ہوم << واقعۂ کربلا پر ایک پُراثر نظم‌ - مفتی راشد حسین قاسم

واقعۂ کربلا پر ایک پُراثر نظم‌ - مفتی راشد حسین قاسم

مفتی راشد حسین قاسم آج دس محرم الحرام کا دن اپنی خصوصیات و فضائل کے ساتھ امت مسلمہ پر جلوہ افگن ہے۔ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ تاریخی لحاظ سے کئی حوالوں سے یادگار اہمیت کا حامل ہے ۔دیگر فضائل و خصوصیات کے علاوہ اس ماہ کی ابتداء، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے یومِ شہادت سے ہوتی ہے اور پھر دس محرم الحرام، نواسۂ رسول ﷺ اور سردارِ نوجونانِ جنت حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا یومِ شہادت ہے۔اگرچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دلخراش واقعے کو رونما ہوئے سینکڑوں برسگزر چکے ہیں تاہم اس کا اثر رہتی دنیا تک کے لیے ایک عظیم درس کی صورت اختیار کرکے تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو کر رہ گیا ہے۔ اب جہاں بھی دین کی خاطر قربانی، آزمائش جدوجہد اور پامردی کی بات آئے گی وہیں اسوہ حسینی عملی صورت میں قابلِ تقلید نمونے پیش کرتا رہےگا۔
اسلامی تاریخ کے اس پرالم سانحے کا اثر جہاں ایک عام مسلمان پر ہوا وہیں مسلم و غیر مسلم شعراء و ادباء نے روایتی و غیر روایتی انداز میں مرثیے، نوحے، سلام اور نظم و نثر میں شہدائے کربلا اور ان کی قربانیوں کو سلامِ عقیدت و نذران محبت پیش کیا ہے اور ہر شاعر نے کسی نہ کسی انداز میں اپنا دامن، اس سعادت سے بھرنے کی کوشش کی ہے ۔یقیناً اسلامی تاریخی و مذہبی واقعات کو موضوعِ سخن بنانا ہر شاعر اپنے لیے باعثِ سعادت و ذریعۂ نجات گردانتا ہے تاہم ان سعادت کے حصول کے ساتھ ساتھ ایسی قبولیت بہت ہی کم لوگوں کے حصے میں آتی ہے کہ ان کا کسی خاص واقعے و موضوع سے متعلق شعر شہرت کی بامِ عروج کو پہنچ کر خود بھی امر ہو جائے اور اپنے خالق کی پہچان کا ذریعہ بھی بن جائے۔ ایسے خوش قسمت اشعار جو ضرب المثل بن کر زندہ و جاوید ہو گئے، میں سے ایک شعر واقعۂ کربلا سے متعلق مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ہے، جو اس حوالے سے ہر طبقۂ فکر کی تحریر و تقریر کا حصہ بن کر اپنے مصداق و مفہوم کی بھرپور انداز میں ترجمانی کرتا نظر آتا ہے۔ شعر ملاحظہ ہو:؏
قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اگر بنظر ِغائر دیکھا جائے تو واقعی یہ شعر اس قابل ہے کہ اسے یاد رکھا جائے کیونکہ اس میں ہرکربلا سے ہر شہادت گاہ مراد لے کر قربانی و شہادت کو احیائے اسلام کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، اور اس طرح اس واقعے سے حاصل ہونے والے تاریخی سبق کو بڑے خوبصورت پیرائے اور مؤثر انداز میں پیش کرکے ایک ابدی و آفاقی پیغام کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر مسلمانوں کے عظیم رہنما اور تحریکِ آزادی کے سرگرم لیڈر تھے۔ صحافت او ر اردو ادب سے لگاؤ اور انقلابی سوچ کے سبب انہوں نے بےشمار غزلیں و نظمیں مجاہدانہ رنگ میں لکھیں۔ مذکورہ بالا شعر بھی ان کی ایک غزل میں بطورِ مقطع کے شامل ہے، غزل میں چونکہ مضامین متفرق نوعیت کے ہوسکتے ہیں اس لیے مولانا جوہر کی اس غزل میں بھی دیگر شعراء کی مانند جذبۂ عشق و آزارِ عشق اور لطفِ تمنا جیسے موضوعات شامل ہیں تاہم مقطع اور اس سے ماقبل کے اشعار میں باہم ربط اور معنوی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اس غزل کا مطلع بھی خوب اور اردو کے مشہور اشعار میں سے ہے:
دورِ حیات آئےگا قاتل، قضا کے بعد
ہے ابتدا ہماری تری انتہا کے بعد
اس شعر کو اگر شہادتِ حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اسوۂ حسینی کی ہمہ گیری، آفاقیت،اور بقا کی وجہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجر سامنے آ جاتی ہے۔ مولانا جوہر کی اس غزل کے مقطع میں تلمیحی کیفیت کے لطف اور اثر انگیزی نے اس شعر کو امتیازی شان عطا کر دی ہے۔
اتنی بات واضح ہے کہ مولانا جوہر کی غزل، مقطع کے علاوہ عمومی مفہوم کے ایسے اشعار پر مشتمل ہے جو ان کے معاصر شعراء کے دواوین میں بکثرت پائے جاتے ہیں مگر زمانۂ قریب کی ایک شخصیت ایسی بھی گزری ہیں کہ جو عمومی حلقوں میں شاید شاعر کی حیثیت سے تو کم ہی مشہور تھیں لیکن انہوں نے نہ صرف مولانا جوہر کی پیروی اور مذکور الصدر غزل کی زمین میں کربلا کے حوالے سے ایک مکمل اور بلند پایہ نظم کہی بلکہ مولانا جوہر کی غزل میں قافیہ کے طور پر موجود لفظ کربلا کو اپنے مابعد کے ساتھ بطورِ ردیف استعمال کرکے اپنے زورِ بیان، ندرتِ خیال، شعورِ فکر و نظر اور قادرالکلامی کا بہترین ثبوت بھی پیش کیا ہے۔
نظم نقل کرنے سے پہلے صاحبِ نظم کا تعارف اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کے تعلقِ قلبی و محبتِ ایمانی کا تذکرہ کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔ اس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ حقیقی محبت اور ہم جیسوں کے محض دعوی محبت میں کس قدر فرق ہوتا ہے اور جب کسی برگزیدہ ہستی کی محبت دل میں پیوست ہوتی ہے تو اس کا اثر کیسے ظاہر ہوتا ہے۔ اس نظم کے خالق کا نام مولانا سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب (نفیس رقم) رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو تھے، اگرچہ عام حلقوں میں ان کی اصل وجہِ شہرت فنِ خطاطی میں ان کی کمالِ دسترس تھی تاہم اس کے ساتھ ساتھ وہ خوش کلام و خوش گلو شاعر بھی تھے اور مرجعِ خلائق شیخِ طریقت بھی۔ تصوف کی طرف ان کے رجحان اور اپنے نام کے ساتھ ”الحسینی“ لکھنے کی وجہ ان کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
”اگرچہ شروع ہی سے مذہبی رجحانات کا غلبہ تھا لیکن 1953ء طبیعت تمام تر تصوف کی طرف مائل ہوگئی، میں تصوف میں سیّدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی محبت کے شدید جذبے کے تحت داخل ہوا، انہی کی محبت نے مجھے دینِ اسلام کا پُرعزیمت رستہ دکھایا اور طریقت کی طرف مائل کیا؏
اپنے اللہ کا صد شکر ادا کرتا ہوں
جس نے وابستہ کیا دامنِ شبیر کے ساتھ
اپنے مورثِ اعلٰی امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی عزیمت، بےمثال قربانی، صبر واستقامت اور علوّ ِشان کے مقابلے میں اپنی درماندہ زندگی کے حالات سے شرمندہ ہو کر انفعالی کیفیت میں دیر تک آبدیدہ رہا کرتا،گویا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے عقیدت و محبت میرے راہِ سلوک و طریقت اختیار کرنے کا پیش خیمہ بنی، اسی طرح میرے جد امجد حضرت خواجہ گیسو دراز ؒ سے فطری محبت کے باعث آپ کے نام کے جزوِ آخر ’’ محمد الحسینی‘‘ لکھنا بھی ترغیب دلائی، گویا سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے محبت و عقیدت میرے راہِ سلوک و طریقت اختیار کرنے کا مقدمہ اور پیش خیمہ بنی۔“ (برگ گل ص33)
اسی جذبۂ عشق و محبت نے ان کے قلم سے”اسوۂ شبیر“، ”ذکرِ حسنین“ اور ذیل میں درج ”کربلا کے بعد“ جیسی ولولہ انگیز نظمیں تخلیق کروائیں اور ان کو مجاہدانہ و سرفروشانہ جذبات سے ہم آہنگ کیا اور شیخ طریقت بنا کر ہزاروں بندگانِ خدا کی ہدایت و رہنمائی کا ذریعہ بنایا۔
سیّد نفیس شاہ صاحب کی شخصیت پر آلِ رسول ﷺ کی محبت کا اثر جان لینے کے بعد ہمارے لیے بھی آج کے دن کے حوالے سے حقیقی محبت و غم اور محض دعوٰی محبت میں فرق کرکے اپنے طرزِ عمل کا ازسرِ نو جائزہ لینا چاہیے کہیں ہماری کیفیت، اثر صاحب کے اس شعر کی طرح تو نہیں ؟؏
ہم ایسے خود غرض عشّاق ہیں کہ اپنے آقا کی
اطاعت بھول جاتے ہیں محبت یاد ریتی ہے
اب ذیل میں مولانا سیّد نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مولانا جوہر کے مصرعہ طرح پر کہی گئی نظم پیشِ خدمت ہے:
لایا ہے خون، رنگِ دگر کربلا کے بعد
اونچا ہوا حسین کا سر کربلا کے بعد
پاسِ حرم، لحاظِ نبوت، بقائے دیں ،
کیا کچھ تھا اس کے پیشِ نظر کربلا کے بعد
اے رہ نوردِ شوق، شہادت ترے نثار
طے ہوگیا ہے تیرا سفر کربلا کے بعد
آباد ہو گیا حرم ربِّ رسول کا
ویراں ہوا بتول کا گھر کربلا کے بعد
ٹوٹا یزیدیت کی شبِ تار کا فسوں
آئی حسینیت کی سحر کربلا کے بعد
اک وہ بھی تھے کہ جان سے ہنس کر گزر گئے
اک ہم بھی ہیں کہ چشم ہے تر کربلا کے بعد
جوہر کا شعر صفحۂ ہستی پہ ثبت ہے
پڑھتے ہیں جس کو اہلِ نظر کربلا کے بعد
’’قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد‘‘

Comments

Click here to post a comment