ہوم << اس جنگ کو کون روکے گا-انصار عباسی

اس جنگ کو کون روکے گا-انصار عباسی

Ansar-Abbasi-1
ہندوستان سے جنگ کے خطرات کی گھنٹیاں بجیں تو پوری پاکستانی قوم متحرک ہو گئی۔ وزیر اعظم نے کابینہ کا فوری اجلاس طلب کیا، سیاسی اتفاق رائے کے لیے حکومت نے وزیر اعظم کی سربراہی میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر لی، پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بھی بلا لیا گیا۔ مسلح افواج اپنی تمام تر تیاریوں میں مگن ہیں، دفتر خارجہ سفارت کاری میں مصروف ہے، میڈیا دن رات ان کشیدہ حالات پر خبریں اور تبصرے پیش کر رہا ہے، اسی موضوع پر ٹاک شوز پر ٹاک شوز ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں ایک بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ جنگ سے دونوں ملکوں میں تباہی ہو گی اس لیے بہتر یہی ہے کہ مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کیا جائے اور یہ کہ اس کشیدگی کی اصل وجہ مسئلہ کشمیر کو حل کیا جائے۔ چلیں یہ سب بہت اچھا ہو رہا ہے لیکن ہماری ملک میں ایک اور جنگ، جو پاک بھارت کشیدگی اور دونوں ملکوں کی ممکنہ جنگ کے نتائج سے بھی بہت خطرناک ہے پاکستان میں رہنے والوں کو اُس کا سامنا ہے جس کی طرف کسی کی کوئی توجہ نہیں۔
ہمارے ملک میں جاری سودی کاروبار، سودی بینکاری اور سودی نظام معیشت اسلامی احکامات کی ایسی سنگین خلاف ورزی سے جس کے متعلق قرآن حکیم میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ کی بات کی گئی ہے ۔ ایسی جنگ میں پڑنا تو ہماری آخرت کی تباہی کا ذریعہ بن سکتا ہے لیکن اس جنگ کے خاتمہ کے لیے یہاں کچھ نہیں ہو رہا۔ نہ اس مسئلہ پر کابینہ کا اجلاس ہو رہا ہے اور نہ ہی سیاسی رہنمائوں کی آل پارٹیز کانفرنس اور پالیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایاجارہا ہے۔ میڈیا تو سود کے متعلق بات کرنے کی بھی تکلیف نہیں کرتا۔ ٹاک شوز اور ہمارے اینکرز کے لیے بھی اس مسئلہ کی اتنی اہمیت نہیں کہ اس پر بھی بار بار بات ہو یہاں تک کہ پاکستان کو سود کی لعنت سے پاک کردیا جائے اور اسلام کے خلاف جاری اس جنگ کا خاتمہ کیا جا سکے۔
کوئی اگر یہ سوال اٹھائے کہ کس کس اینکر نے اس موضوع پر گزشتہ ایک سال میں ایک بھی پروگرام کیا تو جواب ممکنہ طور پر نفی میں ہی ملے گا۔گزشتہ روز وفاقی شریعت عدالت میں سود کے خاتمہ کے متعلق کیس کی سماعت ہوئی لیکن حکومت یا اسٹیٹ بینک میں سے کسی نے کوئی خاص دلچسپی نہ لی۔ بلکہ انہوں نے اپنے وکیل بھی پیش کرنے کی تکلیف محسوس نہ کی۔ اس کیس کو سننے والے وفاقی شریعت عدالت کے بنچ نے نہ حکومت کو ڈانٹا نہ اسٹیٹ بینک کے گورنر کو فوری طلب کیا بلکہ بہتر سمجھا کہ سماعت کو ہی ملتوی کر دیا جائے۔ اب اس اہم ترین کیس کی اگلی سماعت کب ہو گی، کسی کو کوئی خبر نہیں۔ منگل کے روز کی سماعت کی تاریخ وفاقی شریعت عدالت نے کئی ماہ گزرنے کے بعد دی تھی اور کچھ کیئے بغیر ہی یہ کیس پھر نجانے کب تک کے لیے لٹک گیا۔مسئلہ کتنا سنگین ہے، جنگ کی نوعیت کتنی خطرناک ہے لیکن 2002-2003 سے یہ کیس وفاقی شریعت عدالت میں لٹکا ہوا ہے۔13-14 سالوں میں شاید اس کیس کی 13-14 مرتبہ بھی سماعت نہیں ہوئی۔
حکومت، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی طرف سے جس سردمہری کا اظہار اس کیس میں کیاجا رہا ہے اُس کے تناظر میں مجھے شک ہے کہ موجودہ صدی میں بھی اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ہندوستان کے ساتھ جنگ سے بچنے کے لیے سب بے تاب ہیں، سر جوڑ کے بیٹھے ہر ممکنہ تدبیر پر غور کر رہےہیں کہ کہیں نقصان نہ ہو جائے لیکن جو جنگ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ جاری ہے اُس کو روکنے کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔ آخر میں میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ حکمرانوں، سیاستدانوں، پارلیمنٹ، عدلیہ (خصوصاً سپریم کورٹ اور وفاقی شریعت عدالت)، میڈیا تک اللہ کی بات پہنچا دوں شاید کہ کوئی اس اہم ترین مسئلہ کی طرف بھی توجہ دے دے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ البقرہ میں فرماتے ہیں:’’جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت کے روز) یوں کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے کسی کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے رب سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھا چکا سو کھا چکا۔ اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ البتہ جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے، نماز قائم کرتے رہے اور زکوۃ ادا کرتے رہے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ انہیں نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا اسے چھوڑ دو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اور اگر (سود سے) توبہ کر لو تو تم اپنے اصل سرمایہ کے حقدار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘

Comments

Click here to post a comment