ہوم << سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار اورحکومت کی چالاکیاں - محمد عامر خاکوانی

سیرل المیڈا کی سٹوری، ڈان اخبار اورحکومت کی چالاکیاں - محمد عامر خاکوانی

صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں‌ ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں‌کرنا چاہیے۔
بات سادہ سی ہے کہ اخبارنویس کے پاس خبریں بہت سی آتی ہیں، کچھ کو حکومتیں چھپوانا چاہتی ہیں تو کچھ کو چھپانا۔ افراد، تنظیموں، محکموں کے حوالے سے بہت سا مواد اخبارنویسوں کی میزوں، کمپیوٹرز اور موبائلز میں گردش کرتا رہتا ہے۔ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کسی خبر کو ثابت بھی کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ بہت سی سینہ گزٹ خبریں، اقتدار کی غلام گردشوں میں گھومتی افواہیں، ڈرائنگ رومز میں کہی جانے والے گپیں، قصے کہانیاں، گوسپ اخبار نویسوں‌کی دسترس میں ہوتی ہیں، انہیں مگر شائع یا نشر نہیں کیا جا سکتا، نہیں‌کیا جاتا۔ یہ سوچ کر کہ یہ کل کو انہیں ثابت کرنا پڑا تو کیسے کیا جائے گا؟ خبر دینے والا باخبر شخص، وزیر، مشیر کچھ بھی سہی، مگر وہ آف دی ریکارڈ کچھ کہہ رہا ہے یا کچھ بتانے کے بعد صاف کہہ دیتا ہے کہ میں کل کو اسے کنفرم نہیں کروں گا، تو پھر یہ خبر نہیں رہتی، یہ صرف بیک گرائونڈر کے کام آتا ہے۔ اخبارنویس اس کی روشنی میں خبر کھوجنے کی کوشش کرتے ہیں، آن دی ریکارڈ کسی اہم آفیشلز سے ایسی بات اگلوانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی بنیاد پر خبر فائل کی جا سکے، یا پھر ایسی خبریں بین السطور شائع کی جاتی ہیں، اشاروں‌ کنایوں میں، کوئی سمجھے نہ سمجھے۔ یا پھر یہ کالم نگاروں‌کے کام آتی ہیں جو بین السطور لکھنے کے ماہر ہوتے ہیں، کوئی لطیف اشارہ، استعارہ، کسی حکایت، لوک کہانی، فرضی واقعے کی آڑ میں وہ خبر بریک کی جاتی ہے یا اپنے سمجھدار قارئین تک پہنچائی جاتی ہے۔ اسلام آباد رہنے والے اخبار نویس تو خبروں کے ہجوم میں زندگی گزارتے ہیں، میرے جیسے کم آمیز، گوشہ نشین قسم کے صحافی کے پاس بھی کئی افواہ نماخبریں گھومتے گھامتے پہنچ جاتی ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں وہ افواہ بغیر کسی ثبوت کے خبر بنا کر فائل کر دوں۔ ویسے اگر خبر فائل کر بھی دی جائے تو ایسی حساس نوعیت کی خبریں اعلیٰ ترین ادارتی اپروول کے بغیر شائع نہیں ہوسکتیں۔ صرف ایڈیٹر ہی نہیں بلکہ مالکان کی سطح پر منظوری لازم ہے۔ جو خبر ڈآن نے چھ اکتوبر کو شائع کی، معلوم ہوتا ہے کہ اس پر غور و فکر نہیں کیا گیا یا بہت اچھی طرح غور و فکر کرنے کے بعد ہی شائع کیا گیا، مستقبل کے خطرات کا بخوبی اندازہ کر کے۔ یاد رہے کہ ایسا صرف مالکان کی منظوری ہی سے ہونا ممکن ہے۔
سیرل المیڈا سے میری ملاقات ہے، افغانستان کا سفر ہم نے ایک وفد میں اکٹھے کیا تھا۔ سادہ شخصیت کا مالک، نرم مزاج سیرل ایک پروفیشنل صحافی لگا مجھے۔ یہ اندازہ ہوا کہ وہ خبر کے معاملے میں بہت زیادہ پرجوش تھا۔ کابل ہی میں ایک رفیق نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل افغانستان کے شمالی علاقوں میں اس نے سیرل کے ساتھ سفر کیا اور کئی بار زندگی موت کا معاملہ بن گیا۔ انہیں‌خدشہ تھا کہ کسی کو یہ علم ہوگیا کہ ایک غیر مسلم صحافی سفر کر رہا ہے تو پھر تو موت یقینی ہے، بےپروا اور خاموش طبع نوجوان سیرل المیڈا نے مگر یہ رسک لیا۔
اس خبر کو چھاپتے وقت میرے خیال میں سیرل المیڈا دانستہ یا غیر دانستہ طور پر استعمال ہوا ہے۔ ایک ضرورت سے زیادہ پرجوش صحافی کی طرح اس نے گرم لقمہ نگل لیا، نتائج و عواقب سے بے خبر ہو کر۔ یہ اس طرح کی خبر تھی، جس کی تردید آنا لازم تھا، یہ بھی یقینی تھا کہ جن لوگوں سے بقول اس کے اس نے بات کی، ان میں سے بعد میں کوئی بھی اسے کنفرم نہیں‌کرے گا، کوئی اتنی جرات نہیں کرے گا کہ پبلک میں‌کھڑا ہو کر سٹینڈ لے سکے۔ ایسے میں احتیاط کرنا چاہیے تھی، جو نہیں کی گئی، سیرل کے لیے مسائل پیدا ہوئے تو اس کی ذمہ داری خود اس کی اپنے نان پروفیشنل رویے پر عائد ہوتی ہے۔
یہ خبر یوں شائع کی گئی جیسے حکومتی حلقوں سے اس ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کے منٹس اسے فراہم کیے گئے، سیرل المائیڈہ نے ان منٹس کو یوں‌ ہی روانی میں شائع کر دیا۔ اس قسم کی خبریں یوں قطعیت سے ہرگز نہیں شائع کی جاتیں۔ اسے عمدگی سے بنایا گیا نہ ہی صحافتی تقاضوں کے مطابق اسے ڈیل کیا گیا۔ اس میں تمام فریقوں‌ کا مؤقف شامل نہیں، لوگوں کے نام تک انتہائی قطعیت سے بیان کر دیے گئے، کیا رپورٹر نے یہ نہیں سوچا کہ کل کو جب اس پر سوال اٹھے گا تو پھر اس خبر کو وہ کس طرح ثابت کرے گا؟ کیا صرف یہ بات خبر کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ڈان نے اسے چھاپا ہے یا سیرل المیڈا نے اسے فائل کیا ہے؟ ظاہر ہے اس سے خبر کنفرم نہیں ہوجاتی۔ ڈان ایک اہم اخبار ہے، جس کی مناسب قسم کی کریڈیبلٹی ہے، اگرچہ پچھلے چند برسوں میں ڈان نے اپنے کئی قابل احترام صحافیوں‌ کو کھونے کے ساتھ اپنی کریڈیبلٹی اور معیار میں بھی خاصی کمی لائی ہے۔بہرحال ڈان پھر بھی ایک مناسب حوالہ ہے، مگر یہ خبر کی تصدیق کے لیے کافی نہیں، ہاں قاری یہ سوچ سکتا ہے کہ ڈان نے خبر چھاپی ہے تو اس کے پاس اس کے ثبوت موجود ہوں گے۔ ڈان کو وہ ثبوت پریس کونسل یا دیگر متعلقہ فورمز پر پیش کرنے چاہییں۔
جہاں‌تک اس سٹوری کا تعلق ہے جس میں سول ملٹری کے مابین اختلافات کی نوید سنائی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ فوج اور ایجنسیوں کی وجہ سے سویلین حکومت کو عالمی سطح پر تنہائی کا سامنا ہے۔ اس سٹوری کے بارے میں دو باتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ خبر غلط ہے، دوسری یہ کہ خبر درست ہے اور اس ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کی تفصیلات کسی نے رپورٹر تک لیک کی ہیں۔ اگر یہ خبر درست ہے اور یہ واقعہ اسی طرح پیش آیا جیسا نقشہ ڈان کی سٹوری میں کھینچا گیا تو یہ نہایت پریشان کن بات ہے۔ ایک انتہائی ٹاپ سیکرٹ میٹنگ کے منٹس یعنی اس کی نمبر وار تفصیلات کون ایک اخبارنویس کو بغرض اشاعت دے سکتا ہے۔ یہ قومی جرم سے کم نہیں۔ اگر اس قدر اہم کلاسیفائیڈ میٹنگز کی تفصیلات رپورٹرز تک پہنچائی جا سکتی ہیں تو پھر کسی کے پاس بھی یہ اطلاعات جا سکتی ہیں۔ را جیسی ملک دشمن تنظیموں کو پھر تو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ہماری حکومت اتنی غیر ذمہ دار ہے کہ اداروں کو نقصان پہنچانے کے لیے وہ کلاسیفائیڈ معلومات بھی لیک کر دیتی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور جس شخص نے ایسا کیا، اسے سزا ملنی چاہیے۔ ہم ایسی آزادی صحافت کے قطعی قائل نہیں جس کے صفحات ملکی مفاد کی دھجیاں اڑا کر ترتیب پاتے ہوں، ملک دشمن قوتوں کا جو ہتھیار بنے۔
اگر یہ خبر درست نہیں تو پھر اخبار اور رپورٹر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ نہایت سادہ بات ہے۔ ایک انتہائی اہم کلاسیفائیڈ میٹنگ کی تفصیل ایسے من گھڑت انداز میں بنا کر، فرض کر کے لکھنا، چھاپنا انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہ ہمارے صحافتی ضابطہ اخلاق کے بھی خلاف ہے اور ہمارے نیشنل سکیورٹی معاملات اس سے بری طرح‌ متاثر ہوسکتے ہیں۔ اگر آج اس جھوٹی خبر کو برداشت کر لیا گیا تو کل کو کوئی ایسا بڑا دھماکہ ہوسکتا ہے جس سے ملک شدید بحران کا شکار ہوجائے۔
اگر یہ خبر درست ہے اور حکومت نے خود لیک کرائی تاکہ قومی اداروں کو دبائو میں‌ لیا جا سکے اور اب مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اس خبر کی تردید کی جا رہی ہے، تب یہ معاملہ بہت زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔ ایسی حکومت کو ملک چلانے کا کوئی حق نہیں۔ تاہم یہ انتہائی سنگین صورت ہے اور اب جبکہ حکومت کی جانب سے سخت ترین تردید جاری کی جا چکی ہے، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ حکومت کا مؤقف درست ہے اور اخبار اور رپورٹر نے یہ من گھڑت خبر شائع کی ہے۔
ایسی صورت میں یہ ہرگز آزادی صحافت کا معاملہ نہیں بلکہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ صحافت کا ایشو بن جاتا ہے۔ اخبار نے خبر شائع کی، اس پر سٹینڈ لیا جا رہا ہے، رپورٹر مصر ہے کہ وہ درست ہے۔ ایسی صورت میں انہیں اپنی خبر کے حوالے سے ثبوت دینے چاہییں۔ آخر کن بنیادوں پر انہوں‌ نے اتنی بڑی خبر دی اور پھر اس پر سٹینڈ بھی لے رہے ہیں؟ وہ چیزیں متعلقہ فورمز پر سامنے آنی چاہییں، تب تک رپورٹر کو آزادی صحافت کے نعرے کے پیچھے پناہ نہیں ڈھونڈھنی چاہیے۔ میڈیا اور ہم صحافیوں پر الزام لگتا ہے کہ یہ لوگ مافیا سے کم نہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس ڈان ٹائپ، مافیا سٹائل سے نکل کر ملکی قوانین کا احترام کرنا سیکھا جائے، بغیر ثبوت کے غیر ذمہ داری سے کچھ نہ شائع کیا جائے۔ اس کے لیے مگر ضروری ہے کہ جس نے ایسا کیا، جس نے ایسا کرایا، انہیں قانون کے دائرے میں‌لایا جائے۔
اطلاعات کے مطابق سرل المیڈا کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لیے فوج یا حساس اداروں نے نہیں کہا، یہ پھرتیاں بھہ حکومت نے دکھائی ہیں، شاید دنیا کو دکھانے کے لیے کہ ہمارے ادارے کس قدر آزادی صحافت کے مخالف ہیں یا پھر صحافتی اداروں کو قومی اداروں کے مقابل کھڑا کرنے کے لیے یا پھر فوج کا نام بدنام کرنے کے لیے۔ جو حکومت اس خطرناک دور میں کہ جب دشمن ملک جنگ کی تیاری میں ہے اور دھمکیاں دے رہا ہے، اپنے اداروں کے یہ سلوک کرے، اس سے کسی بہتری کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے.
صاحبو! یہ آزادی صحافت کا معاملہ ہرگز نہیں‌ ہے۔ سیرل المیڈا کوئی منہاج برنا یا حسین نقی ہے نہ ہی ڈان آزادی صحافت کا مقدمہ کندھے پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ غیر ذمہ دارانہ صحافت، ایک حد سے زیادہ پرجوش یعنی صحافی کا معاملہ ہے، جس نے ضرورت سے زیادہ گرم لقمہ نگل لیا اور اب زبان جلنے پر سی سی کر رہا ہے۔ اس معاملے میں اصل کردار حکومت کی چالاکیوں اور حکومتی مشیروں کی اوورسمارٹنس کا ہے، جسے ہرگز نظر انداز نہیں‌ کرنا چاہیے ۔

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment