ہوم << فرعون کا بیک گراؤنڈ - ماجد عارفی

فرعون کا بیک گراؤنڈ - ماجد عارفی

کوئی مانے نہ مانے لیکن ہمیں تو اسی دن ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ سویڈن میں سازشی تھیوری اپنے تانے بانے بن رہی ہے۔ اب بھلا مادے پر تحقیق کرنے والے کو نوبل انعام دینے کی کیا تک بندی؟ چلو دے دیا تو ہماری بلا سے کیا۔ ’’کھسماں دا سر کھائے‘‘ لیکن نوبل انعام کو صرف طبیعات، کیمیا، طب، ادب ، امن اور معیشت میں نمایاں خدمت انجام دینے والوں تک محدود رکھنا، یہ کہاں کا انصاف؟ اگر 1968ء میں معاشیات کے شعبے کو شامل کرلیا تھا تو کیا ان نوبل انعام والوں کو موت پڑتی تھی، اگر یہ شعبہ ’’کھوجیات‘‘ کو بھی اس میں شامل کرلیتے. لیکن کیوں کریں گے جناب؟ انہیں پتا تھا کہ پاکستان کی سرسبز و شاداب زمین کے ایک حصے پہ قائم کسی زمانے میں صفائی میں دوسرے نمبر پر رہنے والے شہر عارفوالا کے ایک ’’معروف مگر غیر مشہور‘‘ گاؤں ’’پکاکھوہ‘‘ میں ایک شخصیت ابھرے گی جو کھوج کے شعبہ میں اگر پاکستان کا نہیں تو اپنے گاؤں کا نام ضرور روشن کرے گی۔ اسی لیے ان گورے سورماؤں نے یہ شعبہ سرے سے داخل ہی نہیں کیا۔
اب آپ مجھے کوس رہے ہوں گے کہ صاحب کچھ کام کی بات بھی کریں گے یا اپنی بپتا ہی سناتے جائیں گے۔ تو جناب عرض ہے کہ پچھلی بار جب ہمیں پتا چلا کہ جناب فرعون کون تھے توچونک ہی اٹھے تھے۔ ہمیں پتا چلا کہ فرعون موچی تھا۔ ظاہر یہ بات اب ایک سائنسی تحقیق کا درجہ پاچکی تھی کہ فرعون کی ذات پات کا پتا لگایا جائے۔ سو الحمدللہ اس کا اولین شرف بھی ہمارے گاؤں کے ایک نامور محقق کو حاصل ہوا۔ لیکن وہ سائنس ہی کیا جو تغیر پذیر نہ ہو۔ سائنسی کی تعریف بھی یہی کہتی ہے۔ سو جناب ہمارے گاؤں میں کوئی ایک محقق تو ہے نہیں۔ اللہ کے فضل سے ایک گولڈن زنجیر ہے ایسے محققین کی۔ ہوا اس بار یوں کہ ہم جب نماز کے بعد مسجد سے باہر نکلے تو ایک صاحب سے پوچھا کہ آپ کے گوڈوں (گھٹنوں) کا درد اب کیسا ہے؟ کہنے لگے بس ویسا ہی جیسے پہلے تھا۔ حالانکہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ پہلے کیسا تھا۔ خیر ہم نے اپنی علمی دھاک ان پر بٹھانے کے لیے انہیں تاریخ پردوں میں الجھانا چاہا۔ عرض کیا کہ آپ کو پتا ہے فرعون کون تھا؟ انجان بنتے ہوئے گویا ہوئے، آپ ہی ارشاد فرمائیے کہ یہ صاحب اصل میں کون تھے۔ ہم نے عرض کیا وہ موچی تھا۔ وہ صاحب ہنسے، گویا ہمارے علم کا مذاق اڑا رہے ہوں۔ لیکن ان کے ہنسنے سے دل کو تسلی ہوئی کہ جس کے خود کے دانت اڑے ہوئے ہوں وہ خاک ہماری ہنسی اڑائے گا۔ ویسے ہم سوچنے لگے کہ ان کی ہنسی کو کیا نام دیں؟ قہقہہ؟ نہیں کیونکہ اس میں آواز کے ساتھ دانت نظر آنا بھی شرط ہے جبکہ وہاں اس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ خیر گولی ماریے ہم نے کیا لینا۔ بجائے اس کے وہ صاحب ہمیں داد تحقیق دیتے، انہوں نے ہماری علمی دھاک کی دھجیاں ہی اڑا کے رکھ دیں۔ کہنے لگے بیٹا! اگر کسی بات کا علم نہ ہو تو ’’بڑوں‘‘ کے سامنے ایسے ’’چولیں‘‘ نہیں مارا کرتے۔ یہ موقع تھا ہمارے شرمندہ ہونے کا۔ لیکن ہم نے بھی کہا کہ ’’ماجد اس کو آدمی نہ جانیے گا جو ایسی باتوں سے شرمندہ ہوجائے۔‘‘
وہ صاحب کہنے لگے فرعون موچی نہیں ، فرعون ’’کمہار‘‘ تھا۔ ہائیں! ہمارا تو ایک معروف صاحب والا ’’تراہ‘‘ ہی نکل گیا۔ ہمیں اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔ پھر سوچا صاحب کے اگلے دانت رخصت پر ہیں تو مسوڑھوں اور ہونٹوں کے تال میل سے آواز کہیں گڈمڈ نہ ہوگئی ہو۔ ہم نے دوبارہ بلکہ سہ بارہ عرض کیا کہ بتائیے وہ کون تھا۔ فرمانے لگے فرعون کمہار تھا۔ مگر کام اس کا سبزیاں بیچنا تھا۔ میں تو یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ فرعون نے جو بعد میں مالیاتی ترقی کی، اس کو دیکھ کر مجھے یہ سب جھوٹ لگا۔ اگر وہ لوہار کہتے تو میں مان لیتا کہ چلو آج کے ’’مشہور‘‘ لوہاروں کی بھٹیاں ترقی کرتے کرتے بڑی بڑی اسٹیل ملز کا روپ دھار چکی ہیں۔ مگر یہ کیا؟ وہ ایک کمہار اور وہ بھی سبزی بیچنے والا! ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ جناب پھر وہ مصر کی بادشاہت تک کیسے پہنچ گیا؟ یقین کریں اگر وہ لوہار کہہ دیتے تو میرے سارے اعتراضات دھواں ہو جاتے کیونکہ آج کل کی صورت حال تو آپ کے سامنے ہی ہے۔ ماشاء اللہ لوہاروں کی ترقی پاکستان کی ترقی سے دگنا رفتار کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
کہنے لگے کہ بظاہر یہ بہت شریف آدمی تھا۔ ٹھیلہ لے کے یہ سبزی بیچنے نکلتا، ہوکے لگاتا، لیکن غریب کی سنتا کون ہے؟ لوگ سبزی تو لیتے مگر مفت لیتے اور پیسے دیتے نہیں تھے۔ ہم نے سوچا یقینا ’’سیسی‘‘ نسل آج کی نہیں بلکہ فرعون کے زمانے کی ہی ہے کیونکہ انہیں بھی ’’چھین‘‘ کر کھانے اور دکھانے کی بہت عادت ہے۔ وہ صاحب بولتے جا رہے تھے کہ یہ بیچارہ فرعون، وقت کے’’سیسیوں‘‘ سے تنگ آگیا۔ آخر تھا تو وہ شاطر دماغ۔ اس نے سب ظالموں کو سبق سکھانے کی ٹھانی۔ چنانچہ اس نے قبرستان پر قبضہ جما لیا کہ ’’ہن پیو دے او تے مردے دفن کرکے وخاؤ‘‘ (کہ باپ کی اولاد ہو تو اپنے مردے دفن کرکے دکھاؤ) ہم نے سوچا ’’فرعون‘‘ قبضوں کے علاوہ اور کر کیا سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ تو آج بھی جاری ہے۔
بہرحال اب جب بھی کوئی مردہ دفنانے کے لیے لاتے تو فرعون اس پر اچھا خاصا ٹکوس (ٹیکس کی خود ساختہ جمع) لیتا۔ لوگ تنگ ہوتے گئے اور یہ فرعون مشہور ہوتا گیا۔ آخر بات شاہی دربار تک پہنچی۔ بادشاہ بھی لالچی تھا۔ اس نے سوچا یہ آدمی بہت چالاک معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مردے دفن کرنے پر ٹیکس لگادیا۔ کیوں نہ اسے اپنے دربار میں مصاحب خاص کا درجہ دیا جائے۔ چنانچہ فرعون کی دربار میں طلبی ہوئی، مختصر انٹرویو کے بعد اسے مصاحب خاص کے اعزاز سے نواز دیا گیا۔ پھر اس نے بادشاہ کو وہ وہ طریقے ٹیکس اکٹھے کرنے کے بتائے کہ آج کے ’’منشی‘‘ (آ پ وزیر خزانہ بھی کہہ سکتے ہیں) بھی ان کے آگے پانی بھرتے نظر آئیں۔
ہمارا سوال تو جوں سے توں تک یعنی جوں کا توں باقی تھا۔ آخر فرعون ناہنجار بادشاہ کیسے بنا؟ کہنے لگے کہ فرعون اپنی ذہانت سے وزیر بنا۔ پھر وزیر اعظم بنا۔ جب بادشاہ مرگیا تو اس نے شاطرانہ طریقے سے شاہی تخت پر قبضہ کرلیا۔ یوں ایک سبزی فروش بادشاہ بن گیا۔ چنانچہ نیا انکشاف ہوا کہ فرعون موچی نہیں ’’کمہار‘‘ اور سبزی فروش تھا۔
اب آپ ہی بتائیے کہ جس شخص نے اتنی تگ و دو کی ہو، کتابوں کی کتابیں کھنگال ڈالی ہوں، فرعون کی ہستی کی اصل کھوجنے کے لیے اس نے اپنے دانت تک گھسا دیے ہوں، ایسے میں اگر اسے ’’کھوجیات‘‘ کے شعبے میں انعام نہ ملے تو یہ نری زیادتی بلکہ مہان زیادتی نہیں؟ اور کیا سویڈن میں واقعی بہت بڑی سازش نہیں ہوئی؟