ہوم << مولانا مودودی کے متاثرین!-افضال ریحان

مولانا مودودی کے متاثرین!-افضال ریحان

afzal Rehan
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی عصر حاضر کے بہت بڑے عالم دین اور مذہبی رہنما تھے۔ آپ 25ستمبر 1903ء کو اورنگ آباد میں پیدا ہوئے اور 22ستمبر 1979ء کو امریکہ کے ایک ہسپتال میں انتقال فرما گئے۔ ان کا جسدخاکی ان کی 76 ویں سالگرہ والے دن امریکہ سے لاہور پہنچایا گیا اور 26 ستمبر کوقذافی سٹیڈیم میں نماز جنازہ کے بعد علم و عرفان کا یہ گنج ہائے گراں مایہ اپنے گھر کے لان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ زندگی میں چار مواقع پر انہیں سننے یا ان کی زیارت کرنے کے مواقع میسر آئے۔ ان تمام واقعات کی تفصیل ہماری لوحِ شعور پر حرف بہ حرف نقش ہے جو کسی وقت بالتفصیل سپرد قلم و قرطاس کی جائے گی لیکن آج ان کی فکر کے حوالے سے چند گزارشات پیش خدمت ہیںکیونکہ ہماری نظر میں فکرِ مودودی کا کمال یہ ہے کہ وہ ہماری آج کی مذہبی دنیا پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے۔
ہماری مذہبی تحریکیں خواہ بظاہر ان کے خلاف بولتی ہوں، لیکن براہ راست یا بالواسطہ طور پر، فکر مودودی ہی کی خوشہ چین ہیں یا یہ کہ بڑی حد تک اس کو اپنا کر چل رہی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ معاملہ محض پاکستان تک محدود نہیں، پورے عالم اسلام پر اس کی چھاپ ہے بلکہ وہ اقوام و ممالک جو عالم اسلام کا حصہ نہیں ہیں، وہاں بھی دیگرمذاہب والوں نے اگر اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنا ہو تو کسی حد تک مولانا مودودی کے خیالات عالیہ سے استفادہ کرتے ہیں اور ان غیراسلامی ممالک میں جو اسلامی تحریکیں اٹھتی اور بیٹھتی رہتی ہیں۔ انہوں نے کافی حد تک بالفعل فکر مودودی کو اپنا رکھا ہے۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج کی مسلم دنیا کے بہت بڑے طبقے پر فکر مودودی کی چھاپ کا ہمہ گیر غلبہ ہے اور یہی مولانا مودودی کا کمال ہے کہ انہوں نے اپنے دین و مذہب کو محض دین و مذہب نہیں رہنے دیا بلکہ اس سے بڑھا کر اسے طرز زندگی، نظام حیات بلکہ مکمل ضابطہ حیات کی اصطلاحات اپنا کر یا بنا کر پیش کیا۔ کیا حقیقی طور پر خود اسلام کا بھی یہی مطمح نظر ہے یا مولانا مودودی نے اپنی افتاد فکری سے یہ پیوندکاری کی؟ یہ ایک قابل بحث نکتہ ہے۔ تقاضائے فطرت انسانی ہے کہ جس آئین نے عالمگیر و ابدی مقام حاصل کرنا ہو، اس کا ایجنڈا وسیع تر نہیں مختصر ترین ہونا چاہئے۔ دیگر امور و معاملات اور ان کی تفصیلات کو مختلف ادوار میں اٹھنے والے انسانی تقاضوں کی مطابقت میں اجتماعی شعور انسانی پر چھوڑ دینا چاہئے، تبھی وہ چیز عالمگیر قرار پا سکتی ہے اور تبھی اس میں ابدیت و دوام کے عناصر شامل رہ سکتے ہیں۔
مولانا مودودی نے کسی مستند دینی مدرسے میں زانوے تلمذ تہہ کئے اور نہ کسی جدید کالج یا یونیورسٹی کے ماحول میں پروان چڑھے۔ اس کے باوجود ان کی ذات کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دونوں طبقات کے کئی نمایاں حضرات کو اپنا گرویدہ و پیروکار بنالیا۔ ڈگری و سند کے بغیر وہ اتنے مستندٹھہرائے کہ ٹائی و عمامے والے ان کے سامنے سرنگوں ہو گئے۔ اے کے بروہی اور مفتی محمود نے ان کے انتقال پر انہیں دین و مذہب پر اتھارٹی قرار دیا۔
بلاشبہ وہ پاکستان اور یہاں کی مسلم سوسائٹی کو اپنی فکری امنگوں کے مطابق ڈھالنے میں ناکام رہے لیکن انہوں نے اسے سرسید اور جناح صاحب کے پیروکاروں کی مطابقت میں بھی نہیں چلنے دیا۔ اگر موجودہ پاکستان میں دینی تحریکوں کی قوت و طاقت کے مظاہر پیش نظر رکھیں تو ماننا پڑے گا کہ یہ قائداعظم کا نہیں قائد ’’اعلیٰ‘‘ کا پاکستان ہے۔یہاں کی حکومتیں کیا فوجی، کیا جمہوری، شدت پسند جماعتوں کے پریشر گروپوں کے سامنے کھڑے ہونے یا ڈٹ جانے کا یارا نہیں رکھتیں۔ بلاشبہ اس میں دیگر دینی شخصیات و مدارس کے رول سے بھی انکار نہیں، لیکن ان سب کے سرخیل مولانا مودو ی اور ان کی چھوڑی ہوئی سخت گیر و منظم وہ جماعت ہے، جس کے وابستگان پہلے پہل انکی تحریروں سے حرارت پاکر آمادہ حرکت و تحریک ہوئے۔
مولانا کی تحریریں بظاہر عام فہم، سادہ اور دلنشین ہیں، لیکن درحقیقت ان میں بلا کی کاٹ ہے جو اپنے عام فہم دینی مزاج کے حامل مخلص قاری کو اپنے پورے ماحول اور سوسائٹی سے کاٹ کر الگ کر دینے کی قوت رکھتی ہیں۔ بظاہر سو فیصد مدلل تحریریں ہیں لیکن جہاں دلیل نہ مل رہی ہو یا کار گر ثابت نہ ہو رہی ہو، وہاں بڑی خوبصورتی کے ساتھ جذبات کو ابھار کر یوں کام چلا لیا جاتا ہے کہ قاری کو احساس تک نہیں ہو پاتا وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ یہ بھی ایک نوعیت کی دلیل ہے۔ یوں ان کی تحریر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے حتیٰ کہ ان سے دور جانے والا بھی وہیں کہیں آس پاس ہی گھوم پھر رہا ہوتا ہے۔ ذاتی طورپر میں خودنوخیزی و اوائل عمری میں ہی اس تحریر کا ایسا اسیر ہوا کہ مابعد کے مسلسل مطالعہ و ریاضت کی چھلانگوں کے باوجود ہنوز اس کے سحر و طلسم سے نکل پایاہوں یا نہیں اس کا فیصلہ قارئین ہی کر سکتے ہیں۔ گو ’’مودودی سے سر سید تک‘‘ کا سفر نامہ تیار کرلیا لیکن ہنوز اسے تحریر نہیں کرپایا۔