ہوم << ایک استاد نے کیسے میری زندگی تباہ کی - مصطفی ملک

ایک استاد نے کیسے میری زندگی تباہ کی - مصطفی ملک

مصطفی ملک ممکن ہے میری اس تحریر سے بہت سے لوگوں کو دکھ پہنچے مگر جس واقعے نے میرا مستقبل تباہ کردیا اور میں باوجود لاکھ کوشش کے آج تک اسے منظر عام پر نہ لا سکا۔
سلام ٹیچر ڈے نے میرے زخم ایک بار پھر تازہ کر دیے اور سالوں بعد آج لکھنے پر مجبور کر دیا۔ اسی کی دہائی کے آغاز کی بات ہے، میٹرک کے بعد کالج جانے کا شوق پھر پری میڈیکل میں داخلہ اور ڈاکٹر بننے کا خواب، ایسا سہانا سپنا ہے جو ان دنوں ہر نوجوان کو ہوائوں میں اڑا کے رکھ دیتا ہے۔ میں نے بھی میٹرک میں اپنے اچھے نمبروں کی وجہ سے شہر کے معروف کالج میں داخلہ لیا، سارے دوست بھی وہیں تھے، والدین سے ضد کرکے نئے کپڑے اور جوتے خریدے کیونکہ ان دنوں کالجوں میں یونیفارم لازمی نہیں تھی۔ کالج میں یہ ہمارا دوسرا یا تیسرا دن تھا، فرسٹ ایئر فولنگ سے بچنے کے لیے ہم دیہاتوں سے آئے نئے ”چوزے“ کبھی ادھر اور کبھی ادھر چھپ رہے تھے۔ کالج کے لمبے کاریڈور میں ہمارے آگے آگے ایک محترم استاد تشریف لے جارہے تھے کہ سیٹی جیسی تیز آواز ایک طرف سے آئی، موصوف نے مڑ کر دیکھا اور مجھے کہا کہ پہلے ہی دن اساتذہ سے مذاق، میری جان نکل گئی، میں نے کہا کہ سر میں نے کچھ نہیں کیا، غصہ سے واپس پلٹے تو سیٹی کی وہی تیز آواز دوبارہ مجھے اپنے پائوں کے نیچے سے آتی محسوس ہوئی، پروفیسر صاحب پھر پلٹے تو میں ڈر کے مارے زمین پر بیٹھ گیا، میں نے جوتا اتار کر دیکھا تو اس کے تلوے نیچے ایک باریک کیل کی نوک باہر نکلی ہوئی تھی جس نے فرش پر رگڑ پیدا کرکے سیٹی جیسی آواز نکال دی تھی، میں نے انہیں صورحال بتائی تو وہ بجائے میری بات سنتے، مجھے سخت سست کہتے چلے گئے، میں بھی بہت شرمندہ ہوا، کوشش کر کے کیل کو جوتی سے نکالا اور اپنی کالج لائف کا پہلا پیریڈ پڑھنے کے لیے لیکچر ہال کا رخ کیا۔
حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ وہی پروفیسر صاحب لیکچر ہال میں موجود ہیں، میں چونکہ ایک لائق طالبعلم تھا اور پہلی سے دسویں تک ہمیشہ پہلے ڈیسک پر بیٹھتا رہا، اس لیے حسب عادت فرنٹ لائن میں بیٹھنے کی کوشش کی تو صاحب کا پہلا آرڈر موصول ہوا،
”میرے پیریڈ میں آپ کو میرے سامنے بیٹھنے کی اجازت نہیں، پیچھے چلے جائیں.“
یا اللہ خیر! یہ کیا ہوا، پہلا دن، نئی جگہ، نئے لوگ، یہ کیسا تعارف۔ کلاس ختم ہوئی تو سٹوڈنٹس نے مجھے گھیر لیا، بھائی کیا ہوا؟ یہ صاحب آپ کو پہلے سے جانتے ہیں؟ ایسا کیوں کہا؟ میرے پاس تو کسی سوال کا جواب نہ تھا، صبح جو ہوا وہ بتا دیا۔
کلاسز کا باقاعدہ آغاز ہوگیا، سر آتے اور مجھے کھڑا کر لیتے، کوئی ایسا سوال پوچھ لیتے جس کا پڑھے ہوئے نصاب سے تعلق ہی نہ ہوتا، کبھی کلاس سے باہر جانے کا کہہ دیتے، کبھی سارا پیریڈ کھڑا رہنے کی سزا دے دیتے، شرمندگی اور احساس کمتری کا ایک احساس پیدا ہونا شروع ہوگیا جس نے ذہن کو کند کرنا شروع کر دیا، لڑکپن کے ہنسی خوشی کے دن ہوا ہونے لگے۔ دوستوں نے حالت دیکھی تو ایک نرم مزاج پروفیسر صاحب سے ملاقات کرکے ان صاحب سے دوبارہ ملاقات کرنے اور معافی مانگنے کا پروگرام بنا لیا، پروفیسر صاحب نے حامی بھر لی کہ پہلے ان سے ملاقات کر لیتا ہوں، بعد میں آپ سب کو بھی لے کر چلا جائوں گا۔ دوسرے دن انہوں نے انتہائی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ملاقات کرنے اور معافی دینے سے انکار کرتے ہوئے مزید سبق سکھانے کا اعلان کر دیا ہے۔
بہرحال دو سال گزر گئے، داخلے بھجوانے کا وقت آگیا۔ ”سر“ نے میرے لیکچرز شارٹ کر دیے، کالج انتظامیہ نے میرا داخلہ بھیجنے سےانکار کر دیا۔ میں ایک دفعہ پھر ان کے پاس حاضر ہوگیا، گڑ گڑا کر ان سے التجا کی کہ سر کتنی دفعہ آپ سے معافی مانگ چکا ہوں، خدا کے واسطے میرے ساتھ یہ ظلم نہ کریں، داخلہ نہ گیا تو میری تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا، اور گھر والے کسی موٹر سائیکل مکینک کی دکان پر بٹھا دیں گے، میرا مسقتبل تباہ ہوجائے گا مگر اس اللہ کے بندے نے میری ایک نہ سنی اور میرا داخلہ نہ جا سکا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا، اور میں بھائیوں کے ساتھ کاروبار میں شریک ہو گیا۔ دل سے تعلیم چھوٹنے کا دکھ جاتا نہیں تھا، کئی سال بعد پرائیویٹ ایف اے کیا، بی اے کیا، فکر معاش کی وجہ سے ماسٹرز کرنے کا شوق دل میں ہی رہ گیا۔
سلام ٹیچرز ڈے آتا ہے تو دل کے پھپھولے پھوٹ پڑتے ہیں، اور وہ صاحب یاد آتے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ بہت کوشش کے باوجود میں ان کو معاف نہیں کر سکا لیکن اس کہانی میں پھر بھی ان کی عزت رکھی ہے، ان کا نام مینشن کیا ہے اور نہ ہی کالج کا نام لکھا ہے۔
ممکن ہے کسی اور کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہو، ایسے میں آپ کہیے کہ میرے جیسا طالب علم کیسے سلام ٹیچر کہے.