ہمیشہ یہودیوں کودھوکہ دیا ہے۔ان سے جنگیں کی ہیں لیکن اب ایک مسیحا آنے والا ہے ۔جو پوری دنیا پر یہودیوں کی حکومت قائم کرے گا۔اس کی حکومت کے قیام کی راہ میں مسلمان اورعیسائی رکاوٹ ہیں اس لئے ان کا خاتمہ ضروری ہے۔اب یہ تعلیمات نسل درنسل چلی آرہی ہیں۔عقیدت والوں نے مسلمانوں اورعیسائیوں کو اپنا دشمن اولین فرض کرلیاہے۔مفاد والے بھی کسی صورت دنیاکی حکومت سے دستبردارنہیں ہونا چاہتے۔جو بچ جاتے ہیں وہ مذہب سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔اسی طرح عیسائی پادری کسی مسیح کے منتظر ہیں جو یہودیوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر عیسائیوں کی حکومت بنائے گا۔ اب ان کا حال بھی یہودیوں والا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے چونکہ دین اسلام اور اس کے معلمین نے ایسی کوئی تعلیم نہیں دی اس لئے ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔یہاں امام مہدی کا تزکرہ ضرور ملتا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے گا تو امام مہدی آئیں گے۔یہاں بھی معلمین کہتے ہیں کہ یہودی و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے۔بالکل صحیح بات ہے کہ دوست نہیں ہوسکتے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم ان سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں۔اسلام تو اہل کتاب میں شادی کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن ہم نے زہنوں میں پکا کرلیا کہ یہ ہمارے دوست ہوہی نہیں سکتے اس لئے ان تک اسلام کی دعوت بھی نہیں پہنچانی کیونکہ اس کے لئے مکالمہ کرنا ہوگااور مکالمے کے لئے دوستی ضروری ہے۔بہرحال چونکہ مسلمانوں کو یہودونصاریٰ سے متعلق ذیادہ کچھ نہیں ملا تو انہوں نے آپس میں ٹی20شروع کرلیا۔سلفی سنی،وہابی اہل حدیث،دیوبندی بریلوی کے نام پر تفریق پیدا کی اورایک دوسرے کو اسلام کا دشمن قراردیکر جنگ کا علم بلندکیے ہوئے ہیں۔مسلمان علماء خود کہتے ہیں کہ ہمیں یہودیوں عیسائیوں ہندوؤں سے نہیں اپنے ہی مسلمانوں سے خطرہ ہے۔
اچھا یہ سب تو پہلے بھی تھا لیکن اب اس قدر کھل کرکیوں نفرت کا اظہار کیا جارہا ہے تو عرض کیا اس وقت مسلمان حکومت میں تھے۔تاریخ شاہد ہے مسلمان جیسے بھی رہے ہیں۔ دیگر کی بہ نسبت معتدل مزاج رہے ہیں۔ مسلمان کبھی بھی انتہاپسند نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اس قدر نفرت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری جانب یہودی طویل عرصے تک مسلمانوں کے زیرنگیں رہے۔ عیسائیوں کے ہاتھ سے بیت المقدس مسلمانوں نے لیا۔ عیسائی بھی صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں شکست دوچار ہوتے رہے ہیں۔سونے پر سہاگہ برصغیر میں مسلمانوں نے اقلیت میں ہونے کے باوجودایک طویل عرصے تک برہمن سماج پر حکومت کی۔
اب مسلمان چونکہ حکومت کے مزے لوٹتے آرہے تھے تو ان کے پاس کسی سے نفرت کاجواز نہ تھا اس کے برعکس ہندوؤں عیسائیوں اور یہودیوں کے پاس بے پناہ جواز موجود ہیں۔یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جب سلطنت عثمانیہ زیرنگیں ہوئی اور ادھر ہند میں مسلمانوں کا دھڑن تختہ ہوا تو صدیوں کی نفرت کھل کر سامنے آگئی۔ بعض جگہوں پر تو اس نفرت نے عیاری کا روپ دھارا اور مسلمانوں کا آپس میں ہی ٹی 20 بھی کرایا، شام یمن عراق افغانستان کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان میں پوری قوت لگانے کے باوجود شیعہ سنی فساد کرانے میں ناکامی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دونوں برسراقتدار رہے ہیں اس لیے محرومی کا کوئی احساس نہیں ہے۔
یہاں ایک حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ ”نفرت“ کی بنیادی وجہ احساس محرومی ہے ۔احساس کمتری انسانی فطرت میں پائی جانے والی محبت کو نفرت میں تبدیل کردیتا ہے۔یہ احساس محرومی کیوں پیدا ہوتا ہے یا کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔اس میں بھی بنیادی کردارمذہب قومیت رنگ ونسل کا ہوتا ہے۔ایک مثال سے سمجھتے ہیں اگر کسی کو بارباراحساس دلایا جائے کہ تم تو قابل فخر گھرانے سے تھے تم مغلوں نے حکومت کی ہے اور تم یہاں ویٹرکا کام کررہے تو یقین جانیں اس کے گھر میں فاقے ہورہے ہوں گے لیکن وہ ویٹر کی نوکری چھوڑ دے گا۔
یہ احساس برتری اوراحساس کمتری ہی تو ہے جو انسان کی عقل کو منجمد کردیتا ہے ۔سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو چھین لیتاہے۔اس احساس کا مداوہ اہل دانش کا طبقہ کیا کرتا تھا لیکن اب دانشور اس احساس کو اپنے طنز کے نشتر چلاکر مزید گہراکرنے میں مصروف عمل ہیں۔مسئلہ انسانی فطرت میں ہے ۔اس کو جیسا سمجھایا جائے ویسا ہی سمجھتی ہے۔ دنیا میں سب سے پہلا قتل بھی احساس برتری کے زعم میں کیا گیا۔ یہ احساس برتری ہی تھا جو نفرت میں تبدیل ہوا اور عزازیل بارگاہ خداوندی سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلا۔ میرا ماننا ہے انسان کو انسانیت سکھائی جائے ہر وہ تعلیم جو انسان کو انسان سے نفرت سکھاتی ہے وہ رب کعبہ کی دی ہوئی تعلیم ہرگزہرگز نہیں ہوسکتی۔نفرت اسی وقت ختم ہوگی جب احساس برتری اوراحساس کمتری کو ختم کیا جائے گا، مساوات کا درس دیاجائے گا۔ اور یہ کام اہل علم ودانش کیا کرتے تھے اور آج بھی یہی طبقہ اگر آگے آکر اپنا کردار اداکرے تو یہ نفرتیں مٹائی جاسکتی ہیں۔