سنو مجھے تم مجھے لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ایک معصوم سا بچہ میلے سے کپڑوں میں اداس آنکھوں میں بہت سے سوال لیے مجھ سے ہی مخاطب تھا۔
اس علاقے میں مجھے آئے دوسرا دن تھا۔ میرا تعلق صحافت کے شعبے سے تھا اور زلزلہ زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد مجھے اس کی رپورٹنگ کرنی تھی۔
تم نے مجھ سے کچھ کہا۔ میں نے اس سے پوچھا۔
سنو! کیا تمہارے پاس لوریوں کا پیکٹ ہے؟
وہ پھر مجھ سے مخاطب تھا۔
جی ام (ہم) نے تم سے پو چھا ہے۔ لوریوں کا پیکٹ لا کر دے سکتی ہو یا نہیں۔
وہ وہ ... وہ کچھ کہتے کہتے ایک دم رک گیا۔
کہو! کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس کے لہجے میں کچھ تو ایسا تھا جو مجھے اس کے قریب کر رہا تھا۔
ام کو رات کو ڈر لگتا ہے، نیند بھی نہیں آتی۔ وہ بہت افسردگی سے بولا تھا۔
ادھر بہت لوگ آتا ہے، بہت سامان بھی لاتا ہے، کھانے کا بھی دوسرا بھی لیکن ام کو کوئی لوریوں کا پیکٹ نہیں لا کر دیتا۔
ادھر تمہارے شہر میں بھی نہیں ملتا کیا؟
میں ابھی تک اس بچے کوحیرت سے دیکھ رہی تھی، اس بچے کی عمر اتنی چھوٹی ہے لیکن سوچ اور مشاہدے میں وہ بچہ بڑوں کو بھی مات دے رہا تھا۔
سنو بہن جی! پریشان نہ ہو، ام کو پتہ ہے تم بھی نہیں لا کر دے سکتی۔ ہاں! اگر پلوشے ادھر ہوتا نا، خدا کی قسم ہمیں تو کوئی مشکل ہی نہیں تھی، وہ ام کو خود ہی دے دیتا۔
میں ابھی تک اسی شش و پنج میں مبتلا تھی کہ یہ کس چیز کا نام ہے؟ ٹافیوں کا یا چاکلیٹ کا؟ یا یہ بچہ اصل میں اس لوری کی بات کر رہا ہے جو ایک چھوٹے بچے کو سلانے کے لیے دی جاتی ہے، لیکن اس کا پیکٹ وہ کہاں سے آئے گا۔
اچھا ام چلتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی گرد جھلملاتے تارے اس کے دکھ کی عکاسی کر رہے تھے۔
رکو! اس کے قدم وہیں رک گئے۔ تم کہاں رہتے ہو؟
اس نے سامنے ٹوٹے پھوٹے سے مکان کی طرف اشارہ کر کے کہا، ام ادھر رہتا ہے۔
اور کون کون ہوتا ہے تہمارے ساتھ۔
امارہ (ہمارا) بابا ہوتا ہے اور کوئی بھی نہیں ہے۔ ساتھ والی بے بے امارے کو کھانا دیتا ہے۔ ام سارا دن پھرتا رہتا ہے، کبھی کسی کا کام بھی کر دیتا ہے۔ تم کو پتہ ہے ام کس کو ڈھونڈتا ہے۔ پہلے ام پلوشے کو ڈھونڈتا تھا، پر سب کہتا ہے وہ بہت دور چلی گئی ہے۔ اوپر اللہ کے پاس۔ اور وہاں سے واپسی کا راستہ بھی نہیں بھی پتہ تو وہ کیسے آئے گی؟ ام کو لیکر نہیں گئی۔ اس کو بھی اکیلے ڈر لگتا ہے۔ پتہ نہیں میرے کو وہ یاد بھی کرتی ہے یا نہیں۔
اس کی ٹوٹی پھوٹی اردو سمجھ میں آ تو رہی تھی۔ میرے پاس آئو۔ تمہارا اپنا نام کیا ہے؟
امارہ (ہمارا) نام لعل خان ہے۔ کوئی ہمیں خانو کہتا ہے تو کوئی ہمیں لالے بلاتا ہے، اماری بہن ہمیشہ لعل خان بلاتی تھی، اپنی بہن کے ذکر پر اس کی آنکھوں میں ایک الگ ہی چمک تھی۔
کیا پلوشے تمہاری بہن تھی؟ میں نے اس سے پوچھا اور اس نے صرف ہاں میں گردن ہلانے پر ہی اکتفا کا۔
اس کی عمر بمشکل سات آٹھ سال ہوگی۔ کیا میں تمہارے ساتھ اس جھونپڑی میں جا سکتی ہوں جو تمہارا گھر ہے۔
لیکن تم کیا کرے گا ادھر جاکے۔ اس نے پوچھا.
ویسے ہی تمہارے بابا سے مل لوں گی۔ میں نے اس سے کہا۔
اچھا! اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔
وہ وہ راستے میں اس نے بولنا شروع کیا۔ بولو تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟ وہ .. وہ کچھ ہکلا سا گیا۔
پریشانی کے سائے اس کے چہرے سے عیاں تھے۔ بتائو لعل خان کیا ہوا ہے تمہیں؟ تم امارے بابا کو ہم سے دور تو نہیں لے جائو گے، کچھ نہیں کہو گے، انہیں مجھ سے جدا نہیں کرو گے، نہیں کرو گے.. نہیں..
اس پر ہیجان کی سی کیفیت طاری تھی۔ میرے پیار کرنے اور پانی پلانے پر وہ کتنی دیر مجھ سے چمٹا رہا۔ ایک انجانا سا خوف اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔
سنو! تم کہیں پلوشے تو نہیں ہو۔ مجھے لینے آئی ہو۔ اب وہ مجھے جھنجھوڑ رہا تھا۔
اور میں مارے حیرت صرف منظر بدلتے دیکھ رہی تھی کہ یہ بچہ پل میں کچھ اور پل میں کچھ ہے۔ اب میں اس جگہ موجود تھی جہاں اس نے اپنےگھر کا اشارہ کیا تھا، اور بے بے سے مل رہی تھی۔
بے بے دیکھو! ام نہ کہتا تھا کہ ایک دن پلوشے ضرور آئے گی۔ وہ بھی امارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہ خوشی سے اچھل رہا تھا۔
اؤے لالے! تم صبح سے کدھر تھا؟ تم کو آج بھوک بھی نہیں ہے، ناشتہ بھی نہیں کیا تھا تم کو، کچھ کھائو پیو، ام تمہاری پلوشے سے بات کرتا ہے۔ اے تم اس کو جانے مت دینا۔ لعل خاں نے پھر آواز لگائی۔
کیا میں آپ کو بے بے بلا سکتی ہوں۔ بلا لو بلا لو۔ یہاں سب ہمیں بے بے ہی بلا تا ہے. اس درمیانی عمر کی عورت نے جواب دیا۔
آپ لعل خان کے بارے میں کیا جانتی ہیں۔ میں نے دھیرے سے پوچھا۔
اؤے تم کیا پوچھتا ہے اس بچارے کے بارے میں؟ اس نے اتنا کچھ دیکھا ہے کہ اس کا دماغی حالت خراب ہوگیا ہے، کسی کسی ٹائم یہ نارمل بات کرتا ہے۔ جب یہ پیدا ہوا، اس کی ماں چل بسی۔ اس کی بہن اور باپ نے مل کر اس کی پرورش کی۔گائوں کی عورتیں بھی اس کی دیکھ بھال کر لیتی تھی، کیونکہ اس کا باپ کام پر جاتا تھا۔ اس کی بہن بھی زیادہ بڑی نہیں تھی، یہی کوئی دس سال کی ہوگی۔ لیکن اس نے اپنے باپ اور بھائی کی بڑی خدمت کی. لالے کو تو وہ اپنے سے بالکل الگ نہیں کرتی تھی۔ لوری گا گا کر تو وہ اسے سلاتی تھی اور لالا بھی اس کے ساتھ خوش رہتا تھا۔گاؤں والوں نے بڑا زور لگایا پلوشہ کے باپ کو کہ وہ دوسری شادی کر لے، لیکن اس کو اپنی بیوی سے بڑا پیار تھا جی۔
دوسرا وہ کہتا تھا کہ میں اپنے بچوں پر سوتیلی ماں کا سایہ نہیں پڑنے دوںگا۔ کیا پتہ آنے والی ان کے ساتھ کیسا سلوک کرے۔
یہ میری جنتے (جنت) کی نشانی ہے۔ لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظورتھا ۔اس روز قیامت تھی قیامت۔ ہر چیز تہس نہس ہو گئی تھی۔ میں نے بھی اپنے پیاروں کو کھویا ہے جی۔ سوچو تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔
کہنے کو زلزلے کی آفت تھی، پر جس کا سب کچھ ختم ہو گیا ہو اس کے لیے تو قیامت تھی قیامت۔
چار دن بعد ملبے سے لالے اور اس کی بہن کو نکالا تھا۔ یہ معصوم کس طرح اپنی بہن سے چمٹا ہوا تھا، بہت مشکل سے الگ کیا، بہن تو اللہ کو پیاری ہوگئی تھی، اس کی زندگی تھی، یہ بچ گیا۔ اس کا باپ بھی شدید زخمی تھا، وہ ہسپتال میں کتنا عرصہ پڑا رہا، چل نہیں سکتا تھا، پھر وہ بھی گذر گیا۔
لیکن یہ تو کہہ رہا تھا کہ اس کا بابا ادھر جھونپڑی میں رہتا ہے۔ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
ارے کدھر جھونپڑی میں، وہاں اس کے باپ کا فوٹو ہے بڑا والا، ادھر کوئی صاحب آیا تھا کہ ام اس کا علاج کروائے گا، اس نے فوٹو بنوائے تھے۔ کچھ سامان ادھر بستی میں سب کو دیا تھا۔ سب کے فوٹو بنے تھے مگر وہ ادھر دوبارہ نہیں آیا۔ لالا بےچارہ اپنے بابا کی فوٹو سے باتیں کرتا رہتا ہے یا سارا دن ادھر ہی پھرتا رہتا ہے۔اس کی ماں ہمیں بہن بلاتی تھی۔اس لیے بس ام اس کو اپنے سے دور نہیں کر سکا۔ ویسے بھی خدا ترسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے جی۔
اگر اس کی ماں کو ام نہیں بھی جانتا، تب بھی یہ ہمیں ملتا تو ام اس کو اپنے پاس رکھ لیتا، جو روکھی سوکھی کھاتا، اس کو بھی کھلا دیتا۔ جہاں امارہ پانچ بچہ کھاتا یہ بھی کھا لیتا۔ لیکن یہ ہے کہ ام اس کی بہن اور باپ کی کمی کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس کی بہن کی طرح اس کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ اس کو لوری نہیں دے سکتا۔
اس کی آواز میں عجیب ہی بات تھی، ایک سحر سا تھا، جب وہ گاتی تھی تو خود بخود آدمی نیند کی وادی میں چلا جاتا تھا، پھر یہ تو بچہ تھا جی۔ بے بے کی آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔ وہ خود تو گڑیا سی تھی اور چھوٹی بھی لیکن بستی والے اپنے بچے اس کے پاس چھوڑ کر کام پر چلے جاتے تھے، پرسکون ہو کر۔ لیکن افسوس ہوتا ہے کہ اس کے بھائی کو سنبھالنے کی ذمہ داری کسی نے نہیں لی۔
دکھ تو ہوتا ہے، مگر اس دکھ کا مداوا؟ کوئی بھی نہیں ہے جو اسے لوری دے سکے۔
ابھی بے بے کی بات جاری تھی کہ لالا آگیا، اؤے شکر ہے تم بیٹھا ہے۔ بے بے یہ پتہ ہے کون ہے؟ ارے اپنی پلوشے ہے۔ اب یہ ام کو لوریاں بھی دے گی۔ اس بچے کی خوشی دیدنی تھی اور میرا دل اچانک کٹ کر رہ گیا۔ اس نے مجھ سے اتنی سی دیر میں کتنی امیدیں وابستہ کر لی تھیں۔ اگر پھر اس کی امید ٹوٹ گئی تو؟ یہ تو پہلے ہی دماغی طور پر صحیح نہیں۔ میں خود سے الجھ گئی۔ یہ کون سا تانا بانا تھا جو مجھ سے بن ہی نہیں پا رہا تھا۔
عاشی عاشی۔ نمرہ نے پاس آکر مجھے جھنجھوڑ دیا. میڈم آپ کو کچھ پتہ ہے کہ آپ صبح سے غائب ہیں، ڈھونڈتے ڈھونڈتے یہ وقت آگیا ہے۔ فون کی پاور آف ہے، کم از کم اسے تو آن کر لو۔ ایڈیٹر صاحب الگ پریشان ہو گئے ہیں کہ ان کی ذہین فطین رپوٹر، کالم نگار، لکھاری، ان کی دست راست کہاں غائب ہوگئی؟
نمرہ تم اپنی بولتی بند کرو تو میں بھی کچھ عرض کروں۔ بے بے یہ میرے ساتھ کام کرتی ہے، ہم پانچ لوگ یہاں رپورٹنگ کے لیے آئے ہیں، اور نمرہ یہ بے بے ہیں، بستی والے انھیں بے بے بلاتے ہیں اور اس سے ملو، میں نے لعل خان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، یہ میرابھائی ہے نمرہ، آج خدا نے مجھے ایک بھائی بھی دے دیا، وہ رشتہ ملا ہے جس سے پہلے میں محروم تھی۔
یہاں آؤ لعل خان۔ میرے ساتھ شہر چلو گے یہاں سے بہت دور۔ اس سے صرف گردن ہلانے پر اکتفا کیا۔ وہ ادھر تو پہاڑ امارے اوپرگرتا ہے، بہت شور کی آواز آتی ہے، بہت ساری چوٹ بھی آتی ہے۔ اگر شہر میں ام کو ڈر لگے گا تو تم ام کو چھپا لینا، ٹھیک ہے۔
میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے.
لیکن، لیکن تم بتائو، یہ جو تمہارے ساتھ ہے، یہ توتمہیں پلوشے نہیں بلاتی، کیا تم پلوشے نہیں ہو۔ لعل خان نے پوچھا.
ارے تم میرے بھائی ہو نا، تم مجھے جو مرضی بلائو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ میرا نام عائشہ رحمن ہے اور یہ سب مجھے عاشی بلاتے ہیں، جیسے تمہیں کوئی خان کہتا ہے کوئی لالا کہتا ہے، چلو اب چلیں کیونکہ ہم لوگوں نے اور آگے جانا ہے، باقی لوگ میرا انتظار کر رہے ہیں۔
باہر نکلتے ہی نمرہ نے سرگوشی کی کہ یہ سب کیا ہے عاشی؟ اسے کہاں لے لے کر پھرو گی؟ اور کیا انکل مان جائیں گے؟
ڈئیر یہ سب میرے مسئلے ہیں، آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ابھی ہم میں اتنا احساس باقی ہے کہ انسانیت کے ناطے کچھ کر سکیں۔ مادی اشیاء اور ضروریات زندگی ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں مگر رشتوں کا نعم البدل، ان کا لمس، ان کا پیار، ان کی کمی کو پورا نہیں کر سکتے۔ لیکن پورا کرنے کی کوشش ضرور کر سکتے ہیں۔ لعل خان انہی کوششوں میں سے ایک چھوٹی سی کوشش ہے۔ کتنی عجیب سی بات ہے کہ ہم ان بستیوں میں گئے جہاں8 اکتوبر 2005ء میں زلزلہ آیا، ابھی اس کی رپورٹنگ پوری نہیں ہوئی کہ زیارت میں آنے والے زلزے نے تباہیاں مچا دیں۔ اب تو میرے ملک کے حالات شدید خراب ہوتے جارہے تھے۔
نجانے کتنے معصوم ایسے ہوںگے جنہیں ابھی لوریوں کی ضرورت ہوگی۔گاڑی زیارت کی طرف رواں دواں تھی مگر میں عائشہ رحمن لوریوں کے پیکٹ کی سوچ میں گم۔ کیا ہم یہ چیزیں ان کو دے سکیں گے، ابھی تو ایک لعل خان اس کے سامنے ہے، نجانے اس جیسے کتنے اس بستی میں اور زیارت اور کوئٹہ میں منتظر ہوںگے جنہیں کھانے پینے کی اشیاء، لباس کے ساتھ ساتھ ان رشتوں کا پیار بھی چاہیے ہوگا۔ کیا ہم انہیں وہ پیار، وہ لوریاں دے سکیں گے؟ اسے لگا جیسے فضا بھی کچھ کہہ رہی ہے:
کوئی لوری سنائو
ابد کے دیس سے آتی ہواؤ
تم اپنے نرمگیں ہاتھوں سے ان کو تھپتھپائو
کوئی لوری سنائو
یہ بچے راتوں کو سوتے نہیں ہیں
کھلونوں سے بہت بہلایا ان کو
زمیں کا زخم بھی دکھلایا ان کو
سمجھ لو ہر طرح سمجھایا ان کو
مگر یہ سب سمجھتے نہیں ہیں
ذرا سا مسکراتے نہیں ہیں
مسلسل بین کرتے ہیں
بہت بے چین کرتے ہیں
ابد کے دیس سے آتی ہواؤ
تم اپنے نرمگیں ہاتھوں سے ان کو تھپتھپائو
کوئی لوری سنائو۔
تبصرہ لکھیے